آغا شہاب الدین

آغا چاہتے تھے کہ سندھ سے تعلیم کے نہ ہونے سے جو اندھیرا چھایا ہوا ہے وہ تعلیم کی روشنی سے دور ہو۔


لیاقت راجپر February 19, 2018

ISLAMABAD: کہتے ہیں اپنے لیے تو سارے ہی جیتے ہیں لیکن وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں، ناپید ہوگئے ہیں، اگر کوئی نظر آجائے تو خدا کی رحمت کا شکر ادا کرتے ہیں، کیونکہ جب دوسروں کے غم اور تکالیف دیکھیں تو اپنے غم بھول گئے۔

ایک ایسی شخصیت جس نے اپنی زندگی میں اپنی سانسوں کے سب لمحے لوگوں کی خدمت میں گزار دیے، چاہے وہ سرکاری نوکری میں تھا یا پھر ریٹائرڈ ہونے کے بعد سارا وقت اس تلاش میں ہوتا کہ کہیں سے اسے کسی غریب، ضرورت مند اور مفلس کے کام آنے کا موقع ملے۔ اس شخص کا نام تھا آغا شہاب الدین، جس نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں گزار دی۔

ایک اندازے کے مطابق اس نے پورا سندھ دیکھا جس میں وہ چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی گھومنے گئے، جہاں لوگوں سے ملے اور ان کے ساتھ ہزاروں راتیں اور دن گزار دیے اور کچہریاں کرتے رہے، جن سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوا۔ اس نے تقریباً 16 کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں جو شایع ہوچکی تھیں اور کئی کتابوں کے مسودے ان کی موت سے رہ گئے، جنھیں اب چھپوانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

آغا نے کوشش کی سندھ اور پاکستان کے لوگوں کو سندھ کے مختلف کلچرل، سماجی، علمی، تاریخی اور جیوگرافی معلومات فراہم کرے، جن سے خاص طور پر نوجوانوں کی ذہنی اور معاشی وصیت میں اضافہ ہو اور وہ اپنی زندگی گزارنے کی پلاننگ اس طرح سے کریں کہ ملک و قوم کی ترقی ہو اور غربت کا خاتمہ ہوسکے اور ایک اچھا، پڑھا لکھا اور ترقی پذیر معاشرہ قائم ہوسکے، جس میں جہالت کا اندھیرا دور ہو اور غربت بھی ختم ہوجائے۔

جب وہ سرکاری ملازم تھے تو اس نے اپنے دفتر کے دروازے 24 گھنٹے کھلے رکھے اور رات یا دن کو بھی کسی بھی وقت اس کے پاس کام سے آجاتا تھا تو وہ کبھی ناراض نہیں ہوتے اور اس وقت آنے والے کا مسئلہ حل کرنے میں لگ جاتے تھے۔

اس نے یہ عادت بنادی تھی کہ مزدوروں، محنت کشوں اور ہاریوں کے ساتھ کچہریاں کرتے رہتے اور انھیں اپنی معاشی، سماجی، ثقافتی، علمی حالت بہتر بنانے کے لیے لیکچر دیا کرتے، جس کی وجہ سے لوگوں میں روشن خیالی پیدا ہوئی۔ اس کام کے لیے انھوں نے اساتذہ، صحافیوں، مخیر حضرات، مذہبی اسکالروں، ادیب اور شاعروں سے بھی رابطہ رکھا تاکہ وہ بھی لوگوں میں Awareness پیدا کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

وہ 3 جون 1939 میں لاڑکانہ شہر کے لاہوری محلے میں آغا تاج محمد کے گھر میں پیدا ہوئے۔ جب بڑے ہوتے گئے تو اس کا شوق اور رجحان تعلیم کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھتا گیا اور اس نے جتنے بھی امتحان تھے Distination پوزیشن سے پاس کیے۔ انھوں نے بی اے(آنرز) فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا، جس کے بعد وہ کمیشن پاس کرکے ولیج آباد پروگرام میں ڈیولپمنٹ افسر بن گئے اور پورے سندھ میں کام کرتے رہے۔ وہ میونسپل کمیٹی سکھر کے چیئرمین اور ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز رہے، ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی دادو، ڈویژنل ڈائریکٹر پھر پروونشل ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اور Integrated رورل پروگرام میں اپنی خدمات دیتے رہے۔ جب کہ وہ پیپلز ورکس پروگرام، ریجنل ہیڈ زکوٰۃ پروگرام آف فیڈرل گورنمنٹ، ایم ڈی سندھ سیڈ کارپوریشن کے طور پر بھی کام کیا۔

یہ لوکل گورنمنٹ کے پہلے افسر تھے جو 2 جون 1999 میں 21 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے۔ انھوں نے اپنی چالیس سالہ خدمات کے دوران ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی، سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور لاڑکانہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کیں جو ایک بڑا اعزاز ہے۔

جب وہ ادب کی دنیا میں داخل ہوئے تو سندھی ادبی سنگت کے ممبر بنے، وہ جہاں بھی سرکاری سروس میں جاتے وہاں پر سنگت کی برانچ قائم کرتے اور کلچر کو ترقی دلانے کے لیے چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی کلچرل کاؤنسلز قائم کرتے تاکہ لوگ اپنے علاقے اور صوبے کا کلچر محفوظ کریں اور اسے ترقی دیں۔ انھوں نے سندھی زبان کو فروغ دینے کے لیے دوسری زبانیں بولنے والوں کی نالج کے لیے مختلف اخباروں اور رسائل میں 25 سال مسلسل مضمون لکھے۔

ان کے والد آغا تاج محمد بھی ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے، جس نے پاکستان کے قیام سے پہلے مسلمانوں کے بچوں کے لیے اپنی جیب سے اسکول قائم کیا۔ ان کے والد کچھ مسلمان شخصیات جس میں حسن علی آفندی، نور محمد ایڈووکیٹ، امیر غلام محمد تالپر اور اللہ ڈنو شاہ کو اس لیے بھی زیادہ پسند کرتے تھے کہ انھوں نے سندھ میں تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے اور اسکول قائم کیے جس میں اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔

کہتے ہیں کہ آغا شہاب الدین جس کا اپنا گھر نہیں تھا مگر اس نے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے گھر کے بجائے ایک اسکول تعمیر کروایا جسے انھوں نے اپنے والد کا نام دیا۔ ان کے والد نے بھی لیاقت میڈیکل کالج جامشورو، ایگریکلچر کالج ٹنڈو جام کے قائم کرنے میں بڑا رول ادا کیا تھا۔

اس روایات کو قائم رکھتے ہوئے آغا شہاب الدین نے اپنی پونجی سے اپنے والد کے نام پر ایک ہائی اسکول قائم آباد میں قائم کیا، اس کے بعد تین ہائی اسکول، ایک انٹرمیڈیٹ کالج اور دو پرائمری اسکول بنائے جب کہ آئی ٹی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے ایک آئی ٹی انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا جس کے لیے مہران یونیورسٹی کا ساتھ تھا۔ وہ چاہتے تھے سندھ کے لوگوں کو اپنی سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانا چاہے جس کے لیے انھوں نے سندھ سوشو، اکانامک ڈیولپمنٹ ٹرسٹ یعنی فاؤنڈیشن قائم کیا تھا۔

آغا کے لکھے ہوئے مضامین مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں جس میں ون یونٹ کے خلاف بھی ہیں حالانکہ وہ اس وقت سرکاری ملام تھے مگر سندھی زبان سے اور اپنے صوبے سے محبت کا اظہار کرنے میں انھوں نے کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کی۔

آغا چاہتے تھے کہ سندھ سے تعلیم کے نہ ہونے سے جو اندھیرا چھایا ہوا ہے وہ تعلیم کی روشنی سے دور ہو اور جو والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے وہ اس کے قائم کیے ہوئے تعلیمی اداروں سے مفت تعلیم حاصل کریں۔ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہونے کے لیے اور عام آدمی میں شعور پیدا کرنے کے لیے انھوں نے اپنے قلم کو Tool بنایا اور تعلیم کی اہمیت اور اس کے فروغ کے لیے کئی مضامین تحریر کیے جس سے معاشرے میں کافی تبدیلی پیدا ہوئی اور خاص طور پر بچیوں کو پڑھانے کا رجحان بڑھتا گیا۔

وہ سیاستدانوں سے ملتے تھے انھیں تعلیم کی ترقی کے بارے میں کنونس کرنے کے لیے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے کہ وہ اپنا کردار اس طرح سے نبھائیں کہ لوگ انھیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ ان کا خیال تھا کہ صرف تعلیم اور اس کے ساتھ صحیح تربیت ہی ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہے جس سے لوگ نہ صرف خوشحال بن سکیں گے بلکہ محبت اور امن ہمارا نصیب ہوگا۔

آغا صاحب جستجو کرتے کرتے آخر کار 25 جولائی 2011 کو اس فانی جہان کو الوداع کرگئے مگر پیچھے وہ کام اور پیغام چھوڑ گئے ہیں جو انھیں ہمیشہ کے لیے ہمارے دل و دماغ میں زندہ رکھے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں