اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے   پہلا حصہ

اب اس پیسے سے ہم ملکی قرضہ اتار سکیں گے اور باقی پیسے سے ملک اور عوام کی خوشحالی کے لیے رقم خرچ کی جائے گی۔


لیاقت راجپر July 06, 2018

دنیا میں جہاں بھی جمہوریت ہے، اس میں عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہا جاتا ہے، جس کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی لگایا تھا جس کو انھوں نے ثابت کر دکھایا، میں نے صرف انھیں عوامی لیڈر پایا۔ ان کی شہادت کے بعد عوام یتیم ہوگئے۔ پی پی پی کی مقبولیت پھر بھی بینظیر تک رہی اور کچھ نہ کچھ عوام کے کام ہوتے رہے اور لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد عوام نے ذوالفقارعلی بھٹو اور پھر بینظیر بھٹو کی خاطر دس سال کا عرصہ پی پی پی کو سندھ میں اور 5 سال مرکز میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا کہ شاید ان کے مسائل حل ہوسکیں۔

ایک وتایو فقیر تھا جس کی باتیں بظاہر مذاق لگتی تھیں مگر اس میں اکثر باتیں سبق آموز ہوتی تھیں۔ایک مرتبہ وتایو فقیر ڈنڈا لے کر قبرستان پہنچ گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ کسی کوکچھ پیسے ادھار دیے تھے جو اب نہیں مل رہے اور قرض دار ان کو دیکھ کر بھاگ جاتا ہے اس لیے اب اس کا انتظار قبرستان میں کر رہا ہوں، کیونکہ آخر وہ آئے گا تو ادھر ہی۔ اس بات سے جمہوریت اور انتخابات میں یہ ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈر عوام کے پاس ایک ایک دروازے پر جاکر گلے مل کر ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگتے ہیں اور ان سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہوئے، لمبی لمبی لائنوں میں کڑی دھوپ میں، سخت سردی میں کھڑے ہوکر ووٹ دیتے ہیں۔

اب ہوتا یہ ہے کہ سیاستدان ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور انھیں پتہ ہے کہ اب 5 سال تک انھیں عوام کے پاس نہیں جانا ہے اس لیے وہ عوام والی سیڑھی کو لات مارکر پھینک دیتے ہیں۔ عوام ان کے انتظار میں ان کے گھروں پر بیٹھے رہتے ہیں اور پھر اپنی بھینس بیچ کر، ادھار لے کر وہ کراچی اور اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں جہاں سے انھیں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی رہائش گاہ آجائیں، وہاں آتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ موصوف کسی اجلاس میں گئے ہوئے ہیں۔ اب تو پیسے بھی ختم ہوجاتے ہیں اور وہ بدھو بن کر گاؤں واپس آجاتے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ عوام کا ہوتا ہے روزگار کا، جس میں خاص طور پر جب ان کے بچے ڈگریاں ہاتھ میں لے کر سیاستدانوں کے پیچھے چکر کاٹتے کاٹتے Psycho ہوجاتے ہیں۔ کوئی جرم کی دنیا کو اپنا لیتا ہے۔ کوئی نشے کی عادت ڈال لیتا ہے کیونکہ بیروزگاری نوجوانوں کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ بہرحال اس کے علاوہ گاؤں سے شہروں کی طرف آنے والی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں، شہروں میں پینے کے پانی کا مسئلہ، بجلی 16 سے 18 گھنٹے نہیں ہوتی، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ پڑھانے کو تیار نہیں ہوتے، پرائیویٹ اسکولوں کی فیس،کتابیں اور یونیفارم اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ عام آدمی پڑھانے کی سکت نہیں رکھتا، مہنگائی کی طرف کبھی بھی حکومتوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ بجلی اور گیس کے بل اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ عام آدمی سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہے۔

جو پارٹی ورکرز ہوتے ہیں ان کا رویہ عام آدمی سے اچھا نہیں ہوتا اور سارے فائدے وہی اٹھاتے ہیں۔ سیاستدان الیکشن پر کیا ہوا خرچہ اور پارٹی میں سے ٹکٹ لینے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے پھونک دیتے ہیں اور جب وہ منسٹر یا ایم این اے بنتے ہیں تو سب سے پہلے خرچ کی ہوئی رقم واپس لانے کے لیے بھاگ دوڑ میں رہتے ہیں اور انھیں عوام اور جمہوریت یاد ہی نہیں ہوتی۔ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا سہارا لیتے ہیں، مگر ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب الیکٹرانک میڈیا نے سیاستدانوں کے کیے ہوئے سارے غلط کارنامے عوام کے سامنے پیش کردیے ہیں۔

اس کے علاوہ موبائل فون کی جدت نے عام آدمی کو کیمرہ مین اور فوٹو گرافر بنا دیا ہے اور جو بھی اچھا برا کارنامہ ہوتا ہے اسے عام آدمی پوری دنیا میں پہنچا دیتا ہے جس کی وجہ سے ہر آدمی باخبر اور ہوشیار ہوگیا ہے، اب اس الیکشن میں امیدواروں کے لیے بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ جس نے بھی کوئی عوام کے بھلے کا کام نہیں کیا ہے اسے عوام کا سامنا کرنا بڑا مشکل ہوگیا ہے۔ لوگوں میں شعور پیدا ہوگیا ہے اور وہ بڑے بڑے سرداروں، پیروں اور لیڈروں کو ان کے سامنے کھری کھری سنا رہے ہیں جو ایک اچھا شگون ہے جس سے جمہوریت مستحکم ہوگی اور عوام اپنا حق مانگیں گے نہیں بلکہ چھین لیں گے۔

آج سے 5 سال پہلے میں نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ اب وہ وقت آنے والا ہے کہ ایک عام آدمی بھی بڑے بڑے لیڈروں کو جوتے ماریں گے کیونکہ عوام کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اب پہلے جیسا وقت نہیں رہے گا اور اب سیاستدانوں کے سیاہ کام چھپ نہیں سکیں گے اور آپ نے دیکھا کہ کیسے کیسے لیڈروں پر جوتے پھینکے گئے۔ اس کے علاوہ مجھے آج بھی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لفظ یاد ہیں کہ اس کے بعد تیسرا چیف جسٹس بڑا ہی تیز ہوگا جو اصولوں پرکوئی بھی سودے بازی نہیں کرے گا اور ہر لیڈر اور برا آدمی اپنا قبلہ درست کرلے گا۔

بڑی خوشی یہ ہو رہی ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے عام آدمی کے مسائل کو اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اور سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے بڑے اچھے فیصلے کیے ہیں جس میں سب سے اچھا یہ ہے کہ جس کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ نے رشوت اور بے ایمانی کرکے ملک کے خزانے کو لوٹا ہے اور بڑا پیسہ بنایا ہے، جائیداد بنائی ہے اس کا حساب شروع کیا ہے۔ اس عمل کو عوام خوش آمدید کرتے ہیں، اب اس پیسے سے ہم ملکی قرضہ اتار سکیں گے اور باقی پیسے سے ملک اور عوام کی خوشحالی کے لیے رقم خرچ کی جائے گی۔ اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہونی چاہیے کہ جس بیورو کریٹس نے رشوت کے پیسے سے جائیداد بنائی ہے اسے ضبط کیا جائے، انھیں جیل میں ڈالا جائے اور سب کی مالی حالت کی چھان بین کی جائے۔

اس کے علاوہ جتنے بھی سیاستدان ہیں ان سے پوچھا جائے کہ پہلے سے اتنا پیسہ اور اب اس سے کئی گنا کیسے بنا؟ اور اس کا حساب دیکھا جائے۔ کئی بیوروکریٹ ایسے بھی ہیں جن کے پاس کوئی بھی موروثی ملکیت نہیں ہے پھر یہ دولت کہاں سے لائے۔ ہم نے ساری عمر نوکری کی جس سے ایک چھوٹا سا مکان بھی نہیں لے سکے، بچوں کو سرکاری اسکول اور کالج میں تعلیم دلوائی، اپنی گاڑی بھی نہیں ہے اور کبھی تو ایک مہینہ بھی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جو کبھی ہم سے بھی بدتر تھے اب ان کے پاس پوش بنگلے کہاں سے آئے؟ پجیروکہاں سے خریدی، اتنا بینک بیلنس کیسے بنا، باہر ممالک کے دورے کہاں سے کرتے ہیں، ان کے بچے باہر ممالک کی بڑی یونیورسٹیوں میں کیسے پڑھتے ہیں؟

اس الیکشن سے پہلے امیدواروں کے فارم میں جو اثاثوں کا ذکر کیا گیا ہے اس میں بھی ٹیکس لگایا جائے۔ جو ایم این اے اور ایم پی اے یا سینیٹر بنتے ہیں ان کی کارکردگی کا بھی ریکارڈ رکھا جائے۔ سیاستدان اور بیورو کریٹس کے اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا جائے خاص طور پر جب وہ پرائم منسٹر، وزیر اعلیٰ اور وزرا بنتے ہیں جس کے لیے خاص ٹیم بنائی جائے اور غیر ضروری اخراجات کرنے پر اس رقم کو انھی سے واپس لیا جائے۔ اس میں پریزیڈنٹ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو بھی شامل کیا جائے۔

جب سیاستدان منتخب ہوکر آتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی پسند کے بیورو کریٹس کی پوسٹنگ کرواتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے پیسہ بٹورا جائے۔ یہ بتائیں کہ وہ کتنی مرتبہ اپنے حلقے میں جاتے ہیں لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ وہ تو خود بھی خدمت نہیں کرتے اور سرکاری افسران بھی ان کی تقلید کرتے ہیں۔ میں جہاں بھی گیا ہوں مجھے کبھی بھی سڑک پر کوئی بڑا افسر وزٹ کرتا نظر نہیں آیا۔وہ صرف اے سی گاڑی، اے سی دفتر اور اے سی گھر میں بیٹھ کر فون پر اپنا کام چلاتے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر پانی اور کچرا بکھرا نظر آتا ہے۔

پورا دن روڈ لائٹ جلتی رہتی ہیں اور رات کو اندھیرا ہوجاتا ہے، ہر روڈ پر ٹریفک الٹی اور اپنی مرضی پر چلتی رہتی ہے۔ بڑی گاڑیاں فاسٹ ٹریک پر، رکشے اور موٹرسائیکلیں سرکس کے کمالات دکھاتے ہوئے ہمارے دائیں بائیں زور سے گھومتی نکل رہی ہوتی ہیں، ان کے پاس کوئی انڈیکیٹر نہیں ہوتا، کوئی آئینہ نہیں، کوئی لائسنس نہیں، 6 سال کے بچے ایک موٹرسائیکل پر تین تین سوار ہوکر جہاز کی طرح گزر جاتے ہیں۔

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں