ڈیئل مل کا ٹیلی فون
ہمارے ماؤتھ پیس میں ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے کوڈ ورڈز میں کچھ کہا جاتا جو ظاہر ہے ہمارے پلے نہ پڑتا۔
ڈیئل مل کسی زمانے میں حیدرآباد کے مشہور وکیل ہوا کرتے تھے اور ان کا شمار چوٹی کے قانون دانوں میں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں ان کے دفتر میں ہر وقت سیاستدانوں اور اراکین اسمبلی کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔
خان بہادر ایوب کھوڑو، میرغلام علی تالپور، جی ایم سید، خان بہادر غلام محمد وسان، میراں محمد شاہ اور بعض دیگر جاگیرداروں اور وڈیروں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات اور دوستانہ مراسم بھی قائم تھے، لیکن وہ جوکہتے ہیں ناکہ بنیا پھر بنیا ہوتا ہے سو ڈیئل مل بھی پرلے درجے کے کنجوس اور چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے فلسفے پر یقین رکھنے والے آدمی تھے۔
انھوں نے اپنا دفترگھرکے بیرونی کمرے میں بنا رکھا تھا جو بیک وقت بیٹھک اور مہمان خانے کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا۔ اْس زمانے کے ٹیلی فون سیٹ ایک تو ویسے ہی عجائب گھرکی زینت بننے کے لائق ہوتے تھے، اوپر سے انھوں نے اس کے ساتھ لمبی تار جڑوا کراسے پورٹیبل بھی بنوا رکھا تھا۔ جتنی دیر وہ دفتر میں اکیلے ہوتے فون ان کے سامنے میز پر دھرا ہوتا لیکن جوں ہی ان کے روز کے مہمانوں کے آنے کا وقت ہوتا وہ گھر میں کام کرنے والے ملاز م لڑکے کو آواز دیتے جو فون اٹھا کر اندر لے جاتا۔ تب فون بھی مہارانی وکٹوریہ کے زمانے کی تکنیک پر کام کرتے تھے، آپ کے فون اٹھاتے ہی دوسری طرف سے ٹیلی فون ایکسچینج میں بیٹھے آپریٹرکی آواز آتی جو بڑی لجاجت سے پہلے پوچھتا نمبر سر؟ اور پھر فوراً ہی آپ کو مطلوبہ نمبر ملا دیتا تھا۔
ڈائریکٹ ڈائلنگ والے موجودہ نظام کے بارے میں تو کسی نے تب سوچا بھی نہ ہوگا، شہر سے باہر فون کرنے کے لیے کال بک کرانی پڑتی تھی۔ جلدی ہو تو ارجنٹ ورنہ آرڈنری کال بک کرائی جاتی تھی اور ٹیلی فون کا استعمال اچھا خاصا جھنجھٹ اور سر درد ہوا کرتا تھا۔ ڈیئل مل کا کوئی دوست فون کی دفتر میں موجودگی کے وقت اچانک چھاپہ مارکرکال کرلے تو اور بات ورنہ وہ فون دینے سے صاف منع کردیتے اورکہتے فون میں نے نہیں بائڑی (بیگم) نے لگوایا ہے اور انھی کے پاس ہے، وہ مجھے فون کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی سوکسی اور کو کہاں استعمال کرنے دے گی، گھر جاکر بات کرلینا، ایسی بھی کیا جلدی ہے۔
اْس زمانے میں ان جیسے مشہور اور بڑے وکیل کے کثرت سے استعمال ہونے والے فون کا اوسط ماہانہ بل 60-50 روپے سے کم کیا آتا ہوگا جو آج کل کے 5 ہزار کے مساوی سمجھیں اور بھرنا بھاری پڑتا تھا۔ فی زمانہ دوکمرے کے چھوٹے فلیٹ میں رہنے والے میاں بیوی بھی پری پیڈ موبائل فون پر اس سے زیادہ کا لوڈ استعمال کرتے ہیں اور اسے بوجھ محسوس نہیں کرتے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ڈیئل مل ہوتے تو پتہ نہیں کیا کرتے، پاگل ہوجاتے یا شہر چھوڑکر بھاگ جاتے۔
مجھے یاد ہے 50ء کے عشرے میں جب محکمہ ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کی ٹیم قصبات اور چھوٹے شہروں میں لوگوں کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانے پر راغب کرنے کی مہم کے سلسلے میں ہمارے شہر ٹنڈو غلام علی آئی تھی تو کسی ڈپازٹ کے بغیرفون لگانے کی پیشکش کی جاتی تھی، چھوٹے بڑے دکانداروں اور زمینداروں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی دھڑا دھڑ فون لگوائے تھے۔ چند ایک لوگوں کے سوا جنھیں شہر سے باہر بات کرنی ہوتی تھی، فون رکھنا ہر ایک کی ضرورت نہیں تھا، ایک دوسرے کو آواز دیکر بھی بلایا جاسکتا تھا لیکن بھائی لوگوں نے اسے ناک کا مسئلہ بنا لیا جسے آج کل اسٹیٹس کہتے ہیں۔ پھر جب مہینے کا 40-30 روپے بل آنا شروع ہوا تو سرکاری ڈسپینسری کے عقب میں میروں کی بنوائی ہوئی دکانوں میں سے ایک میں قائم کی گئی ٹیلی فون ایکسچینج کی رونق ماند پڑنے لگی اور چیخ چیخ کر نمبر سر، نمبر سر پوچھنے والی ٹیلی فون آپریٹروں کی آوازیں بہت کم سنائی دیتی تھیں۔ گورنمنٹ پرائمری اسکول کے پیچھے قاضی قادر بخش میمن کی اوطاق کے ایک تاریک کمرے میں جہاں غلے کی بوریاں رکھی ہوتی تھیں، تپائی پر ٹیلی فون سیٹ بھی دھرا ہوتا تھا، لگوانے والوں کو شاید مہینوں اسے استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی جس کا اندازہ اس پر جمی گرد وغبارکی تہوں سے ہوتا تھا۔
ہم تین چار دوست کبھی کبھار دوپہر کے وقت، جب اوطاق میں کوئی نہیں ہوتا تھا، اس کمرے میں جا گھستے اور ایک ٹیلی فون آپریٹر کو جس کا نام مدنی تھا اور جو جھڈو یا جیمس آباد میں سے کسی ایک شہر کا رہنے والا تھا، تنگ کیا کرتے۔ وہ تھا تو ہمارا ہم عصر ہی پر پوز ایسے کرتا جیسے ہم اس کے مقابلے میں بچے ہوں، اسے چھیڑنے اور تنگ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ہم فون کیا اٹھاتے وہ بیچارا بولنے والے طوطے کی طرح نمبر سر کی گردان سنانا شروع کردیتا، اسے یہ پتہ تو ہوتا نہیں تھا کہ دوسری طرف کون ہے۔ کافی دیر چیخنے چلانے کے بعد وہ جیسے ہی لائن ڈراپ کرنے لگتا ہم تھوڑا سا کھانس کر اسے پھر نمبر سر کا سبق رٹنے پر مجبور کردیتے، کبھی آواز بدل کر پوچھتے بہرے ہوگئے ہوکیا، سنائی نہیں دیتا، بتایا ہوا نمبر ملاکر دینے کے بجائے مسلسل نمبر پوچھے جا رہے ہو؟
ہمارے یہ کہتے ہی کہ لگتا ہے تمہاری شکایت کرنی پڑے گی اور اس کا نام پوچھتے تو بیچارا قسمیں کھانے لگتا اور کہتا اسے ہماری آواز سنائی دے رہی تھی، ہم پوچھتے اب کیسے سنائی دے رہی ہے، جھوٹ بولتے ہو شرم نہیں آتی تو غریب سہم جاتا اور بسورنے لگتا۔ پھر یوں ہوا کہ تھانے کے ہیڈ محرر غلام نبی میمن نے، جس کے کوارٹر پر ان لوگوں کی محفل جما کرتی تھی، مدنی کی درخواست پر ہماری صلح کرادی اور ہم دوست بن گئے، کہاں ہم اسے تنگ کیا کرتے تھے اور کہاں وہ ہمارے ساتھ ملکر دوسروں کو تنگ کرنے لگا۔
اْس زمانے میں گوٹھ سدھار پروگرام بہت فعال ہوا کرتا تھا، ہم نے ایک دن مدنی سے کہہ کر میر بندہ علی خان کا نمبر ملوایا اور پروگرام ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ ہم شہرکے مڈل اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دینے کے شہریوں کے مطالبے پر آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں تو وہ ایک دم طیش میں آگئے اور انگریزی میں فرمایا تمہیں مجھ سے بات کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟ شاید وہ ان کے آرام کرنے کا وقت تھا اور ہمارا مخل ہونا انھیں ناگوار گزرا تھا۔
ان ٹیلی فونوں کے علاوہ ہاٹ لائن طرز کا ایک فون اور بھی ہوتا تھا جسے انگریزوں کے زمانے سے نہروں کی نگرانی پر مامورمحکمہ انہار کا عملہ استعمال کیا کرتا تھا۔ کپری کی موری کے پاس سے بڑے کینال میں سے نکلنے والی نہر جسے وہاں شاخ کہا جاتا تھا ہمارے شہر پہنچ کر دو شاخوں میں تبدیل ہو جاتی تھی، اس جگہ پختہ موری (پْل) تعمیر کی گئی تھی اور پانی کا بہاؤ کنٹرول کرنے کے لیے ریگیولیٹر نصب کیے گئے تھے۔ وہیں دروغہ کا پختہ بنگلہ بھی تھا جس کے ایک کمرے میں ہاٹ لائن والا وہ فون رکھا رہتا تھا۔ ہم کبھی ٹولی بنا کر شاخ پر نہانے پہنچتے تو بنگلہ خالی پاکر اسے بھی ضرور استعمال کرتے۔
ہمارے ماؤتھ پیس میں ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے کوڈ ورڈز میں کچھ کہا جاتا جو ظاہر ہے ہمارے پلے نہ پڑتا، جواب میں ہم اوٹ پٹانگ کچھ بھی بولنا شروع کرتے جو ان کی سمجھ میں نہ آتا۔ تب شاخ شہر سے باہر کچھ فاصلے پر ہوا کرتی تھی۔ ہمارے شرارتاً ہاٹ لائن فون استعمال کرنے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ دروغہ کے کئی کئی روز غیر حاضر رہنے کا سلسلہ بند ہوگیا اور وہ باقاعدگی سے ڈیوٹی دینے لگا، کسی ضروری کام سے شہر تک جاتا بھی تو فون والے کمرے کو تالہ لگانا نہیں بھولتا تھا۔ سو لوگوں میں ضروری چیزوں کے غیر ضروری استعمال کا رجحان تب بھی پایا جاتا تھا، اس لیے وکیل ڈیئل مل اگر اپنے ٹیلی فون کا غیر ضروری استعمال روکنے کے جتن کرتے تھے توکچھ غلط نہیں کرتے تھے ۔