فیصلہ تجزیے اور تبصرے

آثار بتاتے ہیں کہ شریف خاندان کو ملنے والے ریلیف کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔


سردار قریشی September 26, 2018
[email protected]

گزشتہ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں معطل کرکے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو رہا کیے جانے کے بعد سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ مختلف تجزیوں اور تبصروں کے علاوہ عدالتی فیصلے پر سیاست دانوں کا ملا جلا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔

عدالت عالیہ نے نیب کی ٹیم کو، جو مقدمے کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام رہی اور جسے دو مرتبہ جرمانے کا بھی سامنا کرنا پڑا، مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے۔

مبصرین اور تجزیہ کاروں نے اسے بہت کچھ کھونے کے بعد نواز شریف کے کیس میں مثبت پیشرفت قرار دیا ہے اور تجزیہ کاروں کی رائے میں عدالتی فیصلے کی صورت میں شریف خاندان کو ایک عارضی مگر خصوصی اہمیت کا حامل ریلیف ملا ہے ۔ میاں نواز شریف کے اڈیالہ جیل میں گزارے ہوئے 68 دنوں کے دوران ملک کا پورا سیاسی منظر تبدیل ہوچکا ہے، ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھوں مرکز خواہ پنجاب دونوں میں شکست کھا چکی ہے، چاروں صوبوں کے گورنر تبدیل ہوچکے ہیں، شہباز شریف اب پنجاب کے وزیر اعلی ٰ نہیں رہے اورکلثوم نواز اس جہان فانی سے کوچ کرچکی ہیں۔

اس بہادر خاتون نے لندن کے ایک اسپتال میں ایسی حالت میں وفات پائی کہ ان کے شوہر، بیٹی اور داماد تینوں جیل میں تھے۔ نواز شریف اور مریم نے 13 جولائی کو مرحومہ کو بیماری کی حالت میں اسپتال میں چھوڑکر وطن واپس آکر گرفتاری دی تھی۔ تب ان کے مخالفین کلثوم نواز کی بیماری کو ڈرامہ قرار دیکر اس کا مذاق اڑا رہے تھے، تاہم ان کی وفات نے ان سب کے منہ بند کردیے اورکئی ایک کو اپنے رویے کی معافی بھی مانگنی پڑی۔

ایک تجزیہ کارکے مطابق نواز شریف اسیری کے 68 دنوںمیں سیاسی اور جذباتی اعتبار سے بہت کچھ کھوچکے تھے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں رہائی پانے سے ان کے کیس میں مثبت پیشرفت آئی ہے، نیب احتساب عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی، اس کے پاس نہ تو دلائل تھے اور نہ ہی وہ نواز شریف، ان کی بیٹی اور داماد کو جیل میں رکھنے کے لیے کوئی جواز پیش کرسکی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیر بحث فیصلے کی صورت میں شریف خاندان کو ایون فیلڈ ریفرنس میں عارضی ریلیف ضرور ملا ہے لیکن اگر اپیل کا حتمی فیصلہ بھی اس کے حق میں آجائے تب بھی اس خاندان خاص طور پر میاں نواز شریف کو کلین چٹ حاصل کرنے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنی پڑے گی کیونکہ ان کا دیگر دو ریفرنسز میں کلیئر ہونا باقی ہے لہذا میاں صاحب، ان کے خاندان اور پارٹی کو اپنے جذبات اور اعصاب کو قابو میں رکھتے ہوئے صبرواستقامت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

فی الحال نواز شریف کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے جلسے جلوس نکالنا ممکن نہیں ہوگا جب کہ شہباز شریف کو بھی اپوزیشن پارٹیوں کو متحد رکھنے میں سخت مشکل پیش آرہی ہے اور وہ اپنے جانشین عثمان بزدارکی ناقص کارکردگی سے کوئی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

بطور قائد حزب اختلاف ان کے مطالبے پر اگرچہ حکومت 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنانے پر تیار ہوگئی ہے لیکن کوئی بھی اس حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کیونکہ کمیشن بنانے پر آمادگی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت نے بار ثبوت اپوزیشن پر ڈال کر اس کا کام اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ ایک تجزیہ کار نے بالکل صحیح کہا ہے کارکردگی دکھانے کے لیے پہلے 100 دن صرف حکومت کے لیے ہی بے حد اہم نہیں ہیں، بلکہ اس عرصے کے دوران اپوزیشن کو بھی کڑے امتحان سے گزرکر اپنی صلاحیتوں اور قوت کا لوہا منوانا ہوگا۔

دریں اثنا رہائی کے بعد پارٹی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا انھیں اپنی بے گناہی کا یقین تھا اور ان کا ضمیر مطمئن ہے۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اڈیالہ جیل میں اپنے بھائی شہباز شریف سمیت ملاقات کے لیے آئے ہوئے لیگی رہنماؤں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا اللہ ہمیشہ حق و انصاف کا ساتھ دیتا ہے، وہ مجھے بھی انصاف دے گا۔

عدالتی فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لیگی رہنماؤں احسن اقبال، خواجہ آصف ، حمزہ شہباز اور دیگر نے کہا نواز شریف کو سنائی گئی سزا انتقام تھا جس کا مقصد انھیں انتخابی میدان سے باہر کرکے عمران خان کے لیے راہ ہموار کرنا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نان پی سی او انصاف کی ایک جھلک ہے۔ پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن کریم کی اس آیت کا حوالہ دیا کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے کے لیے ہی ہے۔

دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے بھی عدالتی فیصلے پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ، مولانا فضل الرحمان نے کہا عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ اسفندیار ولی نے نواز شریف کی سزا معطلی کے فیصلے کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا، میاں افتخار نے کہا فیصلے کا نتیجہ نواز شریف کی مکمل رہائی کی صورت میں سامنے آنا چاہیے تھا ۔

دوسری طرف حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شریف خاندان اب بھی یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ان کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے تاہم ، دوسرے عدالتی فیصلوں کی طرح ہم اس فیصلے کا بھی احترام کرتے ہیں ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے کہا کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے عمران خان کو بروقت آگاہ کردیا گیا تھا جو اس وقت سعودی عرب میں تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت مریم نواز کے لیے سیاست میں آنے اور اپنی صلاحیتیں منوانے کے دروازے کھل گئے ہیں، آنے والے مہینوں میں سیاسی تبدیلی نظر آسکتی ہے لیکن فوری طور پر اس کا کوئی امکان نہیں، انھوں نے مزید کہا کہ نیب کوپہلے دن سے ہی غلط استعمال کیا گیا جس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا ۔

اپوزیشن کی دوسری بڑی پارٹی پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی فیصلے کو شریف خاندان کے لیے ریلیف قراردیا، سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی رہائی سے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی جب کہ قمر زماں کائرہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو ہمیشہ ریلیف ملتا رہا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے میں فیصلے سے ن لیگ کو وقتی طور پر سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ باقی ماندہ دو ریفرنسز میں مریم کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں البتہ نواز شریف پھنس سکتے ہیں ۔ شریف خاندان کے قریبی حلقوں کے مطابق مریم نواز نے پارلیمانی سیاست میں آنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ این اے 127 سے ضمنی الیکشن لڑیں گی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک نواز شریف اور مریم اڈیالہ جیل میں 69 دن جب کہ کیپٹن صفدر 74 دن گزار چکے تھے۔

آثار بتاتے ہیں کہ شریف خاندان کو ملنے والے ریلیف کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اسے کرپٹ اور بے ایمان ثابت کرنے کی نیب کی تمام تر کوششیں ناکام ہوگئیں، اس کے پراسیکیوٹر شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کے سامنے بے بس نظر آئے اور وہ ان کے دلائل کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے پاناما گیٹ کیس کی بنیاد بننے والی جے آئی ٹی رپورٹ کی قدر و قیمت گھٹ گئی ہے۔ فیصلے کے اعلان سے قبل فاضل ججز نے جو سوالات اٹھائے ان کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جن کا نیب کی قانونی ٹیم سے کوئی جواب نہیں بن پایا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں