عالمی کرنسی وار حصہ دوم

دراصل برطانیہ درآمدات اور برآمدات پر ٹیکس لگا کر غلام انڈیا کی صنعتیں ختم کرتا تھا۔


خالد گورایا September 09, 2018
[email protected]

یاد رہے ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اپنا اپنا ''ذاتی نفع تاجری'' ہر حالت میں حاصل کرتے ہیں چاہے کہ تجارتی خسارہ یا تجارت سرپلس ہوتی ہو ۔ یہ دونوں اشیا کی مہنگائی کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کردیتے ہیں۔

اشیا کی لاگتیں بڑھنے کی بنیادی وجہ برطانوی دور غلامی میں برطانوی حکومتی ٹیکس ہوتا تھا ، جو سال میں ایک بار لگتا تھا۔ ملکی بجٹ کے حوالے سے مالی سال 1948-49 کو حکومتی ریونیو 95 کروڑ64 لاکھ روپے تھا اور مالی سال 1955-56 میں ریونیو ایک ارب 27 کروڑ68 لاکھ 6 ہزار روپے تھا ۔ 7 سالوں کے دوران 33.50 فیصد ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔

جولائی 1955 کو امریکی حکم پر حکومت نے ملکی کرنسی روپے پر ڈالر ٹیکس Currency Devaluation Minus Economic Development لگادیا تھا جو براہ پورے کی مجموعی معیشت پر لاگو ہوگیا۔ (1)۔ صنعتی کلچر کی لاگتیں اسی CDMED نسبت سے 33.50 فیصد سے بڑھ گئیں جس کے نتیجے میں ملکی صعنتی اشیا مہنگی ہوگئیں اور غیر ملکی اشیا سستی ہوگئیں جس کی وجہ سے امپورٹ بڑھ گئی ۔ ایکسپورٹ کم ہوگئی۔

دراصل برطانیہ درآمدات اور برآمدات پر ٹیکس لگا کر غلام انڈیا کی صنعتیں ختم کرتا تھا۔ امریکا نے براہ راست پورے ملک کی معیشت اور حکمرانوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ یاد رہے کہ امریکی سڈ مڈ جوں جوں ہر حکومت کے دور میں امریکی ادارے آئی ایم ایف کے حکم و شرائط کے ساتھ لگایا جاتا رہا توں توں ملکی صنعتی کلچر ختم ہوتا گیا ۔

بے روزگاری بڑھتی گئی اور ہمارے غریب جوان غیر ملکوں میں جاکر مزدوری کرنے پر مجبور کردیے گئے۔ ان مزدوروں کو غیر ملکوں میں نہایت سستے ڈالروں و دیگر کرنسیوں کے لیے کم سے کم اجرت پر مزدوری یا نوکریاں کرنی پڑیں۔ ذلت آمیزی کے نتیجے میں پاکستان کا وقار آئے روز گرتا گیا۔

یاد رہے کہ امریکا عالمی مالیاتی سازش کو کامیاب کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ہتھکنڈے استعمال کرتا آرہا ہے (1)۔ڈالر کے مقابلے میں معاشی غلام ملک کی کرنسی کی قیمت کم کراتا ہے۔ (2)۔اس ملک کا صنعتی کلچر خساروں کا شکار ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ (3)۔معاشی غلام ملک کی ایکسپورٹ کم ہوتی جاتی ہے اور غیر ملکی درآمدات (امپورٹس) بڑھتی جاتی ہیں۔ (4)۔سڈمڈ CDMED لگنے سے پورے ملک کی معیشت خسارے میں چلی جاتی ہے پھر امریکا تجارتی خسارے سے نکلنے کے لیے متاثرہ ملک کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ (5)۔معاشی غلام ملکوں میں جوں جوں ان کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کی جاتی رہی ہے۔ توں توں ان کے ملکوں کے ملکی غدار حکمرانوں نے سامراجی قرضے در قرضے لینے شروع کردیے اور جب 1990 کے بعد سابقہ سوویت یونین تحلیل ہوا تو امریکی عالمی مالیاتی پالیسیاں تبدیل ہوگئیں۔

امریکا نے نیا پروگرام Stabilisation Structrual Adjustment Programe کے نام سے شروع کیا جس کی شرائط مندرجہ ذیل تھیں اور امریکا ان شرائط پر اب تک حکومتوں کے ذریعے عمل کراتا آرہا ہے۔ (1)۔ملکی معیشت کو عالمی سامراجیوں کی معیشت کے تابع کیا جائے یا جوڑا جائے۔ (2)۔معیشت کے شعبوں میں حکومتی کردار کم سے کم کیا جائے۔ (3)۔عالمی منڈی کی بڑی معاشی قوتوں کو ملکی معیشت میں بڑا کردار ادا کرنے دیا جائے اور ان کو یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو آزادانہ کردار ادا کرنے میں سہولتیں دی جائیں۔(4)۔قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے دینے شروع کردیے۔ (5)۔معاشی غلام ملکوں کو حکم دیا گیا کہ ملکی کرنسیوں کی قیمتوں میں ڈالر کے مقابلے میں مسلسل کمی کی جائے۔ (6)۔عوام کو دی جانے والی اعانتیں Susbides کو بتدریج ختم کیا جائے۔ (7)۔ملکی انتظامی اداروں میں نئی بھرتیوں پر پابندی لگائی جائے اور 1991 میں حکومت نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرکے نئی بھرتیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ (8)۔بجٹ خسارا پورا کرنے کے لیے ملکی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ یاد رہے کہ سامراجی امریکا کا حکم تھا کہ غیر ضروری اخراجات ختم کیے جائیں (یعنی سادگی اختیار کی جائے) حکومتی اداروں میں خالی ہونے والی جگہوں پر نئی بھرتیاں نہ کی جائیں یعنی حکومتی اخراجات کم کیے جائیں اور نجکاری پروگرام کو فروخت دیا جائے اس طرح امریکا ملکی وسائل سمیت انتظامی اور ملکی معاشی منیجروں کو بھی اپنے حکم پر چلانے لگا۔

یاد رہے کہ برطانوی سامراج برطانوی درآمدات (امپورٹ) پر ڈیوٹی بڑھا دیتا تھا اور برطانوی ایکسپورٹ پر غلام ہندوستان میں ڈیوٹی کم کرکے برطانوی صنعتی کلچر کو بڑھاتا تھا اور غلام ہندوستان کے صنعتی کلچرکو ختم کرتا تھا۔

امریکا سڈمڈ CDMED لگا کر تمام معاشی غلام ملکوں کی معیشت کا رخ سامراجی ملکوں کی طرف کرتا ہے۔ یعنی ان ملکوں کی اعلیٰ تر اشیاؤ کا رخ اور بہاؤ سامراجی ملکوں کی طرف ہو رہا ہے کیونکہ سڈمڈ لگنے کے بعد ہماری اعلیٰ اشیاؤں کی قیمتیں سڈمڈ لگتے رہنے سے نفع کے لیے باہر منتقل ہو رہی ہیں۔ اسی طرح افرادی قوت اگر باہر کم سے کم اجرت حاصل کرتی ہے تو ان کم ڈالروں پر ملک میں ڈالر ٹریڈنگ میں زیادہ نفع حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح اشیاء کی ایکسپورٹ اسی میکنزم پر چل رہی ہے۔یعنی جو امریکی معاشی سسٹم ہے۔

یہ نفع اور سود پر ہی زندہ ہے۔ سرمایہ داری میں عوام، ملکی وسائل اور انتظامی ادارے سرمائے کے تابع یا ان کے غلام ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں عوام معاشی بدحالی غربت کا شکار رہتے ہیں پیداواریں کم ہوتی جاتی ہیں اور جب ملکی اندرونی سرمایہ داری کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ داری سڈمڈ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور براہ راست سرمایہ کاری FDI شامل ہوجاتی ہیں تو عوام میں تیزی سے غربت بڑھتی جاتی ہے۔

اس کا حل صرف یہی ہوتا ہے کہ ملکی وسائل، انتظامی ادارے عوام کے تابع یا عوام میں سے عوام کی حکمرانی کے تابع ہوتے ہیں تو عوام اپنی ضرورت کی منصوبہ بندی کرکے غربت سے نکل آتے ہیں اس کے لیے عوام کو عوامی معاشی آزادی حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس طرح معاشی غلام ملکوں میں عوامی خوشحالی کا خواب اس سامراجی معاشی غلام کے سسٹم میں رہ کر نہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ امریکی اور یورپی سامراجی ممالک آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے معاشی غلام ملکوں کی معیشتوں پر براہ راست CDMED کے ذریعے یا سامراجی ڈالر ٹیکس لگا کر اپنی درآمدات معاشی غلام ملکوں میں بڑھا رہے ہیں اور ان ملکوں کا صنعتی کلچر ختم کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ برطانوی سامراج نے 19 ویں صدی کے دوران غلام انڈیا میں بنگال کے ململ کے کاریگروں کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ دی تھیں کیونکہ برطانوی ململ کی جگہ برطانوی امرا بنگالی اعلیٰ کوالٹی کا ململ زیادہ استعمال کرتے تھے برطانیہ نے ہندوستان کی ململ کو برطانیہ میں داخلے سے روکنے کے لیے درآمدی (امپورٹ) ٹیکس 80 فیصد کردیا تاکہ بنگالی ململ مہنگی ہوجائے اور لوگ استعمال کرنا بند کردیں ۔

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں