عوامی معاشی اور فوجی دفاع حصہ اول
ہم آج اس قدر انگریزی زدہ ہوچکے ہیں کہ عام کلرک کی بھرتی میں بھی یہی طریقہ کار آج موجود ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں امریکی کاغذی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قیمت 112 روپے تک جا پہنچی ہے۔ ہمارے فوجی جوان مسلسل ملک و عوام کے تحفظ کے لیے امریکی پیدا کردہ دہشتگردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے اسکول، کالج اور محافظ فوجی، پولیس اور عوام دہشتگردی میں 70 ہزار سے زیادہ جانی قربانیاں پیش کرچکے ہیں۔ ایک طرف بیرونی اور ملک کے اندرونی سیاسی دشمنوں نے زر کی ہوس میں ملک و عوام کو خطرات میں ڈالا ہوا ہے۔
ایسا لگتا ہے تمام مقتدر ادارے ان کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں یا ان میں حقائق جاننے کی صلاحیت مرچکی ہے۔ ہم کئی صدیوں سے غیروں کے غلام چلے آرہے ہیں۔ پرتگیزی واسکوڈی گاما 1498ء میں ہندوستان کے مغربی ساحل سے متعلقہ شہر کالی کٹ پہنچا، حاکم زمورن کے سامنے پیش ہوا۔ زمورن نے بادشاہ پرتگال کو تجارتی دعوت دی۔ اس طرح دو طرفہ تجارت ہونے لگی۔ 1500ء سے 1600ء تک پرتگیزی بحر ہند پر چھائے رہے۔ گوا کے مقام پر انھوں نے مضبوط قلعہ تعمیر کرلیا تھا۔
سوئیڈن، جرمنی، ڈنمارک، فرانس، ہالینڈ اور برطانیہ نے بھی ایسی کوششیں جاری رکھیں۔ ہالینڈ والوں نے پرتگیزیوں کو نکال باہر کیا اور پھر انھوں نے تجارت پر قبضہ کرلیا اور کوچن سیلون، جزیرہ جاوا، جزیرہ سماترا میں تجارتی کوٹھیاں قائم کرلیں۔ برطانوی تاجروں نے 1611ء اور 1615ء میں مغل بادشاہ جہانگیر سے اجازت لے کر سورت و دیگر مقامات پر کوٹھیاں قائم کرلیں۔ متحدہ ایسٹ انڈیا کمپنی مسلسل ریشہ دوانیاں کرتی رہی اور برطانیہ (انگلینڈ) سے فوجی لاکر کوٹھیوں کو فوجی قلعوں میں بدلتی رہی۔
لارڈ کلائیو (1765ء سے 1767ء تک) نے غدار وطن میر جعفر کی سورت کے بعد اس کے بیٹے نجم الدولہ کو بہار اور بنگال کا (حاکم) نواب مقرر کرکے اس کے ساتھ دو انگریز افسروں کو تعینات کیا۔ نجم الدولہ رعیت سے جو ٹیکس اکٹھا کرتا تھا، یہ دونوں انگریز اس کی نگرانی کرتے تھے۔ ٹیکسوں میں سے کچھ حصہ نواب کو ملتا تھا، باقی لارڈ کلائیو گورنر بنگال کے پاس آتا تھا۔
گورنر اس میں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اور انگریز فوجیوں کے اخراجات نکال کر باقی انگلینڈ بھیج دیتا تھا۔ وارن ہیسٹنگز گورنر (1772ء سے 1774ء تک) نے مقامی نوابوں ان کے نائبین سے (ٹیکس) مالیاتی وصولی کے اختیارات چھین کر بنگال اور بہار کے ہر ضلع میں ایک ایک انگریز کلکٹر مقرر کیا۔ یہ کلکٹر اپنے علاقوں کے جج بھی تھے۔ ان کی مدد کے لیے ہندو پنڈت اور قاضی مقرر کیے گئے۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ریونیو میں اضافہ کیا۔ یہ بھی انگلینڈ ٹیکس بھیجتا رہا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اس سے قبل تمام ہندوستان میں زمین کو ذاتی ملکیت کی شکل میں رکھنا ممنوع تھا۔ کیونکہ تمام زمینیں شہنشاہ یا بادشاہ کی ملکیت ہوتی تھیں۔ یہ تمام زمینیں نوابوں، حاکموں، سرداروں کو ٹھیکے پر یا لگان پر دی جاتی تھیں۔ ہاری جو کاشت کرتے تھے حکومتی کارندے ان کو صرف اتنا دیتے تھے کہ وہ بمشکل زندہ رہ سکیں۔
گورنر جنرل لارڈ کارنوالس (1786ء سے 1793ء تک) نے زمین کو راجوں، نوابوں، سرداروں و دیگر قبیلے والوں کی ذاتی ملکیت بنادیا۔ اس نے بھی ہر ضلع میں انگریز جج اور ٹیکس جمع کرنے کے لیے ہر ضلع میں انگریز کلکٹر مقرر کیے۔ شہنشاہ، بادشاہ، راجوں، نوابوں کی بغاوتوں کو کچل کر ان سے چوتھ (لگان، باجگزاری) یعنی آمدنی کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے اسے ختم کرکے نقد ٹیکس وصول کرنے کا رواج شروع کیا۔
1776ء میں برطانوی حکومت نے ریگولیٹنگ ایکٹ کے تحت گورنر بنگال کا تقرر ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کر برطانوی وزیراعظم کے اختیار میں دے دیا۔ ایک عدالت اعلیٰ کلکتہ میں قائم کرکے اس کا جج برطانیہ سے مقرر کیا جانے لگا۔ گورنر جنرل ولیم بٹنگ (1828ء سے 1833ء تک) نے غلام ہندوستان میں انگریزی کلچر کو فروغ دینے کے لیے انگریزی اسکولز قائم کرنے شروع کیے۔ مغل بادشاہوں کے دور میں سرکاری زبان فارسی ہوتی تھی۔
انگریز ہندوستان پر جہاں قابض ہوئے وہاں انگریزی زبان کو دفتری زبان قرار دیتے تھے۔ ہندوستان میں مرکزی حکومت کا فقدان تھا۔ نواب، راجے، مہاراجے اپنی اپنی ریاستوں کے حاکم تھے۔ شہنشاہوں، بادشاہوں کی قوت یعنی فوجی طاقت کے سامنے بے بس ہو کر باجگزار بن جاتے تھے۔ انگریزوں نے رفتہ رفتہ ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہندوستان کو فتح کرکے باجگزار بنانا شروع کردیا۔
سندھ کو انگریزوں نے مارچ 1843ء میں فتح کیا۔ ملتان، گجرات کو 1849ء میں فتح کیا۔ لارڈ ڈلہوزی گورنر جنرل 1848ء سے 1856ء کے دور میں 1853ء میں غلام ہندوستان میں پہلی ریل گاڑی کے لیے 20 میل کی پٹری بنائی گئی، انگریزوں نے اپنی سہولتوں کے لیے ریل گاڑی، سڑکوں، محکمہ ڈاک، محکمہ تعلیم اور انگریزی اسکولوں کی تعداد بڑھائی۔ 1853ء تک سول سروس میں انگریزوں کا تقرر ایسٹ انڈیا کمپنی کرتی تھی۔
سول سروس میں ہندوستانیوں (مقامیوں) کو نہیں لیا جاتا تھا۔ 1853ء میں لندن میں سول سروس کا امتحان انگریزی زبان میں لندن لیا جانے لگا۔ اس کے بعد ہندوستانیوں کو سول سروس میں لیا جانے لگا۔ 1840ء میں لارڈ کلائیو نے ''پلاسی'' کو فتح کرکے انگریز حکومت قائم کی تھی۔ لارڈ کیننگ نے 1856ء میں اسپتال، تار گھر، ڈاکخانے، ریل گاڑی اور انگریزی اسکولوں کی تعداد بڑھائی۔ محکمہ تعلیم قائم کیا۔
1857ء کی جنگ آزادی کا آغاز میرٹھ میں مقامی سپاہیوں کو جب انگریزوں نے بندوقوں کے ساتھ ایسے کارتوس دیے کہ کارتوسوں کو بندوقوں میں چڑھانے سے چکنائی سے چکنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ چکنائی سور کی چربی تھی۔ اس طرح سپاہیوں کے جسموں کو یہ چربی لگ جاتی تھی، اس پر جنگ آزادی کا آغاز ہوگیا۔
ایک طرف انگریزوں نے مسلمانوں کی فارسی سرکاری زبان کی جگہ انگریزی نافذ کرنا شروع کردی تھی، دوسری طرف انگریزوں نے جگہ جگہ انگریزی اسکول کھولنے شروع کردیے تھے۔ ان اسکولوں میں ہندوؤں کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی۔ اوپر سے مسلمانوں نے بندوق کی گولیوں کے ساتھ سور کی چربی کے استعمال کو مکمل طور پر مسلمانوں کی آزادی ختم کرنے کے مترادف جانا۔
میرٹھ، مدراس، دہلی، کانپور، لکھنو میں مسلم سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی۔ لیکن انگریز اس وقت تک مضبوط ہوچکے تھے انھوں نے سختی سے ''جنگ آزادی'' کو کچل دیا۔ اور برطانوی سامراج نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار لے کر براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت کردیا۔ یاد رہے غلام انڈیا میں تقریباً 700 ریاستیں اور صوبہ جات تھے۔ اس کے بعد تاج برطانیہ کا نمایندہ حکمران گورنر جنرل، وائسرائے ہند لارڈ کیننگ کو 1858ء سے 1862ء تک مقرر کیا۔
اس وائسرائے ہند کے دور میں تین بڑے قوانین نافذ کیے گئے۔ (1) ضابطہ دیوانی 1859ء، جس میں باہمی لین دین کے قواعد منضبط ہیں۔ یہ اب تک ہمارے ہاں 158 سال سے لاگو ہے۔ پہلے سامراجی تھا، اب پاکستانی ہے۔ اسی طرح (2) تعزیرات ہند 1860ء، اس میں سزاؤں کے قانون درج ہیں جوکہ Indian Penal Code کہلاتے تھے۔ اس کے بعد اسے تعزیرات پاکستان بنا لیا گیا۔ اس میں جرائم اور ان کی سزاؤں کے بارے میں دفعات ہیں۔ (3) ضابطہ فوجداری 1861ء میں جاری ہوا، جس میں جرائم کے انسداد کا دستور العمل ہے۔
اس کے بعد لارڈ میو وائسرائے 1869ء میں ہندوستان آیا۔ اس نے محکمہ زراعت قائم کیا۔ ستمبر 1869ء میں لارڈ میو نے کلکتہ، مدراس، بمبئی، الٰہ آباد، لاہور، پٹنہ، لکھنو، علی گڑھ، ڈھاکا، بنارس، ناگ پور، آندھرا میں انگریزی تعلیمی سسٹم کو فروغ دیا تاکہ مقامی آبادی میں انگریزی زبان مقامی ٹیچر (استاد) سیکھ کر آگے اسکولوں میں تمام انڈیا میں پڑھا سکیں۔
نئے نئے محکمے کھلنے سے ان میں انگریزی جاننے والوں کو فوقیت دے کر نچلے درجے کی ملازمتیں دی جاتی تھیں۔ ہم آج اس قدر انگریزی زدہ ہوچکے ہیں کہ عام کلرک کی بھرتی میں بھی یہی طریقہ کار آج موجود ہے کہ کلرک کو انگریزی لکھنی آتی ہے کہ نہیں۔ 200 سال کی غلامی کے دوران انگریزوں سے زیادہ کالے انگریز ''انگریزی دان'' ہوچکے ہیں۔ سی ایس پی کا امتحان اس کی مثال ہے کہ سی ایس پی افسر انگریزی زبان کا ماہر ترین ہوتا ہے۔
(جاری ہے)