ووٹ کو روٹی دو
ملکی عوام میں غربت، بیروزگاری، عدم علاج و معالجے کی دستیابی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟
اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار ''ووٹ کو عزت دو'' کے بینر تلے نواز شریف، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے لیڈر محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن، اے این پی کے میاں افتخار حسین اور سینیٹر حاصل بزنجو و دیگر نے خطاب کیا۔ نواز شریف نے کہاکہ ' ووٹ کو عزت دو' کروڑوں عوام کا نعرہ بن گیا ہے اور جمہوریت اجنبی نعرہ نہیں ہے، کسی کو حکمرانی کا حق سونپنا عوام کا حق ہے۔ پاکستان میں 20 وزرائے اعظم کا دور حکومت 38 برس ہے، فی وزیراعظم نے اوسطاً 2 سال حکمرانی کی جب کہ 4 فوجی آمروں کی حکمرانی یا اقتدارکا عرصہ 32 برس ہے۔ اوسط ایک ڈکٹیٹر نے 8 سال حکومت کی، ایک بھی وزیراعظم 5 سال کی آئینی مدت پوری نہ کرسکا ۔ ماضی میں جب ووٹ کی عزت پامال کی گئی تو ملک ٹوٹ گیا۔''
سیاسی کھیل غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے لیکن غربت زدہ عوام کے ووٹوں کی بھوک سیاستدانوں میں جمہوریت کی آڑ میں ہی کیوں تڑپتی ہے؟ عوام سے ووٹ لینے کی ضرورت کیا ہے؟ انگریزوں کی دی ہوئی جمہوری رسم کا کیوں سہارا لیا جاتا ہے۔ نواز شریف آج مظلوم بن کر عوامی جلسوں میں کیوں فریاد کرتے پھر رہے ہیں؟ پیپلزپارٹی کے وڈیرے جاگیردار بھٹوکی پھانسی اور بینظیر بھٹو کے قتل کے بینر تلے مظلوم بن کر عوام سے ووٹ کی بھیک کیوں مانگتے ہیں؟ الزام تراشیاں سیاستدانوں کا بہترین حربہ ہے۔ ایک دوسرے کو بدنام کرکے عوام سے ہمدردیاں حاصل کرنا ان کا شیوہ ہے۔ سپریم کورٹ اور نیب پر تنقیدی تیروں کی بارش برسا کر مظلوم بنا جارہا ہے۔ حقیقتاً عوام انصاف چاہتے ہیں اور فوری چاہتے ہیں۔ فوجی حکومتوں، سیاسی حکومتوں نے آج تک عوام کی غربت میں اضافہ ہی کیا ہے ملک پر ایک مخصوص ٹولہ کی باری باری فوجی آمروں اور سیاسی تھیٹرکے ذریعے کرسی اختیارات و ملکی مالیاتی وسائل پر قابض کیوں ہو جاتا ہے؟
ملکی عوام میں غربت، بیروزگاری، عدم علاج و معالجے کی دستیابی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کیوں نہیں بنائی جاتی؟ عوام کے مسائل حل کرنے کی وزارت کیوں نہیں بنائی جاتی؟ عوام میں یکساں نظام تعلیم کیوں نہیں بنایاجاتا؟ عوام کی غربت میں آئے روز اضافہ اور ایک مخصوص ٹولے کی امیری میں روز اضافہ کیوں ہوتا ہے؟ کیا قدرت نے عوام کو دوزخ جیسی زندگی عطا کیا ہے؟ چند لوگ ملک کے وسائل پر قابض کیوں ہیں؟ 18 اپریل اسلام آباد سے شایع ہونے والی خبر کی سرخی ہے ''حکومتی چھوٹ، شوگر ملز مالکان نے اربوں روپے کما لیے۔'' کیونکہ حکومت نے ان کو سبسڈی کی مد میں عوامی خزانے سے اربوں دیے اور چینی کی ایکسپورٹ پر مزید 50 ارب روپے کمالیے۔ کیا اس سے عوام کو فائدہ ہوا؟ صرف چند ہزار لوگ ملکی دولت پر قابض رہ کر ذاتی زندگیاں خوشی سے گزارتے ہیں۔
سرمایہ دار، جاگیردار جمہوری رسم کو بطور ''جمہوری لانڈری'' استعمال کرکے ہمیشہ کہتے ہیں کہ عوام نے انھیں حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے۔ اس لیے وہ عوام کا خون ٹیکسوں کے ذریعے، مہنگائی پیدا کرکے نچوڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آج بتایاجائے 70 سال کے دوران سیاسی حکومتوں نے 38 سال اور فوجی حکومتوں نے سیاست دانوں کو ساتھ ملاکر 32 سال عوام پر حکومت کی، اس دوران عوام کی پریشانیوں میں ہزار گنا اضافہ کیوں ہوا؟ اور حکومت کرنے والے ٹولوں کی جائیدادوں، بینک بیلنسوں میں اضافے کیوں ہوئے؟ سرمایہ دار، جاگیردار، سیاست میں عوام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے جمہوریت کے نام پر تھیٹر لگا کر اقتدار و اختیارات پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ان سب کا نشانہ اصل میں عوامی خزانہ ہوتا ہے جب کہ یہ حکومت کی آڑ میں کھل کر اپنے ٹولے کے ساتھ مل کر استعمال کرتے ہیں۔
عوام کو ترقیاتی اسکیموں کے نام پر دھوکا دیتے ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ عوام میں خوشحالی آئے اس لیے یہ عوام کو ''سورس'' کے قیدی اور معاشی غلام بنائے رکھتے ہیں۔ معاشی غلام عوام کا خون حکومت کی شکل میں نچوڑتے رہنا ان کے لیے آسان ترین راستہ ہے۔ 1956ء، 1962ء اور 1973ء کے آئین تمام مل کر بھی عوامی غربت کا خاتمہ نہ کرسکے کیونکہ سیاستدان عوامی غربت کا خاتمہ کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ اگر یہ عوامی غربت کا خاتمہ کردیںگے تو ان کے پاس سرے میں محل، پاناما میں کمپنیاں کیسے بنیںگی۔ ان کے بیرونی ملکوں میں بینکوں میں ڈالر کہاں سے آئیںگے۔ یہ حکومتیں بناکر ''عوامی خزانے'' کا بھر پور استعمال کرتے ہیں۔
بینکوں سے اربوں روپے قرضے لے کر معاف کرا لیتے ہیں یہ امریکا پرست ہیں۔ وزیراعظم کو ایئرپورٹ پر جیسے اچھوتوں کی طرح ٹریٹ کیا گیا۔ کیا ملک کی عزت بڑھی یا کم ہوئی؟ اس سے اس طبقے کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام پر یہ خاموش کیوں ہیں؟ کیا تمام صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی میں بیٹھے ممبران میں کسی ایک میں بھی صلاحیت نہیں ہے کہ بھرپور وسائل سے بھرے ملک میں عوام کی غربت میں کمی کرسکے؟ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا کے جاگیرداروں، بڑے زمینداروں کے لیے جمہوریت کی سیڑھی چڑھنا آسان ہے کیونکہ زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوں کے ووٹ ان کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں۔ شہروں میں سرمایہ دار سرمایہ لگا کر ووٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ ذات برادری، قبیلے داری بھی ان کی جمہوریت کو سہارا دیتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاگیردار، سرمایہ دار، قانون اور آئین کو صرف اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
عوامی خوشحالی کی آئین و قانون کے ہوتے ہوئے نفی در نفی کے عمل سے گزرتی رہتی ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک عوام سورس کے قیدی اور ان کے معاشی غلام بنے رہیںگے۔ عوامی خوشحالی کا اپنا خواب عوام کو ان ظالم لٹیروں سے چھیننا ہوگا۔ عوام کی حکمرانی عوام میں سے لانا ہوگی عوامی خزانے کے حاکم جب تک عوام نہیں ہوںگے اس وقت تک ملک میں فوجی حکمرانی اور جمہوری حکمرانی کے نام پر سرمایہ دار، جاگیردار عوام کو جمہوریت کے نام پر استعمال کرکے امیر سے امیر تر ہوتے رہیںگے اور عوام غریب تر ہوتے رہیںگے۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی ''مالیاتی غلاظت میں لتھڑی جمہوریت'' سے عوام کی زندگیاں دوزخ بنی رہیںگی۔
عوام ہی کو آخر کار ملک اور اپنے آپ کے لیے ان چند لٹیروں سے سیاسی اور معاشی آزادی چھیننی ہوگی۔ عوام کا ملک چند لوگوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے یہ چند لوگ سامراجی امریکا کے دلال ہیں اس ملکی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے منفی اثرات پورے ملک وعوام پر پڑ رہے ہیں، انتظامی شعبے تعلیمی شعبے ان تمام جگہوں پر عوامی خوشحالی کا داخلہ ممنوع ہے کیا عوام اپنی اور ملکی آزادی پسند کریںگے یا اپنی اور ملک کی غلامی پسند کریںگے؟
چین میں کئی سو وزیروں کو کرپشن میں سزائیں مل سکتی ہیں تو یہاں کرپشن زدہ سیاسی معاشی سسٹم کو تباہ کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ ملک میں روز الیکشن کرالیے جائیں لیکن جاگیردار، سرمایہ دار ہی حکومت بنائیں گے، کیونکہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کا ٹارگٹ عوامی خزانہ ہے اگر آج اعلیٰ عدالت اور اعلیٰ فوجی قیادت ملک میں یہ پابندی لگا دے کہ کوئی حکومت عوامی خزانہ استعمال نہیں کرسکے گی عوامی خزانے کو ملک بھر میں پھیلی ہوئی عوامی کونسلیں اور عوامی کمیٹیاں استعمال کریںگی تو کوئی بھی جاگیردار، سرمایہ دار الیکشن نہیں لڑے گا۔ اس تجویز پر آزمائش شرط ہے اﷲ کرے ملک کے دانشوروں کی طرح عوام بھی خواب غفلت سے نکل آئیں۔ (آمین)