آؤٹ یا ناٹ آؤٹ
سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین ایک قابل شخص ہیں۔ ان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ کھیل کے قائدے طے ہیں اور وکٹ بھی صاف ہے۔
کرکٹ کا کھیل تقریباً ہر پاکستانی نے اپنے بچپن میں کھیلا ہوگا۔ شہر ہو یا گاؤں یہ کھیل ہر جگہ مقبول ہے۔ یہ میدانوں میں بھی کھیلا جاتا ہے اورگلیوں، سڑکوں اور پارکوں میں بھی۔ اس کھیل میں سب سے بڑا مسئلہ آؤٹ اور ناٹ آؤٹ کا ہوتا ہے، پاکستانی سیاست کی طرح۔ اگر وکٹ دیوار پر بنائی گئی ہو اور چاک، پتھر کوئلے سے نشان لگایا گیا ہو تو جھگڑا ہوتا ہے، نشان کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ گیند لگ جائے تو بیٹسمین آؤٹ قرار پاتا ہے۔ ایسی وکٹ ہو تو کھلاڑی جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ بلے باز کہتا ہے کہ گیند اوپر یا دائیں بائیں لگی ہے اور وہ آؤٹ نہیں۔ بالر ضد کرتا ہے کہ بیٹسمین آؤٹ ہے، یوں کھیل میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے۔
اگر لوہے یا لکڑی کی وکٹ میدان کے بیچ میں ہو تو آؤٹ اور ناٹ آؤٹ کا جھگڑا نہیں ہوتا۔ بالر خوبصورت گیند پر بلے باز کو کلین بولڈ کردے تو اسے کریز چھوڑنی ہی پڑتی ہے۔ یوں کھیلوں کی سیاست یا سیاست کے کھیل میں دو مناظر ہمارے سامنے آئے۔ واضح وکٹ کہ کھلاڑی آؤٹ یا ناٹ آؤٹ ہے اور دوسرا شک وشبہے والی کیفیت۔ یہ کالم کسی سیاست دان یا پارٹی کے بارے میں نہیں۔ آج ہم دیکھیں گے کہ پاکستانی سیاست نے آؤٹ اور ناٹ آؤٹ والا مسئلے طے کرلیا ہے، یا ہم جھگڑ رہے ہیں؟ کرسی کو بھی اکثر نوجوان وکٹ بنالیتے ہیں۔ بالر کی فاسٹ یا اسپین گیند کرسی کو چھو جائے تو بلے باز آؤٹ ہوجاتا ہے۔ کرکٹ ہو یا سیاست اصلی یا وکٹ بنائی گئی کرسی گرنے پر کھلاڑی کریز سے باہر جاتا نظرآتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں آنیاں جانیاں اور آؤٹ و ناٹ آؤٹ کا کھیل بڑا دلچسپ رہا ہے۔
پاکستان قائم ہوا تو ہم مسلمان تھے اور پاکستانی۔ پھر ہمارے درمیان تقسیم در تقسیم ہوتی گئی جو آج خطرناک روپ اختیار کرچکی ہے۔ مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان پہلا مسئلہ ٹیم کے سلیکشن کا تھا۔ کھلاڑیوں کی تعداد کے مسئلے کو 56 اور 44 کے بجائے ففٹی ففٹی کرکے طے کیا گیا۔ ایوب کے مارشل لاء نے بنگالیوں کی اس قربانی کو بے کار کردیا۔ نہ کہیں وکٹ تھی اور نہ کوئی بیٹسمین کو آؤٹ کرسکتا۔ ایوب نے 62 میں آئینی وکٹ بنائی، لیکن وہ آؤٹ ہونے کو تیار نہ تھے، کبھی گیند کے اوپر لگنے کا بہانہ کرتے اور کبھی دائیں بائیں لگنے کا۔
طویل اننگز کھیلنے اور آؤٹ نہ دینے پر فیلڈرز نے احتجاجی اپیلیں کیں، مجبور ہوکر ایوب کریز چھوڑ کر پویلین واپس چلے گئے۔ انھوں نے اگلی باری کھیلنے کے لیے بیٹ یحییٰ کو پکڑا دیا۔ فیلڈرز کو پہلے محسوس ہوا کہ انھوں نے وکٹ حاصل کی ہے، لیکن یہ صرف نظر کا دھوکا تھا۔ اگلی باری مجیب کی ہونی چاہیے تھی، لیکن یحییٰ کے آؤٹ نہ ہونے کی ضد اور بھٹو کی بیٹنگ کرنے کے دعوے سے ہنگامہ مچ گیا۔ مجیب کی ٹیم کو بیٹنگ نہ دینے کی بے ایمانی سے بین الاقوامی کھلاڑیوں نے میدان کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اب دو گراؤنڈز، دو پچیں اور دو ٹیمیں ہوگئی تھیں۔ طاقتور کھلاڑیوں نے یحییٰ کو آؤٹ قرار دلوا کر بھٹو کو بیٹنگ کے لیے بھیجا۔
بھٹو کی ذہانت کی شہرت دور دور تک تھی۔ آدھی ٹیم کے چلے جانے پر 73 میں باقی کھلاڑیوں نے کھیل کے ضابطے بنائے۔ بھٹو کی ٹیم نے اپنی باری مکمل کی۔ دوسری ٹیم کو باری نہ دینے پر جھگڑا شروع ہوگیا۔ فیلڈنگ کرنیوالی ٹیم کا شکوہ تھا کہ اسے اچھی طرح کھیلنے نہیں دیا گیا۔ میدان میں ہنگامہ آرائی مچ گئی، ایک بار پھر بیٹنگ کرنیوالی بھٹو الیون کے لیے دھاندلی کے الزام میں بیٹنگ کرنا ممکن نہ تھا۔ بلے بازوں اور فیلڈرز نے کھیل کا ماحول خراب کردیا۔ اس طرح 77 میں میدان پھر یونیفارم والے کھلاڑی ضیاء کے ہاتھ آگیا۔ انھوں نے میدان کے بیچ میں وکٹ لگانے کے بجائے دیوار کو وکٹ قرار دیا۔ یوں پتہ ہی نہ چلتا کہ بلے باز آؤٹ ہے یا نہیں۔ اس طرح ان کی اننگ بہت طویل ہوگئی۔ یونیفارم والا تیسرا کھلاڑی اچھے اچھے بالرز کی گیند پر آؤٹ ہونے کے باوجود کریز چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ آؤٹ اور ناٹ آؤٹ کا مسئلہ طول اختیار کرگیا۔ ایسے میں اچانک بیٹسمین پر دل کا دورہ پڑا اور وہ میدان چھوڑ گیا۔ اب میدان دو کھلاڑیوں کے ہاتھ آگیا۔ ایک کی سربراہ بینظیر تھیں تو دوسری ٹیم کے کپتان شریف تھے۔
مرد اور خاتون کھلاڑیوں کی ٹیمیں باری باری کھیلتی رہیں۔ ابھی ایک ٹیم کی اننگز کا خاتمہ نہ ہوتا کہ دوسری ٹیم دھڑادھڑ اپیلیں کرنا شروع کردیتی۔ اس طرح امپائر کی غلط انگلی اٹھنے پر کھلاڑیوں کو پویلین جانا پڑتا۔ دونوں نے دو دو مرتبہ ادھوری باریاں لیں۔ کھلاڑی اچھے تھے، وکٹ صاف تھی، آؤٹ یا ناٹ آؤٹ کا مسئلہ آسانی سے طے ہوسکتا تھا۔ اس سہولت کے باوجود دونوں ٹیموں کو باریاں لینے کی جلدی تھی۔ یوں کسی کو سینچری بنانے کا موقع نہ ملا۔ ایک مرحلے پر شریف بیٹسمین نے اپنی دوسری باری پر کریز سے باہر نکل کر کھیلنا چاہا، یوں وہ وکٹ کیپر مشرف کے ہاتھوں اسٹمپ آؤٹ ہوگئے۔
کپتان بن جانے پر مشرف نے منیجر، کوچ اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کی مدد سے شریف کو میدان سے باہر نکلوادیا اور دس سال تک کھیلنے کی پابندی عائد کردی۔ ایوب، یحییٰ اور ضیاء کے بعد یونیفارم میں اب چوتھا کھلاڑی تھا جو بیٹنگ کر رہا تھا۔ بے نظیر اور مشرف کی ٹیمیں میدان میں تھیں، لیکن کپتان باہر تھے۔ اس کا سبب یہی تھا کہ آؤٹ اور ناٹ آؤٹ کے قوانین تو واضح تھے ، لیکن کوئی اس پر چلنے کو تیار نہ تھا۔ ایک طویل اپیل کے بعد کالے کوٹ والے بالروں نے دوسروں کی مدد سے مشرف جیسے کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ 2008 میں پھر ٹیم کا انتخاب ہوا اور آصف ایک بڑی ٹیم لے کر کپتان بننے کے حقدار ٹھہرے۔ انھوں نے میدان میں آکر کھیلنے کی بجائے منیجر کا کردار منظور کیا۔ ان کی ٹیم اپنے کپتانوں یوسف اور اشرف کی مدد سے پوری باری کھیلنے میں کامیاب رہی۔
آصف نے شریف، الطاف، فضل اور شجاعت کو بھی کھیلنے کا بھرپور موقع دیا، یوں ان کی عمدہ منیجری کی بدولت ان کے کپتانوں کو کسی نے بہت زیادہ تنگ نہ کیا۔ اب پھر نئی ٹیم کو باری دینے کا موقع آگیا ہے۔ میدان میں بڑی مشکلات ہیں۔ کھلاڑی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ ایک طرف پٹھان، پنجابی، سندھی، مہاجر، سرائیکی اور بلوچ کی تقسیم ہے تو دوسری طرف کچھ کھلاڑی مختلف مذہبی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ الگ الگ بولیاں اور الگ الگ لباس ہیں۔ کسی کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی اپنے جاننے والوں کو ٹیم میں کھلانا چاہتا ہے، کوئی بھی اچھی گیند پر آؤٹ ہوکر پویلین جانے کو تیار نہیں۔ جب ایک کھلاڑی آؤٹ ہونے کے بعد بڑی مشکل سے کریز چھوڑتا ہے تو دوسرا بھی یہی کرتا ہے۔
اب سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین ایک ایماندار اور قابل شخص ہیں۔ ان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ کھیل کے قائدے طے ہیں اور وکٹ بھی صاف ہے۔ آؤٹ یا ناٹ آؤٹ کا تعین آسانی سے ہوسکتا ہے۔ امپائر کے تقرر کے لیے سب کی رضامندی لی جارہی ہے۔ یوں اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ بیٹنگ کرے اور دوسرے کو باری نہ دے۔ فیلڈنگ کے لیے کوئی تیار نہیں۔ آنے والے دنوں میں سلیکشن کمیٹی کو میرٹ پر ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔ انھیں ایکشن ری پلے اور تھرڈ امپائر کی سہولت حاصل ہے۔ صرف ایک بات دیکھنی ہے کہ کھلاڑیوں کا چناؤ میرٹ پر ہوتا ہے یا نہیں؟ کوئی دھاندلی تو نہیں ہوتی؟ آؤٹ ہونے والا کھلاڑی انگلی اٹھتے ہی پویلین کی جانب چل پڑتا ہے یا نہیں؟ ٹیم کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے، اگر ایک جھگڑا نہ ہو۔ جھگڑا آؤٹ یا ناٹ آؤٹ کا۔