لیوی کی کہانی حکومت کی چرب زبانی

موجودہ بجٹ ایسے پیش کیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی جو حکومت کا ملازم نہیں اس کا لگاؤ ملک سے جاتا رہے گا۔


Anis Baqar May 04, 2018
[email protected]

کم و بیش گزشتہ ڈیڑھ برس سے حکومت ہر ماہ ایک، دو، ڈیڑھ اور ڈھائی روپے پٹرول کی قیمت بڑھاتی رہی ہے اور یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ حکومت بتدریج نئے بجٹ آنے سے قبل پٹرول کو 40 روپے لیٹر تک لے جانا چاہتی ہے اور آخر کار اس خام حکومت نے اپنے ہدف کو اپنے چند روزہ وزیر خزانہ مسٹر مفتاح اسماعیل کے سپرد کیا جنھوں نے اضافی ٹیکس کو گروتھ کا نام دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں نے ملک کے سوتے خشک کردیے ہیں، یہ کوئی صرف مرکزی حکومت کا طریقہ کار نہیں بلکہ ڈوبی ہوئی معیشت پر تمام لیڈروں کی نگاہیں لگی ہیں کہ کس طرح اس ملک کا باقی ماندہ وسیلہ کب ہمارے ہاتھ میں آئے گا۔

ابھی واضح پالیسی تو نمایاں نہیں ویسے بھی حکومت پٹرول سے عوام پر کھیل کرنے میں مصروف تھی مگر اب تو حد ہی کردی ہے۔ اس نے خود کو بچانے کے لیے عوام سے بے دریغ منافع کمانا شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں عوام اور حکومت میں دوری پیدا ہونے لگی ہے جو ملک کی یکجہتی کے لیے اندوہناک ہے۔

موجودہ بجٹ ایسے پیش کیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی جو حکومت کا ملازم نہیں اس کا لگاؤ ملک سے جاتا رہے گا اور آنے والے وقت میں ملک میں ایسی تنظیموں کی بہتات ہوجائے گی جو ہماری فکری اساس سے کوسوں دور ہوں گی۔ کیونکہ جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں صرف ایک آئٹم پٹرول کو دانستہ دو برسوں میں رفتہ رفتہ بیس روپے اور پھر یکدم 20 روپے اضافہ کرکے یعنی 40 روپے مہنگا کردیا گیا ہے اس کے اثرات انرجی کی پیداواری صلاحیت سے لے کر ٹیکسٹائل سے لے کر باجرہ تک پر منفی پڑیں گے گویا نواز لیگ نے ازخود آنے والے انتخابات سے اپنا منہ موڑ لیا ہے اور اس پر سے موجودہ وزیر اعظم کو یہ امید ہے کہ عوام ان کا یہ وار بھول جائیں گے۔ کیونکہ پٹرول کی یہ اضافی شرح باضمیر لیڈروں کے لیے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے لیے کافی تھی مگر مجال ہے جو یہاں کوئی بھونچال آئے۔ قوم میں دو قسم کے لوگ ہیں کچھ تو احتجاج اور بعض احتیاج پر یقین رکھتے ہیں۔

احتیاج گروپ چوری چکاری میں اضافہ اور صاحب ضمیر کے لیے بیماری اور موت کا سامان۔ کیونکہ جس فرد کو روزانہ موٹرسائیکل کے سفر میں 50 روپے خرچ ہوتے تھے اب اس کو 100 روپے خرچ کرنے ہوں گے یہ ایک معمولی حساب کتاب ہے مگر پاکستانی لیڈر ایک دوسرے پر بہتان تراشی کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔

تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل پر ان کی نظر نہیں پٹرول پر 40 روپے کا سفر حکومت نے آہستہ آہستہ طے کیا اور عام آدمی کو خبر نہ ہوئی کہ یہ کون سا کھیل جاری ہے، پہلے اکا دکا بم پھر کلسٹر بم۔ اگر دنیا کے کسی اور خطے میں اس عمل کو سیاسی پارٹی انجام دیتی تو وہ ہمیشہ کے لیے عوام دشمن قرار پاتی۔ کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہر لمحہ بتدریج کا عمل جاری و ساری ہے، سورج کا سفر اسی عمل کا پیغام ہے، صبح دوپہر شام رات تک اور پھر صبح کا سفر سب بتدریج ہی ہے۔

مگر نئے وزیر خزانہ کی تجویز یہ ہے کہ روپے دو روپے لیٹر کے حساب سے سال دو سال میں یہ سفر طے نہ کرو بلکہ یکدم بیس روپے لیٹر مہنگا کرو کیونکہ یہ قوم سو گئی ہے۔ اس کے لیڈران سب آپ کے ہیں کوئی ہڑتال یا مہنگائی کے خلاف کھڑا نہ ہوگا۔ اگر تیل کے نرخ کا سفر دیکھیں تو حقیقتاً پٹرول 40 روپے لیٹر اس طرح مہنگا کردیا گیا ہے اور اب بیس روپے کا انتظار ہے مگر اب معاملہ دس پندرہ روپے لیٹر پر جاکر کھڑا ہوگا۔ مگر لیڈروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ وزارت عظمیٰ پر براجمان مستقبل کا حسین خواب دیکھنے والے ہیں۔

سب ہی ایک ہی قسم کے دکاندار ہیں۔ جو عوام کا خون ہر طریقے سے چوسنے کے عادی ہیں۔ ان کو لیڈر نہ کہو بھائی یہ مچھروں کی اعلیٰ قسم ہیں جو انسانی شکل و صورت رکھتے ہیں۔ مگر یہ انسانی خون سے اپنی نسل کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اسی لیے بجٹ کے دوسرے روز مینار پاکستان پر تیل کے نرخ پر کوئی بات نہ ہوئی البتہ سستے گھروں پر جنوبی صوبہ پر تان ٹوٹی۔ اسی طرح کراچی کا جلسہ بھی بے لگام تھا بجلی کے بھاؤ اور لوڈ شیڈنگ پر کوئی بات نہ کی گئی۔

ظاہر ہے تیل کے مسئلے پر تمام لیڈروں میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ بظاہر سب ایک دوسرے سے نورا کشتی میں مصروف ہیں مگر بنیادی چیزوں پر اتفاق رائے ہے۔ مگر قدرت کا بھی ایک کارخانہ ہے اگر ایرانی پٹرول اور پاکستانی پٹرول میں 100 روپے لیٹر کا فرق ہوگیا تو بلوچستان سے ایرانی پٹرول جو 6-5 فیصد اسمگل ہو رہا ہے اس کی فروخت پاکستان میں 70 یا 80 فیصد ہوجائے گی اور تمام اہداف کے حصول میں ایک بہت بڑی مشکل کھڑی ہونے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لیوی کے مجموعی ٹیکس کا خواب دیکھنے والے پڑوسی ملک اور اپنے ملک میں اتنا بڑا فرق زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا بلوچستان میں اس عمل کو گریزی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چونکہ امریکا ایران پر مزید پابندیاں عائد کر رہا ہے تو اس بات کا احتمال ہوسکتا ہے کہ ایرانی حکومت گریزی پر سختی نہ کرے کیونکہ یہ ان کے ملکی مفاد میں ہوگا مگر بات اگر مفروضوں پر ہی ہو رہی ہے تو امکانات وسیع تر ہیں۔

مانا کہ حکومت اس عمل کو روکنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر ملکی پروڈکشن ایکسپورٹ کے قابل نہ رہے گی خصوصاً گارمنٹس اور ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس تو اس خسارے کا تخمینہ بھی وزیر خزانہ صاحب ذرا ٹھنڈے دل سے لگائیں۔ ویسے بھی بنگلہ دیش نے مغربی یورپ اور امریکا کی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس پر غلبہ پالیا ہے لہٰذا بچی کچھی مارکیٹ بھی ہاتھ سے نکل جائے گی۔

اگر تھوڑی بہت مارکیٹ بچی تو وہ ٹاولز اور باتھ روب کی۔ محض وہ پاکستانی سوت کی اس کوالٹی کی بنا پر کہ یہ مصری کپاس کے مقابلے میں نفیس نہیں ہے مگر اس کی نمی جذب کرنے کی صلاحیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے پاکستان کے باتھ ٹاولز اور باتھ روب دنیا میں ڈیمانڈ کے اعتبار سے بہت پسندیدہ ہیں۔

مگر انرجی مہنگی ہونے نے صورتحال کو منفی راہ پر گامزن کردیا ہے۔ لہٰذا یکسپورٹ کا زوال مزید ہوتا رہے گا اور یہی حال دوسری اشیا کا بھی ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں کو کسی معاملے کی فرصت نہیں اور نہ کوئی اہمیت دیتے ہیں ہر موڑ پر نفع کمانے کے عزائم ہیں مثلاً جنوبی پنجاب میں 50 لاکھ گھروں کا معاملہ۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے راستے پر ہرگز نہیں جنھوں نے تہران سے ہاؤس رینٹ کا کاروبار ہی ختم کردیا اور ہر شخص کو 2 ، 3 کمروں کے فلیٹ دلوائے اور خود بھی انھی میں شفٹ ہوئے۔

یہ فلیٹ خرید و فروخت کے لیے نہ تھے بلکہ 30 برس کی آسان ماہانہ اقساط پر تہران کے لوگوں کو دیے گئے ۔ مگر افسوس پاکستان ان لیڈروں سے محروم ہے جن کا تن من دھن ملک کے لیے ہے۔ مگر تمام لیڈروں کے لیے میرے اعتبار سے ایک خبر نمایاں ہے کہ انتخابات کی تاریخیں تسلسل سے آگے بڑھ سکتی ہیں کیونکہ ملکی صورتحال معمول کے مطابق نہیں خصوصاً خیبر پختونخوا میں صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور اس کے اثرات کراچی تک آنے کے امکانات ہیں لہٰذا کسی قسم کی پیش گوئی بے سود ہے۔

یکم مئی 2018 کو پھر جو اخبار دیکھا تو پٹرول پر ہر ماہ بمباری والی پالیسی جاری ہے اور انھوں نے کلسٹر بم گرانے کا عمل آنے والی حکومتوں پر چھوڑ دیا ہے تاکہ عوام نیا اقتدار لینے کے نتائج بھی بھگت سکیں اور لیوی کی لن ترانی کا تحفہ آنے والی حکومتوں کے سپرد کردیا ہے کہ وہ اس سے کس طرح نمٹتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں