عوامی معاشی اور فوجی دفاع   چھٹا حصہ

عوام کو چند مفاد پرست آئے روز مہنگائی کا شکار کررہے ہیں۔


خالد گورایا January 26, 2018
[email protected]

KOLKATA: سڈ مڈ کے منفی اثرات کو دیکھیے کتاب Statistical Bulletin October 2017 کے صفحہ 94 اور 95 کے مطابق مالی سال 2012-13ء میں ایکسپورٹ 24 ارب 74 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور امپورٹ 44 ارب 95 کروڑ ڈالر تھی۔ تجارتی خسارہ 20 ارب 20 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھا۔ مالی سال 2013-14ء میں تجارتی خسارہ 19 ارب 82 کروڑ ڈالر تھا۔

مالی سال 2014-15ء میں تجارتی خسارہ 22 ارب 16 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔ مالی سال 2015-16ء میں تجارتی خسارہ 23 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھا۔ مالی سال 2016-17ء میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 32 ارب 46 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ہوگیا تھا۔ اس طرح جوں جوں سڈ مڈ بڑھایاجاتا رہے گا توں توں اسی نسبت سے ملکی معیشت خسارے میں جاتی رہے گی۔ اسی طرح ملکی اور غیر ملکی قرضے بڑھتے جائیںگے۔ آخر میں انتہائی مقام پر پورے ملک کی بقا خطرے میں پڑتی جائے گی۔ غیر ملکی سازشیں تیز ہوتی جائیں گی۔

آج تحریک انصاف عوام کو بالکل اسی طرح ورغلارہی ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی، کپڑا، مکان کا خواب دکھاکر عوام کے ووٹوں سے اکثریت حاصل کی تھی۔ اسی طرح آج کوئی بھی پارٹی میدان میں عوام و ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے، اگر ایک شخص ٹھیک ہے تو اس کے ساتھ جاگیردار، سرمایہ دار نئے روپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

پاکستان جب بنا تھا اگست 1947ء کو 3.3085 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ 11 دسمبر 2017ء کو 112.00 روپے کا ڈالر کردیاگیا، روپے کی قیمت میں کمی 33.85 گنا کردی گئی۔ یا قیمت میں کمی 3285 فیصد کردی گئی تھی۔ فوجی حکومتیں ہوں یا سیاسی تمام کے دور میں سڈ مڈ کا فارمولا امریکا نے استعمال کیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں روپے کی قیمت میں کمی نہیں کی گئی، لیکن امریکا نے جنرل ایوب کو بڈابیر میں امریکی جاسوسی اڈا بناکر استعمال کیا۔

آج تک امریکا کی کوئی بات پاکستان کے حق میں نہیں ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ذہین لیڈر کہتے ہیں، لیکن معیشت کی تباہی سب سے بڑھ کر اسی کے دور میں ہوئی تھی۔ مئی 1972ء میں 4.762 روپے سے 11.031 روپے کا ڈالر کردیاگیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 132 فیصد ہونے سے ملکی پیداواری لاگتیں 132 فیصد بڑھ گئیں۔

بیروزگاری، مہنگائی کی وجہ سے کراچی میں مزدوروں نے ہڑتالیں کیں، مزدوروں کا 1973ء میں قتل عام کیا گیا، کتنی حیرت کی بات ہے کہ آج تک ملک کا آئین اور سپریم کورٹ آف پاکستان، تمام سیاسی پارٹیاں امریکی مالیاتی و معاشی حملوں سے ملک و عوام کو بچا نہیں سکیں؟ مقتدر ادارے معاشی غلامی پر خاموش کیوں ہیں؟ کسی ملک کا معاشی دفاع جتنا کمزور ہوتا ہے وہ ملک اتنا ہی دشمنوں کی زد میں ہوتا ہے۔ معاشی دفاع کمزور ہوتا ہے تو فوجی دفاع بے بس اور کمزور ہوجاتا ہے۔

امریکا اور دنیا بھر کے جہادی جب روس افغان جنگ میں روس کو شکست دینے میں ناکام ہوگئے تو امریکا نے سعودی عرب کو استعمال کرکے تیل کی پیداوار 2 ملین بیرل سے بڑھاکر 9 ملین بیرل کرادی تھی۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 30 ڈالر بیرل سے گر کر 10 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ اس سے روسی معیشت خسارے میں چلی گئی اور 1986ء سے مسلسل روس معاشی طور پر کمزور ہوتا اور 1989ء کے آخر میں افغانستان سے نکل گیا۔

1947ء سے آج تک فوجی اور سیاسی حکمران تمام کے تمام نا اہل تھے، جو امریکی ہتھکنڈے کا آلہ کار بنے رہے۔ 7 جنوری 2018ء کو کاغذی ڈالر کی قیمت 112.30 روپے فی ڈالر ہوچکی تھی۔ امریکا جو سامنے کررہا ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان کو معیشت کمزور کرکے ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف ودیگر گروپ اب تک خاموش کیوں ہیں؟ کیا ان کی صلاحیتیں امریکی کاغذی ڈالر کے نیچے دب چکی ہیں؟ آج تک کسی پارٹی نے سڈ مڈ کے منفی اثرات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے؟

چند ایکسپورٹرز کے نفع و تاجری مفاد کے لیے ملکی معاشی دفاع کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی اگر 5 پیسے بھی کم کی جاتی ہے تو ایکسپورٹرز کو ڈالر ٹریڈنگ کے دوران کروڑوں روپے کا نفع ہوجاتا ہے لیکن اس کے ساتھ 20 کروڑ عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں تمام اشیا مہنگی اور صنعتی کلچر لاگتیں بڑھ جاتی ہیں۔

بے حسی اور بے ضمیری کا یہ عالم ہے کہ چند ایکسپورٹرز اپنے نفع ڈالر کے لیے پورے ملک کے عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہے ہیں، پاکستان میں پھیلی سیکڑوں ایکسچینج کمپنیاں ڈالر ٹریڈنگ کرکے نفع کے لالچ میں ڈالر کی قیمت حکومتی وزرا کے ساتھ مل کر بڑھاتی رہتی ہیں آج سڈ مڈ کے نتیجے میں سامراجی کمپنیاں چند لاکھ ڈالر لگاکر مقامی اربوں کروڑوں روپے کے اثاثے خرید رہی ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں عوامی سرمایہ بیرونی ملک منتقل کررہی ہیں۔ آئے روز اخباروں میں سرخیاں لگتی رہتی ہیں۔

28 ستمبر 2017ء کو خبر کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاری پر 33 کروڑ ڈالر باہر منتقل ہوئے، اس طرح 28 اگست 2017ء کو خبر لگی کہ بیرونی ملکوں کو غیر ملکی سرمایہ کاری پر 16 کروڑ 40 لاکھ ڈالر بیرونی ملکوں کو منتقل ہوئے۔ دوسری طرف بڑھتی امپورٹ سے عوامی سرمایہ باہر منتقل ہورہاہے تیسری طرف قرضوں پر عوامی سرمایہ ادائیگی کے نام پر حکمران خود ہڑپ کررہے ہیں اور پاکستان آئے روز کنگال ہوتا جارہاہے۔

عوام کو چند مفاد پرست آئے روز مہنگائی کا شکار کررہے ہیں۔ حکومت پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور دیگر گروپوں کی ہو، یہ سب ملکی معاشی دفاع کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ تحریک انصاف کو مرکزی حکومت کا اقتدار چاہیے، اس کے سامنے معاشی دفاع کا کوئی پروگرام اب تک سامنے نہیں آیا۔ یہ اقتدار لے کر اداروں پر دباؤ بڑھانے کے علاوہ معاشی ترقی کے لیے عوامی سطح پر کوئی ٹھوس پروگرام پیش کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔

اصل تبدیلی عوام کی خوشحالی کے لیے ملکی معاشی دفاع کے لیے معاشی ڈھانچے میں بنیادی اور سیاسی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف میں زیادہ تر جاگیردار، سرمایہ دار لوٹے اور نئے سرمایہ دار، جاگیردار کا جمگٹھا لگا ہوا ہے۔ فوجی حکمرانوں جنرل ایوب خان کے دور میں روپے کی قیمت نہیں بڑھی تھی لیکن اس نے کوئی معاشی دفاع کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ معیشت ان سب کا مضمون بھی نہیں تھا۔ ان کے معاشی یا خزانے کے تمام وزیر امریکی ایجنٹ تھے۔ انھوں نے کمیشن کھا کھاکر سڈ مڈ کو مسلسل لاگو کیا۔

افواج پاکستان اور عدالت عالیہ کا مضمون معیشت نہیں رہا ہے اس لیے ان دونوں اداروں کے سامنے معاشی دفاع کا مسئلہ نہ اٹھا اور نہ ہی کبھی زیر بحث آیا۔ یہ تمام تر ذمے داری حکومتوں کی تھی جو ان تمام حکومتوں نے امریکی منصوبوں پر پوری عمل کرکے معاشی تباہی میں مزید اضافہ کیا۔ جب سے نواز لیگ کے لیڈر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا ہے مسلم لیگ ن ملکی معیشت کو تیزی سے تباہ کرتی جارہی ہے کیونکہ کاغذی ڈالر کی قیمت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں