ٹی بی‘ عالمی اور ملکی صورتحال…

دنیا بھر میںٹی بی کی وجہ سے ایک سال میں تقریباً 20 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں



KARACHI: ٹی بی کو جو ٹیوبر کلوسس کا مخفف ہے،برصغیرمیں تپ دق کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ ایک قدیم مرض ہے۔ تقریباً 6000سال پرانی انسانی ہڈیوں میں بھی اس بیماری کے آثار پائے گئے ہیں۔ جتنا یہ مرض قدیم ہے اتنی ہی مدت سے حضرتِ انسان اس سے نجات کی کوششیں بھی کرتا رہا ہے، لیکن آج کی جدید دنیا میں ٹی بی کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم تمام ترجدوجہد کے باوجود اس مرض سے پوری طرح نجات نہیں پا سکے ہیں۔2012کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب اسی کروڑ افراد کسی نہ کسی درجے میں ٹی بی کے جراثیم سے متاثر ہیں جو دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی بنتا ہے۔

اسی طرح دنیا بھر میںٹی بی کی وجہ سے ایک سال میں تقریباً 20 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، یعنی ہر پندرہ سیکنڈ میں ایک انسان اس جان لیوا بیماری کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ٹی بی کا نہ صرف سو فیصد شافی علاج موجودہے بلکہ وہ نسبتاً دوسری بیماریوں سے بہت سستا بھی ہے۔اگر مریض خود ٹیسٹ اور دواؤں کا خرچہ برداشت کرے تو تین سے ساڑھے تین ہزار تک خرچ ہوتا ہے ورنہ ٹی بی کے تمام مراکز پر حکومت کی طرف سے ٹیسٹ اور دوائیں مفت دستیاب ہیں۔اس کے باوجودایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی میںٹی بی کے جرثومے کا موجود ہونا اور ہر سال تقریباً 80 لاکھ افراد کا اس بیماری میں مبتلا ہونا اور ان میں سے 20لاکھ افراد کا اس قابلِ علاج مرض کی وجہ سے ہلاک ہو جانا تعجب خیز نہیں تو پھر کیا ہے؟

حضرتِ انسان کو ٹی بی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلی اور بڑی کامیابی24مارچ 1882ء میں ملی جب جرمنی کے ایک سائنس دان رابرٹ کاخ نے ٹی بی کے مرض کا سبب بننے والا ایک جرثومہ مائیکرو بیکٹریم ٹیوبر کلوسس دریافت کیا۔ اس سے پہلے ٹی بی سے متعلق مختلف نظریات تھے، مثلاً اکثر کی رائے یہ تھی کہ بہت زیادہ غم اور صدمہ، پریشانی اور فکر انسان کو ٹی بی میں مبتلا کر دیتی ہے۔

کچھ ماہرین کی رائے یہ تھی کہ خراب آب وہوا اور گندی خوراک اس مرض کی وجہ ہے۔ لیکن رابرٹ کاخ کی دریافت نے ان مفروضوں کو ختم کر دیا اور ثابت کر دیا کہ حد بصارت سے پرے ایک ننھے جراثیم کی یہ حشر سامانی ہے جو ٹی بی کا باعث ہے۔ ٹی بی کے خلاف دوسری بڑی کامیابی 1950ء کے اوائل میں نصیب ہوئی جب Streptamycin انجکشن کوٹی بی کے علاج میں بہت مؤثر پایا گیا۔ یہ پہلی دوا تھی جو سائنسی بنیادوں پر ٹی بی کے علاج کے لیے کارآمد ثابت ہوئی، پھر ٹی بی کی دوسری دوا Isoniazidسامنے آئی، اس کے ذریعے بھی ٹی بی کے علاج میں اہم پیش رفت ہوئی۔

اسی طرح مختلف دوائیں ماہرین ٹی بی کے علاج کے طور پر استعمال کراتے رہے، یہاں تک کہ Rifampicin نامی دوا ایجاد ہوئی جوٹی بی کے علاج کے ضمن میں ایک انقلا ب کا درجہ رکھتی ہے۔لیکن کچھ عرصے کے بعد تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ٹی بی جیسے مہلک مرض کے لیے ان دواؤںمیں سے کسی ایک دوا سے مکمل شفا ممکن نہیں بلکہ چار پانچ مختلف دواؤں کو یکجا کر کے ایک کورس کی شکل میں استعمال کرنے سے ہی ٹی بی کے مرض کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

چونکہ 24مارچ 1882ء کو ٹی بی کا باعث بننے والا جرثومہ دریافت ہواتھا۔ اسی لیے ہر سال 24مارچ کو ورلڈ ٹی بی ڈے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

اعداد وشمار کے آئینے میںباقی دنیا کی نسبت پاکستان کی صورتحال بہت زیادہ سنگین ہے۔عالمی رینکنگ میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان کا نمبردنیا کے دوسو سے زیادہ ممالک میںچھٹا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 2001ء میں ٹی بی کو قومی ایمرجنسی قرار دیا اور ہنگامی بنیادوںپر اس مرض کی روک تھام کے لیے کوششیں شروع کیں۔پاکستان کے علاوہ افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش، برما اور چین بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔

ایک جائزے کے مطابق ہمارے ملک میں ہر سال تقریباًتین لاکھ ٹی بی کے نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور اندازاً 70,000 افراد اس جان لیوا مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تعداد میں سے دو تہائی مریض جواں عمر ہوتے ہیں جن پر ملکی معاشی اور معاشرتی ترقی کا دارومدار ہوتا ہے۔ مرض کی وجہ سے نہ صرف مریض اور اس کا خاندان معاشی بدحالی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹی بی کی اس سنگین صورتحال کا ایک اہم سبب عوام میں ٹی بی سے متعلق ناواقفیت ہے ۔ایک قابل علاج بیماری کا اسٹینڈرڈ طریقے سے علاج نہ کرانا اور علاج درمیان میں ادھورا چھوڑ دینا۔یہ دو اہم سبب ٹی بی پر مکمل کنٹرول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور چوں کہ ٹی بی ایک متعدی اور تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے، اس وجہ سے ٹی بی سے متاثرہ شخص اپنا علاج نہ کرا کے یا علاج درمیان میں ادھورا چھوڑدینے کی وجہ سے نہ صرف خود تیزی سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں دوسرے صحت مند افراد میں بھی اس بیماری کے جراثیم منتقل کر دیتا ہے۔

اور پھرجزوی علاج کے ضمن میں انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ نامکمل یا جزوی علاج کی وجہ سے مریض ٹی بی کی انتہائی خطرناک قسم یعنی Drug Resistant TB Multiple (دواؤںکے خلاف مزاحم ٹی بی) میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ٹی بی کی اس قسم کا علاج بہت مہنگا ، مشکل اور لمبے دورانیے کا ہے۔یہ ٹی بی کی اتنی خطرناک صورت ہے کہ جس عام ٹی بی کے مکمل علاج میں تین سے ساڑھے تین ہزار روپے خرچ آتا ہے اور اس کا مکمل شفا کا دورانیہ آٹھ ماہ کا ہوتا ہے، وہ ٹی بی جب ایم ڈی آر ٹی بی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اب اس کا علاج انتہائی مشکل اور پیچیدگی اختیار کر لیتا ہے ۔

ٹی بی کی اس صورت میںجو دوائیں استعمال کروائی جاتی ہیں' وہ نہ صرف عام دستیاب نہیں ہوتیں بلکہ بہت مہنگی ہوتی ہیں، اس طرح علاج کا خرچہ چند ہزار روپوں سے بڑھ کر دو سے ڈھائی لاکھ تک پہنچ جاتا ہے،اور دورانیہ علاج بھی آٹھ ماہ سے بڑھ کردو سال اور کبھی اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔جب کہ مکمل شفا کا تناسب بہت کم ہوتا ہے!! عام ٹی بی خود ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن پاکستان میں عام ٹی بی کے مریض جس تیزی سے ایم ڈی آر ٹی بی میںمبتلا ہورہے ہیں وہ ایک انتہائی خطرناک اور گمبھیر صورتحال ہے۔

ہمارے ہاں صحت کے شعبے میں اور خود ٹی بی کے لیے کام کرنے والے اداروں کو بھی شایداس کی خطرناکی کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔ اس کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عام ٹی بی کے مریض عام ٹی بی کے جراثیم پھیلاتے ہیں اور ٹی بی کی اس پیچیدہ قسم میں مبتلا مریض دواؤں سے مزاحم جراثیم دوسروں میں منتقل کر کے ان کو براہ راست ایم ڈی آر ٹی بی میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک مریض سال میں 20صحت مند افراد میں ایم ڈی آر ٹی بی منتقل کرتا ہے جو انتہائی ہولناک صورتحال ہے۔

B MDR T کی کئی وجوہات ہیں مثلاً علاج کے دوران صرف ایکAnti-TBدوا کا استعمال ،دواؤں کا باقاعدہ استعمال نہ کرنا یانامکمل علاج،دواؤں کا تجویز شدہ خوراک سے کم مقدار میں استعمال کرنایا پھر غیر معیاری دواؤں کا استعمال کرنا۔ان تمام اسباب سے بچنے کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے ٹی بی کے علاج کے لیے تجویز کردہ پروگرام (Dots)پر شدت سے عمل کرنا چاہیے۔اس پروگرام کے مطابق مسلسل آٹھ مہینے تک مریض کو پابندی سے ماہر ڈاکٹر زکے زیر نگرانی مخصوص دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں۔

گورنمنٹ کی طرف سے ہر ضلع بلکہ ہر تحصیل میں ٹی بی کی مفت سہولیات موجود ہیں۔صرف کراچی میں دیکھا جائے تو ٹی بی کی تشخیص اور مکمل علاج کی بالکل مفت سہولت دینے والا ایک اہم ادارہ اوجھا انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈزیزز ہے یہ ادارہ سینے کی بیماریوں خصوصاً ٹی بی کی تمام اقسام کی تشخیص اور علاج کے لیے نہ صرف پاکستان بھر میںبلکہ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد ادارہ ہے ۔ہم اس کالم کے ذریعے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ٹی بی کو ہلکی بیماری نہ سمجھیں۔

ٹی بی میں مبتلا ہونے کی صورت میںگورنمنٹ کی مفت سہولیات سے فائدہ اٹھا کر پابندی سے اس کا مکمل علاج کروائیں۔یاد رکھیے ٹی بی یا اسی طرح کے دوسری متعدی بیماریاں کسی مریض کا ذاتی معاملہ نہیں ، کیوں کہ مریض کے علاج نہ کروانے کی صورت میںوہ خود تو موت کے منہ میں جاتے ہی ہیں، دوسروں میں بھی اس انفیکشن کے پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں