ہمارا کردار لطائف کے آئینے میں

ایسے دوست اور احباب کے لیے جو صرف لطائف پڑھنا چاہتے ہیں یہ تحریر ان کی نذر ہے


جبار قریشی December 04, 2017
[email protected]

میری بیٹی جب بہت چھوٹی تھی، اس وقت وہ کریم والے بسکٹ بڑے شوق سے کھاتی تھی، لیکن اس کی ایک عادت تھی وہ بسکٹ سے کریم علیحدہ کرکے کھا لیتی تھی، باقی بسکٹ چھوڑ دیتی تھی، اسے ایسا کرنے سے منع کرتے لیکن وہ مانتی نہیں تھی۔

ایسی ہی صورتحال مجھے کالم نگاری کے ابتدائی ایام میں پیش آئی جب میں نے کالم نگاری کی ابتدا کی تھی، اس وقت میں اپنے کالم کا آغاز کسی لطیفے یا مزاحیہ پیراگراف سے کرتا تھا تاکہ پڑھنے والے عام قاری اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھیں۔ کالم کی اشاعت کے بعد جب میں اپنے حلقہ احباب سے کالم کے بارے میں رائے لیتا تو بعض دوست احباب کا جواب ہوتا تھا کہ جی ہاں آپ کی تحریر پڑھی لطیفہ بہت اچھا تھا۔ جب میں باقی تحریر کے حوالے سے سوال کرتا تو جواب ملتا کہ باقی تحریر تو ہم نے پڑھی ہی نہیں۔ بقول ایک دوست کہ ہم زردے کے چاول سے بادام اور کشمکش چن کر کھاتے ہیں اور باقی چاول چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے دوست اور احباب کے لیے جو صرف لطائف پڑھنا چاہتے ہیں یہ تحریر ان کی نذر ہے۔ مجھے ان لطائف اور پیراگراف میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقات کا عکس دکھائی دیتا ہے جس کی میں نے لطیفہ کے بعد بریکٹ میں نشاندہی کردی ہے۔

کہتے ہیں مسیحیوں کے زوال کے زمانے میں دو پادری اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ بائبل کی روشنی میں گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ ایک گنتی کچھ بتا رہا تھا اور دوسرا گنتی کچھ اور۔ قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے ان سے کہا اس معاملے میں بائبل کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت؟ گھوڑے کا منہ کھول کر اس کے دانت کیوں نہیں گنتی کرلیتے۔

(یہ لطیفہ ان دانشورں کے نام ہے جو اس بات پر بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے سیکولر یا اسلامی؟ حالانکہ یہ سوال انھیں پاکستان میں بسنے والے جیتے جاگتے 21 کروڑ عوام سے کرنا چاہیے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں)۔

ایک خرکار گدھوں پر بوجھ لاد کر کہیں جارہا تھا، اسے دور سے ڈاکو آتے دکھائی دیے۔ وہ پکارا بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔۔ ڈاکو آرہے ہیں۔ گدھوں نے کہا کہ ہم کیوں بھاگیں؟ تو بھاگ۔۔۔! ہمیں تو بوجھ اٹھانا ہے وہ تیرا ہو یا کسی اور کا۔ (ابن انشا کی تحریر سے ماخوذ یہ پیراگراف میرے نزدیک ان سیاست دانوں کے لیے ہے جو اپنے مفادات کے لیے عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں جب کہ عوام ہیں کہ ان کی اپیل پر اپنے کان دھرتے ہی نہیں ہیں)۔

ایک گاؤں میں سیلاب آگیا، ایک حکومتی افسر گاؤں پہنچا اور لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ پانی کا بہاؤ بہت بڑھ گیا ہے، پانی خطرے کے نشان سے 2 فٹ اونچا ہوگیا ہے۔ لوگوں نے خوفزدہ ہوکر کہا کہ اب کیا ہوگا؟ افسر نے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے انتظام کرلیا ہے۔ خطرے کے نشان کو دو فٹ سے بڑھا کر چار فٹ کردیا ہے۔ (یہ لطیفہ ان معاشی پالیسیاں بنانے والے ماہرین کے نام ہے جو مہنگائی کے اسباب ختم کرنے کے بجائے تنخواہ میں اضافے کی بات کرتے ہیں جب کہ دنیا کے معاشی ماہرین کے مطابق تنخواہ میں اضافہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔)

پولینڈ میں ایک بچے نے اپنی کلاس ٹیچر کو بتایا کہ ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں، وہ سب کے سب کمیونسٹ ہیں۔ ٹیچر نے خوب شاباش دی۔ ہفتہ بھر بعد جب اسکول انسپکٹر معائنے کے لیے آئے تو ٹیچر نے بچے سے کہا کہ بلی والی بات پھر سے کہیے، بچے نے کہا ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں وہ سب کے سب جمہوریت پسند ہیں۔ ٹیچر نے بوکھلا کر کہا ہفتہ بھر پہلے تو تم نے اس طرح بات نہیں کی تھی، بچہ بولا جی ہاں مگر اب بلی کے بچوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ (سیاسی جماعتوں کے ان عہدیداروں کے نام جو پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں سابقہ پارٹی میں اس طرح کیڑے نکالتے ہیں جیسے پارٹی بدلتے ہی ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔)

لندن کی ایک بیکری کے کباب عموماً ملکہ کے لیے قصر بکنگھم میں جاتے تھے۔ دوستوں کے مشورے پر بیکری والے نے دکان پر ایک بڑے سائز کا بورڈ نصب کرایا جس پر تحریر تھا کہ ہمارے یہاں کے کباب ملکہ معظمہ بڑے شوق سے تناول فرماتی ہیں۔ قریب کے دوسرے بیکری والے کو اس کی یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی۔ اس نے فوراً دکان پر ایک بورڈ لگوایا جس پر تحریر تھا اے اللہ! ہماری ملکہ کی صحت کی حفاظت فرما۔ (اپوزیشن کی سیاست کا کردار ادا کرنے والے سیاستدانوں کے نام۔)

کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کرنسی نوٹ جب پہلی بار تصویر کے ساتھ جاری کیے گئے تو اس وقت کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی، اس ضمن میں ایک وفد اس دور کے ایک بڑے عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ کرنسی نوٹ پر تصویر کا ہونا صحیح ہے یا غلط؟ محترم عالم دین نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ میرے بھائیو! میرے فتویٰ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا فتویٰ نہیں چلے گا کرنسی نوٹ چل جائے گا۔ (دور حاضر کے تقاضوں سے لاعلم اور بے خبر علما کرام کے نام۔)

ایک شہری خاتون گاؤں میں عورتوں کو حساب سکھا رہی تھیں۔ اس نے ایک عورت سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس پچاس روپے ہوں اس میں سے تم بیس روپے اپنے شوہر کو دے دو تو بتاؤ تمہارے پاس کتنے روپے بچیں گے؟ عورت نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ خاتون نے دیہاتی عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔ احمق عورت! تم حساب بالکل نہیں جانتی ہو۔ دیہاتی عورت نے جواب دیا۔ آپ بھی میرے شوہر ''شیرو'' کو نہیں جانتی ہو۔ وہ سارے روپے مجھ سے چھین لے گا۔

(یہ لطیفہ ان ماہرین کے نام جو پالیسیاں بناتے وقت زمینی حقائق سے لاعلم ہوتے ہیں۔)

ایک مولوی صاحب کسی گاؤں پہنچے۔ انھیں تبلیغ کا شوق تھا۔ جمعہ کا خطبہ پورے ایک ہفتے میں تیار کیا لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ جمعہ کے دن صرف ایک نمازی مسجد میں آیا۔ مولوی صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ تم واحد آدمی ہو جو مسجد آئے ہو۔ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ وہ شخص بولا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں۔ مجھے اتنا پتا ہے کہ میں اگر بھینسوں کے لیے چارہ لے کر پہنچوں گا اور وہاں صرف ایک بھینس ہو تو میں اسے چارہ ضرور دوں گا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے بھی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ اس کے بعد انھوں نے دیہاتی سے پوچھا کہ بتاؤ خطبہ کیسا تھا؟ دیہاتی نے لمبی جمائی لی اور کہا۔ مولوی صاحب! میں ایک دیہاتی آدمی ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر میرے سامنے ایک بھینس ہوگی تو میں ساری بھینسوں کا چارہ اس کے آگے نہیں ڈالوں گا۔

(نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں کے نام۔)

قدیم نوادرات جمع کرنے کی شوقین ایک خاتون نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی دکان کے کاؤنٹر پر بلی کو جس پیالے میں دودھ پلا رہا ہے اس چینی کے قدیم پیالے کی قیمت تیس ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ خاتون نے سوچا کہ شاید یہ شخص اس پیالے کی قیمت سے ناواقف ہے۔ اس خاتون نے اپنے طور پر بے حد چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جناب! کیا آپ یہ بلی فروخت کرنا پسند کریں گے؟ تو اس شخص نے کہا۔ یہ میری پالتو بلی ہے، پھر بھی آپ کو یہ اتنی ہی پسند ہے تو پچاس ڈالر میں خرید لیجیے۔

خاتون نے فوراً پچاس ڈالر نکال کر اس شخص کو دیے اور بلی خرید لی، لیکن جاتے جاتے اس دکان دار سے کہا ۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ پیالہ آپ کے کسی کام کا نہیں رہا۔ برائے کرم اسے بھی مجھے دے دیجیے۔ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گی۔ دکان دار نے کہا۔ خاتون! میں آپ کو یہ پیالہ نہیں دے سکتا، کیونکہ اس پیالے کو دکھا کر اب تک 300 بلیاں فروخت کرچکا ہوں۔ (پاکستان میں بسنے والے ان باشعور عوام کے نام جنھیں طرح طرح سے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔)

اس تحریر کے بریکٹ میں جن کرداروں کی نشاندہی کی گئی ہے پڑھنے والے اس میں کوئی رد و بدل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس کے جملہ حقوق محفوظ نہیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں