بی بی شہید کچھ یادیں کچھ باتیں

فورم کا پہلا شمارہ جس کے ٹائٹل پر بی بی شہید کی خوبصورت تصویر تھی۔


سردار قریشی December 27, 2017

شہید محترمہ بینظیر بھٹو سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات 1992ء میں بلاول ہاؤس کراچی میں ہوئی تھی، انھوں نے سندھی اخبارات کے ایڈیٹروں کو تبادلہ خیالات کے لیے ملاقات کی دعوت دی تھی اور میں اس میں روزنامہ عوامی آواز، کراچی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے شریک ہوا تھا، اس موقع پر ان کی پیپلز پارٹی کے دوسرے لیڈروں کے علاوہ بیرسٹر کمال اظفر اور نواب یوسف تالپور بھی موجود تھے۔

وہ دراصل ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور خاص طور پر سندھ میں امن عامہ کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرنا اور اس پر ہم لوگوں کی رائے جاننا چاہتی تھیں، ہمارے لیے یہ ملاقات یوں بہت مفید رہی کہ اس بہانے ہمیں ایک بڑی خبر مل گئی جو دوسرے دن کے تمام اخبارات میں بطور لیڈ اسٹوری شایع ہوئی۔

محترمہ نے بھی ہماری آراء کو پوری توجہ سے سنا اور فرمایا کہ ان کی روشنی میں انھیں بطور قائد حزب اختلاف اپنی حکمت عملی طے کرنے میں بڑی مدد ملے گی۔ انھوں نے یہ جملہ محض رسماً نہیں کہا تھا، وہ اخبارات کے ایڈیٹروں کی رائے کو واقعی بہت اہمیت دیتی تھیں، جس کا مجھے ذاتی طور پر بھی علم تھا۔ 1991ء میں کراچی سے روزنامہ جاگو جاری ہوا، جس کے ڈیفیکٹو ایڈیٹر اور سی ای او سراج میمن تھے، جو ویسے بھی پیپلز پارٹی سے کمیٹڈ تھے اور 77ء کے مارشل لا سے قبل اس کے ترجمان اخبار ہلال پاکستان کے ایڈیٹر رہ چکے تھے۔

بظاہر ایف ایم لاشاری جاگو کے ایڈیٹر تھے اور میں بطور نیوز ایڈیٹر خبریں دیکھتا تھا، محترمہ کراچی میں تھیں اور اگلے دن انھیں ڈسٹرکٹ بار حیدرآباد سے خطاب کرنے جانا تھا، ملک کے معروضی حالات اور درپیش چیلینجز کے حوالے سے سراج صاحب نے بطور خاص ان کی توجہ مبذول کرانے کے کے لیے انگریزی میں مقالہ خصوصی لکھا تھا، جو جاگو کے صفحہ اول پر شایع ہوا، محترمہ نے بائی روڈ حیدرآباد جاتے ہوئے کار میں وہ مقالہ پڑھا اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ڈسٹرکٹ بار حیدرآباد سے اپنے خطاب کے دوران انھوں نے وہ پورا مقالہ بھی پڑھ کر سنایا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مدیرانِ جرائد کی آرا کو کتنی اہمیت دیتی تھیں۔

1994ء میں روزنامہ برسات، کراچی سے بطور ایڈیٹر علحیدگی اختیار کرنے کے بعد میں نے اپنا نیوز میگزین ماہنامہ فورم جاری کیا تو اس کے پہلے شمارے میں حالات حاضرہ کے حوالے سے بی بی شہید کا انٹرویو شامل کرنے کے لیے میں نے انھیں خط لکھ کر کراچی میں وقت مانگا، بی بی شہید اس وقت ملک کی وزیراعظم تھیں اور یہ ان کے اقتدار کا دوسرا دور تھا، سابقہ تجربات کی بنا پر مجھے یقین تھا کہ وہ انٹرویو کے لیے اپنی مصروفیات میں سے ضرور کچھ وقت نکالیں گی، اسی لیے میں نے پرنٹر کے مشورے سے بی بی شہید کی خوبصورت تصویر پر مشتمل ٹائٹل پہلے ہی چھپوالیا تاکہ انٹرویو کے لیے تاخیر سے وقت ملنے کی صورت میں بھی میگزین بروقت شایع ہوسکے۔

اسی ہفتے مجھے پرائم منسٹرز سیکریٹریٹ سے جوابی خط موصول ہوا جس میں وہ سوالات پیشگی بھجوانے کے لیے کہا گیا تھا جو دوران انٹرویو وزیراعظم سے کیے جانے تھے، خط میں لکھا تھا کہ سوالنامہ دیکھ کر ہی وہ انٹرویو دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں گی، مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی اور اسے ان کی سرکاری حیثیت کی مجبوری جان کر میں نے بلاتاخیر سوالنامہ بھجوادیا، جو ہم نے پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔

اصل ڈرامہ اس کے بعد تب شروع ہوا جب انٹرویو کے لیے وقت مقرر کرنے کے بجائے خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے میرے بارے میں تحقیقات شروع کردیں کہ میرا تعلق دائیں بازو سے ہے یا بائیں بازو سے، پیپلز پارٹی کا حامی ہوں یا مخالف اور اس کی داخلہ خارجہ پالیسیوں سے اتفاق کرتا ہوں یا اختلاف وغیرہ۔ میں جن درجن بھر اخبارات و جرائد کا ایڈیٹر رہا ہوں۔ ان میں کام کرنے والے میرے ساتھی اس بات کی گواہی دیں گے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط اپنے پورے صحافتی کیریئر میں نے ایک پروفیشنل جرنلسٹ کے طور پر اپنی شناخت بنائی اور میری کبھی کوئی سیاسی وابستگی نہیں رہی، میں نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ترجمان اخبارات میں کام ضرور کیا اور بطور ایڈیٹر ان کی پالیسیوں پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا لیکن محض ملازمت کا تقاضا اور عہدے کی ذمے داری جان کر، ان سے اتفاق کبھی نہیں کیا۔

سو اپنے خلاف آئی بی کی مبینہ تحقیقات کا جان کر میری جانب سے سخت ردعمل کا اظہار فطری تھا، میں نے پی آئی ڈی کراچی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل کی وساطت سے، جو ویسے میرے مہربانوں میں سے تھے، وزیراعظم صاحبہ کوخط لکھ کر سخت احتجاج کیا اور ان کا انٹرویو کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔

فورم کے پریس میں جانے سے پہلے مجھے گھر کے لینڈ لائن نمبر پر بلاول ہاؤس کراچی کے کیئرٹیکر منور سہروردی کا چھوڑا ہوا یہ پیغام ملا کہ میں بی بی شہید کے انٹرویو کے لیے ان سے بلاتاخیر رابطہ کروں، میرا جواب نہ پاکر وہ دوسرے دن خود آر کے اسکوائر، نیو چالی میں واقع فورم کے دفتر تشریف لائے اور سارا ملبہ بیوروکریسی پر ڈالتے ہوئے مجھے بی بی شہید کا انٹرویو کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے یہ کہہ کرمعذرت کرلی کہ اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔ بات ختم ہوگئی۔ فورم کا پہلا شمارہ جس کے ٹائٹل پر بی بی شہید کی خوبصورت تصویر تھی، مارکیٹ میں آچکا تھا مگر اس میں ان کا انٹرویو تو کیا کوئی اور چیز بھی شامل نہیں تھی۔

اس واقعہ کو بمشکل دو ہفتے گزرے تھے کہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد، جس کی مہمان خصوصی بی بی شہید خود تھیں، دوران ریفریشمنٹ انھوں نے کمال اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کے سامنے مجھے سوری کہا اور اپنی پلیٹ میں سے ایک بسکٹ اٹھاکر میری پلیٹ میں رکھتے ہوئے فرمایا چلیں اب غصہ تھوک دیں، آپ اپنی سہولت کے مطابق جب چاہیں بلاول ہاؤس آسکتے ہیں، مجھے آپ کے پرچے کے لیے انٹرویو دے کر خوشی ہوگی۔ آپ اسے میری بدنصیبی کہہ لیں یا کچھ اور، لاکھ چاہنے کے باوجود میں ان کا انٹرویو کرنے کے لیے خود کو آمادہ نہ کرسکا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ بی بی شہید کا انٹرویو کسی نئے پرچے کے لیے ریڈرشپ بنانے اور سرکاری اشتہارات حاصل کرنے کے لیے کتنا مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔

بی بی شہید ہی کے حوالے سے آخر میں ایک اور بات کا ذکر کروں گا جو قارئین کے لیے یقیناً دلچسپی کا باعث ہوگی، میں فورم ہی کی مارکیٹنگ کے سلسلے میں لاڑکانہ گیا ہوا تھا، جہاں میرا قیام پاکستان چوک پر اپنے دوست خادم حسین ابڑو ایڈووکیٹ کے ہاں تھا، نامور سندھی دانشور اور کمیونسٹ لیڈر کامریڈ سوبھو گیان چندانی کو اپنے شہر میں میری موجودگی کا پتہ چلا تو کمال شفقت اور مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملنے تشریف لائے، رات کو دیر تک گپ شپ رہی، جس کے دوران انھوں نے دریافت کیا کہ کیا وہ اسے بھی سندھی صحافت میں نیا رجحان سمجھیں کہ ٹائٹل پر جس کی تصویر ہو اس کے بارے میں چار سطری مواد بھی شامل اشاعت نہ کیا جائے۔

میں نے انھیں سارا قصہ کہہ سنایا، جسے سن کر انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی پنکی (بی بی شہید) کی صلاحیتوں کا ادراک بہت دیر سے ہوا، ورنہ وہ کب کے اس کے حق میں سیاست سے دستبردار ہوکر اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کامریڈ نے مزید کہا: بھٹو محض اپنے غیر لچکدار رویہ کے باعث المناک انجام سے دوچار ہوئے، ان کے برعکس پنکی کے پاس بہت زیادہ لچک ہے اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے وہ کھیل ہی لچک کا ہے، جس سیاستدان کے پاس جتنی زیادہ لچک ہوگی وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب ہوگا۔

وقت نے ثابت کیا کہ بی بی شہید کے بارے میں کامریڈ سوبھو گیان چندانی نے بالکل درست اندازہ لگایا تھا، یہ ان کی سیاسی لچک ہی کا اعجاز تو تھا کہ جس غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزام کے تحت ان کی حکومت برطرف کی تھی وہی بعد میں آصف زرداری سے وزارت کا حلف لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں