وہ مفت لازمی تعلیم کیا ہوئی۔۔۔

ججوں کے دورے کے موقع پر کراچی کے سرکاری اسکولوں کا پول کھل گیا۔


ججوں کے دورے کے موقع پر کراچی کے سرکاری اسکولوں کا پول کھل گیا۔ فوٹو : فائل

سرکاری اسکولوں میں مویشی بندھے ہیں۔۔۔ اسکولوں کو بھینسوں کا باڑہ اور گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا گیا ہے۔۔۔

وڈیروں نے اوطاق بنالی ہے۔۔۔ اسکول بااثر شخصیت کا مہمان خانہ ہے۔۔۔ قبضہ مافیا ہے۔۔۔ منشیات فروش ہیں۔۔۔ اسکول کا وجود صرف کاغذوں پر ہے۔۔۔ یا عمارت کے نام پر مخدوش کھنڈر موجود ہے۔۔۔ فرنیچرہے نہ اساتذہ اور نہ طلبہ۔۔۔ اسکول کے افتتاح کو طویل عرصہ بیت جانے کے بعد بھی کوئی داخلہ نہیں ہوا۔۔۔ اساتذہ نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا۔۔۔ سارا عملہ گھر بیٹھ کر تن خواہ کھا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ملک کے دور دراز دیہاتوں سے اس طرح کی خبریں آنا تو عام ہیں، لیکن کیا ملک کے سب سے بڑے شہر کے سرکاری اسکولوں میں بھی ایسی صورت حال ہو سکتی ہے؟

یقیناً پہلے تو لفظ دیہات اور شہر سے ہی فرق پتا چل جاتا ہے، لیکن یہ تمام صورت حال کراچی جیسے شہر میں اس وقت منظر عام پر آئی، جب سپریم کورٹ کے حکم پر مختلف علاقوں میں موجود سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا گیا۔ جہاں رنچھوڑ لائن جیسے علاقے میں بھی سرکاری اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ عمارتیں نہایت مخدوش ہیں، طلبا کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اساتذہ بریک کے بعد آتی ہیں، جب کہ بریک کے بعد بچے نہیں ہوتے۔ اسکول میں داخلوں وغیرہ کا ریکارڈ بھی موجود نہیں۔

لانڈھی میں گورنمنٹ پرائمری مڈل اسکول مانسہرہ کالونی نمبر چار کا میدان نشے کے عادی افراد کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، اگر انہیں بھگایا جائے تو یہ پتھر مارتے ہیں، ان کے خوف سے اسکول کے کمرے بند رکھے جاتے ہیں، بچے بھی خوف کے مارے اسکول نہیں آتے۔ پولیس کی جانب سے بھی مدد نہ کرنے پر اساتذہ نے اپنے تبادلے کی درخواستیں دے رکھی ہیں۔ حاجی علی شاہ پرائمری مڈل اسکول کے دورے کے موقع پر اس وقت شدید مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوگئی۔

جب ایک کلاس میں موجود استاد بچوں کو کچھ پڑھا رہے تھے، لیکن کسی طالب علم نے اسلامیات، کسی نے اردو اور کسی نے اور کوئی دوسری کتاب کھول رکھی تھی، شاید انہوں نے پہلے کبھی کچھ پڑھایا ہی نہیں ہوگا، جو بچوں کو کم سے کم یہ تو معلوم ہوتا کہ وہ کس مضمون کے استاد ہیں اور انہوں نے جلدی میں اسکول میں ججوں کی اچانک آمد پر کتابیں کھولنے کا کہا ہو۔

اس ہی طرح موسیٰ گوٹھ میں واقع گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول زمین پر بیٹھے دو اساتذہ نے بتایا کہ وہ سالانہ امتحان لے رہے ہیں، فاضل جج اندر داخل ہوئے تو بچے خالی امتحانی گتا لیے بیٹھے تھے، بعض کے تن پر قمیص اور پیر میں جوتی تک نہ تھی، بعد میں پتا چلا کہ محلے کے بچوں کو جمع کر کے طالب علم ظاہر کیا گیا تھا۔

بن قاسم ٹاؤن کے سرکاری اسکول لوگوں کی رہایش کے کام آ رہے ہیں، کئی اسکولوں میں تالے پڑے ہیں اور کئی برسوں سے تدریس نہیں ہو رہی۔ گورنمنٹ بوائز سکینڈری اسکول عثمان گوٹھ پیری یکم اکتوبر 1989ء سے قائم ہے، اس اسکول میں بائیس برس میں فقط 330 بچوں کا داخلہ ہوا۔ فاضل جج نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ تدریسی عملہ مفت میں تن خواہ وصول کر رہا ہے۔

گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول پیر ولیج میں لوگ رہ رہے تھے۔ اسکول کھلوایا تو بلیک بورڈ پر 2008ء کی تاریخ درج تھی یعنی گذشتہ پانچ سال سے کوئی پڑھائی نہیں ہوئی، گورنمٹ پرائمری اسکول شاہ محمد گوٹھ کے باہر پانچ برس قبل کیے گئے افتتاح کی تختی نصب تھی، لیکن آج تک کوئی داخلہ نہیں ہو سکا۔

ملک کے سب سے بڑے شہر میں صرف کاغذوں پر اسکول کی موجودگی کا واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ملیر کے علاقے حاجی ولی محمد گوٹھ میں گورنمنٹ مسجد پرائمری باغ اسکول کی تلاش میں ججوں کی ٹیم وہاں پہنچی تو وہاں اس کا نام ونشان تک بھی موجود نہ تھا۔ گلشن حدید میں ایک سرکاری اسکول کو پکوان سینٹر بنا دیا گیا، ججوں کے دورے کے موقع پر بھی وہاں دیگیں پکائی جا رہی تھیں اور دیگیں پکانے والے نے خود کو اسکول کا ہیڈ ماسٹر بتایا۔

گورنمنٹ گرلز اسکول ابراہیم حیدری نمبر ایک میں خاتون چوکی دار کے رشتہ دار رہایش پذیر تھے، اس اسکول کو تین مارچ کو صوبائی وزیر مظفر شجرہ نے پرائمری اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دے کر نقاب کشائی فرمائی تھی، جب کہ قانونی طور پر مڈل اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دیا جاتا ہے، لیکن یہاں براہ راست پرائمری اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ دے دیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ ہائی اسکول کے لحاظ سے اساتذہ کی ترقیاں بھی کر دیں اور بھرتیاں بھی کر لی گئی ہیں۔

شہر قائد کے سرکاری اسکولوں کی شرم ناک صورت حال سامنے آنے کے بعد حکومت کی تعلیمی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے صوبے میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں اور کچھ دن قبل سندھ اسمبلی سے لازمی مفت تعلیم کا قانون بھی منظور کیا گیا، اس موقع پر بھی یہ باتیں سامنے آئیں کہ اگر صوبے بھر کے بچوں نے اسکولوں کا رخ کرلیا تو شاید سارے سرکاری اور نجی اسکولوں میں بھی جگہ کم پڑ جائے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے موجودہ صورت حال کو بہتر کیا جائے، کراچی جیسے شہر میں ہی صرف لیاری کے علاقے میں پچاس کے قریب سرکاری اسکول ویران پڑے ہیں، جہاں بے نظیر سے منسوب ایک جامعہ بھی بنادی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے اسکول مضبوط نہیں ہوں گے تو پھر اعلا تعلیم کا معیار کس طرح بلند ہوسکے گا۔

ہمارے دیہاتوں سے لے کر بڑے شہروں تک پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کی صورت حال پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، نتیجتاً تعلیمی صورت حال بہ دستور پستی کی طرف جا رہی ہے، بات صرف سرکاری اسکولوں تک ہی محدود نہیں، شہر قائد میں کالجوں کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس کے بعد اب اعلا تعلیم کا شعبہ بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے لیے مختص وسائل کو پہلے سے موجود اداروں میں صحیح طور پر کھپایا جائے، محکمے کے نااہل اور غفلت برتنے والے افسران اور اساتذہ کا احتساب کیا جائے، اس کے بعد نئے اداروں کے قیام کی طرف توجہ دی جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر نہ تو نئے ادارے کام یاب ہوں گے اور نہ ہی پرانے ادارے بہتر ہو سکیں گے، کیوں کہ بڑے سے بڑے قوانین بھی عملی اقدام کے بغیر کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں