افواج سمیت تمام ادارے اور حکام آئین کے تابع ہیں سندھ ہائیکورٹ

مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کسی شہری کو حدود سے باہر لے جانے کا اختیار کسی قانون نافذکرنیوالے ادارے کو نہیں ہے


Asghar Umar March 29, 2013
فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے کہاہے کہ کوئی بھی قانون اور آئین سے بالاتر نہیں۔

ریاست پاکستان کے امور آئین کے تحت چلائے جاتے ہیں،آرٹیکل5کے تحت مسلح افواج،حساس ادارے اور حکام آئین کے تابع ہیں،''ایڈ آف سول پاور، ریگولیشنز 2011''کی آڑ میں کسی کو بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا،یہ ریگولیشن آئین کے ماتحت ایک قانون ہے جو آئین اوربنیادی حقوق سے بالاتر نہیں، چیف جسٹس مشیرعالم اور جسٹس ندیم اختر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے جمعرات کو متعددلاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت کی۔

فاضل بینچ نے آبزرو کیاکہ مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کسی شہری کو حراست میں لینا اور صوبے کی حدود سے باہر لے جانے کا اختیار ملک کے کسی قانون نافذکرنیوالے ادارے کو نہیں، چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے لاپتا افراد کے مقدمات میں حساس اداروں کی جانب سے تعاون نہ کرنے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پاکستان ''Banana state'نہیں، آئین کے تحت چلنے والاملک ہے،ایف آئی اے، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی جیسے ادارے عدالتی نوٹس کے باوجودجواب داخل نہیں کرتے جس کاواضح مطلب یہ ہے کہ وہ خود کو آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔



اسامہ وحید کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت نے آبزروکیا کہ درخواست کے مطابق اسامہ وحید کو کراچی ایئرپورٹ سے ان کے بھائی کے ہمراہ گرفتار کیاگیا تھا ،بھائی اجمل وحید کوتو گھر پہنچ گئے مگر اسامہ وحید تاحال لاپتا ہے، تفتیشی اداروں نے جے آئی ٹی تو تشکیل دے دی گئی ہے مگر یہ ایک روایتی عمل ہے، ایسے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں،درخواست گزار امینہ بتول کے وکیل سید عبدالوحید ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایاکہ درخواست گزار کے خاوند اجمل وحید 13جنوری 2013کو گھر واپس آچکے مگر وہ انتہائی خوف میں مبتلا اور بیمار ہیں۔

جس کے باعث وہ کچھ بتانے سے قاصر ہیں،انھوں نے بتایا کہ اگر وہ کچھ بتائیں گے تو ان کے بھائی اسامہ وحید جو تاحال لاپتا ہیں کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے،غلام سخی کی گمشدگی سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت نے آبزرویشن دی کہ جے آئی ٹی بنانے کے لیے بار بار مہلت طلب کرکے تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ متعلقہ اداروں کو یہ کام خود کرلینا چاہیے، ملامحمدرسول کی درخواست میں کہا گیاہے کہ اس کے بیٹے کو 28 نومبر 2012 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں