عوامی معاشی اور فوجی دفاع آخری حصہ

آج عوام اور دانشوروں پر بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ ان دھوکے باز مداریوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیں۔


خالد گورایا January 29, 2018
[email protected]

یورپی ملکوں اور پاکستان میں اشیاؤں کی قیمتوں کے موازنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یورپی ودیگر سامراجی ملکوں کے حکمرانوں نے عوام کا معاشی دفاع زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا ہے۔ قیمتوں میں اضافوں کا موازنہ کریں تو یورپی ودیگر ترقی یافتہ ملکوں میں قیمتوں میں پاکستان اور پاکستان جیسے کئی ملکوں، جن کی تعداد تقریباً 128 ہے، ان سب سے کم قیمتیں ترقی یافتہ ملکوں میں بڑھی ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ امریکی مالیاتی عالمی شیطانی ہتھکنڈے سے معاشی غلام ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں مسلسل سڈ مڈ لگا لگا کر ان ملکوں میں صنعتی کلچر کی لاگتیں بڑھا کر صنعتوں اور زراعت کو ختم کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ ممالک جو یورو اور امریکی ڈالر میں لین دین کررہے ہیں، ان کے کارخانے، فیکٹریاں پھیل رہی ہیں اور معاشی غلام پاکستان کی فیکٹریاں اور کارخانے سکڑ کر بند ہورہے ہیں۔ پاکستان پر مسلسل سڈ مڈ لگتے رہنے سے مسلسل بجٹ خسارہ، تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔

حالیہ چند ماہ میں سڈ مڈ لگنے میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ سڈ مڈ کے لگنے کا فائدہ چند سو ایکسپورٹرز کو ڈالر ٹریڈنگ کے دوران کرنسی نفع حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کا منفی اثر و نقصان پورے ملک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی کا معاشی فائدہ سامراجی ممالک اٹھا رہے ہیں اور ہم پر مسلط جمہوری حکمران کمیشن کھاکر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

جاگیردار، سرمایہ دار جب بھی اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں، آج تک کسی ممبر اسمبلی نے عوام کی غربت کے خاتمے کی بات نہیں کی ہے، کبھی بھی بے روزگاروں کے لیے روزگار مہیا کرنے پر بحث نہیں ہوئی ہے۔ سیاسی گروپس آپس میں الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں، ان کے سامنے کوئی ایسا منصوبہ بھی نہیں ہے جس کے لیے کہا جاسکے کہ یہ عوامی معاشی خوشحالی کا منصوبہ ہے۔

تعلیمی شعبے میں انتشار پھیلا ہوا ہے۔ 10 جنوری 2018 کو اخبار میں شایع ہونے والی خبر کہ سندھ میں 5 ہزار اسکول بند، ایک لاکھ طالبات نے پڑھنا چھوڑدیا۔ عوام کو ہر طرح کا تحفظ دینا حکومت کی ذمے داری ہے، تعلیم کے ساتھ روزگار کا تحفظ فراہم کرنے میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں اور ساتھ ہی پرائیویٹ اداروں نے لوٹ مار مچا رکھی ہے۔ تعلیم آئے روز مہنگی کی جاتی ہے، لیکن اس کی قدر دن بدن صفر ہوتی جارہی ہے۔ ایک ملک ہے لیکن یہاں ہزاروں طرح کے نصاب ہیں، انگریزوں نے کالے انگریز اس لیے تیار کیے تھے کہ وہ ان کے ذریعے اپنی حکمرانی کو طول دینا چاہتے تھے۔

آج تک ہم پر انگریزی ذہنیت کے اسیر حاکم قابض ہیں۔ ملک میں ہزاروں مدرسے قائم ہوچکے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر جہاد کے نام پر مدرسہ سازی کی اور ان مدرسوں کی یہ حالت ہے کہ غربت کے مارے والدین اپنے بچوں کو محض اس لیے مدرسوں میں داخل کراتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کھانا اور رہائش مفت مل سکے گی۔ کیا جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی اولاد مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں؟ اشرافیہ کے بچے آج بھی برطانیہ، امریکا ودیگر یورپی ملکوں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ آصف زرداری کی ساری اولاد نے باہر برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ملک میں کون سی شے ہے جس میں عوامیت، پاکستانیت نظر آتی ہو۔

ملکی معیشت عوام کے تابع نہ ہونے سے معیشت تباہ ہورہی ہے۔ اشرافیہ اپنے شیطانی ہتھکنڈوں سے پاکستان کو ایک ناکام ملک کی طرف بری طرح سے دھکیل رہی ہے۔ عوام پر کب تک سرمایہ دار، جاگیردار، ملکی اور غیر ملکی قرضے عوام کے نام پر لے کر کھاتے رہیںگے؟ اور قرضوں کے بوجھ بڑھاتے رہیںگے؟ آج ملکی انتظامی ڈھانچہ عوام کے لیے قید خانہ ہے کہ عوام کا کوئی بھی فرد اشرافیائی پیدا کردہ سورس کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ ہر چیز پر اشرافیہ قابض ہے۔ عوام بے بس اور بے اختیار ہیں۔

کیا حکمران اور آیندہ 2018 میں الیکشنوں میں بننے والے حکمران بتائیںگے کہ عوام کو کب تک عوام سے ٹیکسوں کی شکل میں سرمایہ لوٹ لوٹ کر عوام کو غربت کی بھٹی میں جلاؤ گے؟ اگر حقیقت سے دیکھا جائے توغیر جمہوری لانڈری اور جمہوری لانڈری سے نکلنے والے تمام حکمران 1947 سے آج تک حکمرانی کرنے والوں میں ملک چلانے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، یہ حکومت بناکر بھی عوامی خوشحالی کو بحال نہ کرسکے۔

اگر خوشحالی آئی تو صرف جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے پاس، افراط زر کی شکل میں آئی۔ تمام بننے والی حکومتیں عوام دشمن ثابت ہوئیں۔ آج کل تمام جاگیردار، سرمایہ دار جلسے، جلوسوں، ریلیوں میں عوام کو اکٹھا کرکے ووٹ لینے کے لیے ورغلا رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عوام ان کو ووٹ یعنی اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں نکال کر ان کے حوالے کردیںگے اور پھر تمام اندھے عوام کو دھوکے دے کر خود آئے روز امیر اور عوام غریب تر ہوتے رہیںگے۔

آج عوام اور دانشوروں پر بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ ان دھوکے باز مداریوں کی سازشوں کا پردہ چاک کردیں۔ پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکے گا، اس وقت تک دفاعی طور پر محفوظ ملک نہیں بنے گا، جب تک عوام کو گلی کوچوں، صوبائی و قومی اسمبلیوں میں اپنی جگہ نہیں ملے گی۔ کیونکہ 71 سال سے جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے ملکی دفاع کو ہر طرح سے زک پہنچائی اور معیشت کو خود بھی لوٹا اور سامراج کو بھی لوٹنے کا راستہ دیا ہے، جس کی مثال و تصدیق ملک پر بار بار سڈمڈ کے لگانے سے معیشت تباہ کردی گئی۔

عوام سے ٹیکس در ٹیکس وصول کیے گئے اور ملکی تجارتی خسارے سے عوام کی معاشی بد حالی کو مزید بڑھایا گیا، تاجر ایکسپورٹرز ہوں یا امپورٹرز ہوں ان کے نفع میں کبھی بھی کمی نہیں آئی ہے۔ عوام اور عام فوجی پر جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے مہنگائی کا بوجھ لاد دیا ہے، آج ملک میں اعلیٰ معیاری زراعتی اشیا غیر ملکی منڈیوں میں تاجر بیچ دیتا ہے تاکہ ڈالر نفع لے کر پھر ان ڈالروں پر مزید روپوں (روپے) کا نفع حاصل کرتا ہے۔

آج ملک سے ذہین نوجوان زیادہ صلاحیت و قابلیت کو باہر جاکر فروخت کررہا ہے تاکہ زیادہ خوشحال ہوجائے۔ سامراجی سسٹم در اصل انسانیت کی موت ہے، جب تک پوری دنیا میں سامراجی امریکی کاغذی ڈالر قبول کیا جاتا رہے گا جب تک دنیا کے غریب ملکوں کے جاگیردار، سرمایہ دار امریکا کی حمایت اور اپنے عوام کا سرمایہ لوٹ لوٹ کر یورپی و امریکی پناہ گاہوں میں جمع کراتے رہیں گے اور سامراجی ملکوں میں سرمایہ کاری کرنا نہیں چھوڑیں گے، اس وقت تک دنیا کے 128 معاشی غلام ملکوں کے عوام سامراجی امریکا اور جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی بنائی ہوئی غلیظ لانڈری جمہوریت میں غربت کی آگ میں جلتے رہیں۔

یہ آگ قدرت نے نہیں پیدا کی، یہ اشرافیہ اور امریکی سامراج شیطان کی پیدا کردہ آگ ہے۔ غربت کی آگ سے نجات کے لیے عوام کو جعلی اور فریبی جھوٹے جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی غلیظ جمہوریت کو چیر پھاڑ دینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں