16 نومبر کو دنیا بھر میں برداشت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر نفسیات اور سماجی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر ریاض بھٹی
(ماہر نفسیات)
دنیا بھر میں گزشتہ دہائیوں میں رونما ہونے والے واقعات سے عالمی سطح پر عدم برداشت میں اضافہ ہوا۔ وطن عزیز میں گزشتہ تین دہائیوں پر محیط حالات و واقعات، سیاسی اتار چڑھاؤ، دہشت گردی اورمعاشی بدحالی سمیت دیگر چیلنجز سے عوام پر دباؤ بڑھا، لوگوں کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوا۔ ماضی میں یہاں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر نے فروغ پایا، اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عدم برداشت کا مسئلہ 2020ء میں بڑھا جب بانی تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کیا گیا۔
اس کے بعد نہ تو بروقت انتخابات ہوئے اور نہ ہی عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا گیا۔ اس سب سے ملک میں پولرائزیشن بڑھ گئی، آج بھی عدم استحکام ہے، معاشرے میں سکون نہیں آسکا۔مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کے بھاری بلوں نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے، ایسے میں انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں۔ ہماری ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ عوامی رائے ہوا کی طرح ہے جسے قید نہیں کیا جاسکتا، یہ دریا کی لہریں ہیں جنہیں روکا نہیں جا سکتا، اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو طوفان اور سیلاب آتے ہیں۔
ہمارے ہاں عدم برداشت کا تیزی سے بڑھتا ہوارجحان بھی اسی وجہ سے ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ بری طرح تقسیم ہو چکا ہے، لوگ مخالف رائے رکھنے والے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ سیاسی کارکنان ایک دوسرے کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ لوگوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ جب معاشرے میں ایسی کیفیت پیدا ہو تو منشیات کی طرف رجحان بڑھتا ہے، معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔
آج لوگوں میں چڑچڑاپن ہے، لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک دوسرے کو بلاوجہ قتل کر رہے ہیں، یہ حالات کسی بھی طور اچھے نہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ عوامی جذبات کا احترام کیا جائے، فوری شفاف انتخابات کروائے جائیں یا پھر قومی حکومت بنائی جائے جو بعد میں شفاف انتخابات کروائے اور عوام کی تسلی ہو۔ جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو عدم برداشت جیسے مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار)
اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کا ہے۔ یہ معاملہ صرف مذہبی یا سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس میں سیاسی، سماجی ، ریاستی ، حکومتی، عملی ، تعلیمی اور فکری نظام بھی شامل ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں پرتشدد رجحانات نے جگہ بنا لی ہے اور جو بھی طاقت رکھتا ہے وہ عدم برداشت کا قائل ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا سچ ہی مکمل سچ ہے، ہم دوسروں کے سچ کو نہ تو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی سچ پیش کرنے والے کی عزت ۔ ہم اپنے کہے کو حرف آخر سمجھتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ معاشرے میں تنقید کے بجائے دشمنی کا پہلو غالب آگیا ہے۔ ہم تنقید اور تضحیک میں بنیادی فرق محسوس نہیں کر رہے جس سے منفی ردعمل ہورہا ہے۔ اب تنقید کے دائرے میں ذاتیات کی سیاست بھی شامل ہو گئی ہے۔ ہم نے سیاسی، سماجی، مذہبی اور آئینی معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے، ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔
ایک ایسا کلچر متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں سیاست اور جمہوریت اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ دنیا کے مہذب معاشروں میں سوک ایجوکیشن کی بات کی جا تی ہے تاکہ روداری پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جاسکے، ہمیں اس کو فروغ دینا ہوگا۔ بدقسمتی سے ٹاک شوز ، سیاسی، عملی و فکری مباحثے ہوں یا کوئی دانشورانہ گفتگو،حکومت، اپوزیشن، سول سوسائٹی، سیاسی قیادت، غرض کے ہر شعبے کے افراد اسے میدان جنگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
ہر شخص دوسرے پر برتری چاہتا ہے ۔ دوسرے کو شکست دینے کا رجحان ہمارے ریاستی، حکومتی ، سیاسی اور سماجی نظام پر غالب آچکا ہے۔ اس حوالے سے جون ایلیاء کایہ شعر سب سے بڑا سبق ہے کہ ’آؤ اختلافات پر اتفاق کر لیں‘۔ یعنی آپ کا اور میرا کسی بھی معاملے پر اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہمیں اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ ہم آپس میں کسی بھی وقت مل بیٹھ سکتے ہیں، بات چیت کر سکتے ہیں۔ جب تک سماج میں رواداری، ہم آہنگی اور قبولیت پیدا نہیں کریں گے، عزت و احترام نہیں کریں گے، تب تک معاشرے میں اچھائی کے پہلو کو بالادست نہیں کرسکتے۔
ہمارے شاعر، ادیب، دانشور، صحافی، سیاستدان، علماء کرام، وکلاء، سب کو بنیادی طور پر ایک بات سمجھنا ہوگی کہ جس طریقے سے ہم اپنے نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے نہ صرف ہمارا داخلی بلکہ عالمی مقدمہ بھی خراب ہو رہا ہے اور پاکستان کی پہچان ایک پرتشدد معاشرے کے طور پر ہو رہی ہے۔ یہ معاملہ محض سیاسی اور سماجی سطح پر نہیں بلکہ خود ریاستی اور حکومتی نظام میںہے۔ سیاسی معاملات میں سیاسی حکمت عملی کے بجائے طاقت کے استعمال سے معاملات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں غصہ ہے، لا تعلقی ہے، ردعمل ہے، منفی سو چ اور منفی رجحان ہے، ریاستی نظام ان کے مسائل حل نہیں کر رہا جس کی وجہ سے ان میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر اظہار رائے میں طوفان بدتمیزی پایا جاتا ہے، ایک دوسرے کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو قومی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا، ان سے ڈائیلاگ کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان میں رواداری پر مبنی معاشرہ تشکیل دینا ہے تو ہمیں تعلیمی نصاب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانا ہوگی۔ جو لوگ عدم برداشت کے قائل ہیں اور تشدد کو اپنا ہتھیار سمجھتے ہیں، ان کے خلاف ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی۔
اس سلسلے میں ہمیں اجتماعی ہوم ورک کی ضرورت ہے۔ ایسا روڈ میپ اور بیانیہ بنانا ہوگا کہ پاکستان کو دنیا میں مہذب ملک سمجھا جاسکے۔جب دنیا عدم برداشت کے واقعات دیکھتی ہے، خواتین، اقلیت، خواجہ سرا، مزدور، کسان اور نوجوان سمیت دیگر محروم طبقات کا استحصال دیکھتی ہے، عدم برداشت کی صورت میں تشدد اور قتل کے افسوسناک واقعات دیکھتی ہے تو ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ مذہبی جماعتوںکو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ہم فرقوں میں بٹیں گے اور مذہب کو بنیاد بنا کر معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے انتہا پسندی، عدم برداشت اور پرتشدد رویوں کو فروغ ملے گا۔
اس وقت پاکستان میں بڑی سیاسی تقسیم پیدا ہوگئی ہے۔ لوگ اپنے لیڈرز پر تنقید برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ ہم نے اپنے خیالات، سوچ اور شخصیات کو ایک ہیرو کے طور پر نہیں ایک دیوتا کے طور پر بنا لیا ہے جس کے باعث تنقید کرنے والوں کے خلاف سخت ردعمل آتا ہے۔ ہماری مذہبی، سیاسی، سماجی، علمی تعلیمات میں رواداری کو فروغ دینا ہوگا، برداشت کا کلچر پیدا کرنا ہوگا، ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کی ترجیحات کو بنیاد بنانا ہوگا۔ اگر اختلاف ہو تو اسے طریقے سے دور کیا جائے نہ کہ سیاسی دشمنی میں بدل دیا جائے۔
عدم برداشت ہمارے معاشرے میں سرائیت کر گئی ہے۔ ہمیں من حیث القوم اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ اس میں خاص طور پر ہماری سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے روداری، تحمل، برداشت، عزت و احترام اور ڈائیلاگ کو فروغ دیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت، وزراء، اراکین اسمبلی، سب عدم برداشت کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں لہٰذا جب حکومت ذمہ داری ، تدبر، فراست، تحمل، عاجزی اور بردباری کا مظاہرہ نہیں کر رہی تو باقی افراد سے کیا گلہ۔ ہماری تعلیم یافتہ کلاس بھی جس طرح کی زبان استعمال کر رہی ہے، جیسے ٹوئٹس آرہے ہیں، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنی حدود و قیود متعین نہیں کر پا رہے، ہم ریڈ لائن کراس کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا پر ریٹنگ اور ڈالر کی گیم ہے، یہاں پراپیگنڈہ، الزام تراشی غالب آگئی ہے۔ ہمیں اپنے ریاستی، حکومتی اور سیاسی بیانیہ تبدیل کرنا ہوگا، ادارہ جاتی سطح پر بڑی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ہمیں تعلیمی اداروں کی مددسے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ہم بطور مہذب معاشرہ دنیا میں اپنی قبولیت کروا سکیں۔
آئمہ محمود
(نمائندہ سول سوسائٹی)
1995ء میں یونیسکو نے پہلی مرتبہ 16 نومبر کو برداشت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس دن سے آج تک ہم نے برداشت کے بجائے عدم برداشت کو فروغ دیا ہے۔دنیا میں اس وقت کئی ممالک میں سنگین مسائل ہیں۔
فلسطین میں اسرائیلی بربریت ہے، ہزاروں بچے، جوان، بوڑھے شہید کر دیے گئے، یوکرین جنگ کا معاملہ ہے، پاکستان میں دہشت گردی کا چیلنج ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں معاشی ناانصافی اور ناہمواریاں ہیں۔ ترقی پزیر ممالک کے ساتھ ساتھ اب ترقی یافتہ ممالک کے عوام بھی مہنگائی اور بے روز گاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں لوگوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے، وہ بچوں کو کام پر بھیج رہے ہیں۔
ہمارے ہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے سیاسی منظر نامے پر عدم برداشت نظر آرہی ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں سیاست نے جتنا عدم برداشت کو فروغ دیا، کسی اور نے نہیں دیا۔ اس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔ آج ہم آزادی اظہار کا نام لے کر بدزبانی اور کردار کشی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہماری سیاست کا مرکز عوا م نہیں، چند شخصیات ہیں۔
آج جو جماعت اپوزیشن میں ہے وہ بھی ایک سیاسی شخصیت کے گرد گھوم رہی ہے،ا سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام کس ظلم اور جبر کا شکار ہیں، معاشی ناانصافی کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ آج کے حکمران بھی جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی سیاست بھی شخصیات کے گرد ہی گھومتی تھی۔ اب سیاست میں اصول اور دلائل کے ساتھ بات کرنے کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے، جو جتنی غلیظ گالی دے سکتا ہے اور بلند آواز میں بدتمیزی کر سکتا ہے اسے لیڈر سمجھا جاتا ہے۔
یہ باعث افسوس ہے کہ ہزاروں افراد کے جلسے سے چند نام نہاد لیڈرز نے خواتین کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کی، اس کی مذمت کے بجائے انہیں سپورٹ کیا گیا۔ ہم اپنی تہذیب اور عزت و احترام کو ختم کرتے جا رہے ہیں۔ اس میں بڑا کردار جہاں سیاسی جماعتیں ادا کر رہی ہیں وہاں سوشل میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سوشل میڈیا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ معلومات ہر شخص کا حق ہیں اور اس تک پہنچنی چاہئیں لیکن وہاں فیک نیوز سب سے زیادہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر غلط بیانی اور غلط رویوں کو فروغ دے کر لوگوں میں عدم برداشت کو بڑھایا گیا ہے۔
آج ہم سوشل میڈیا پر جو جی میں آئے کہتے ہیں اور یہ خواتین، بچوں، بڑوں،سب کے بارے میں ہوتا ہے اور ایسی زبان استعمال کی جاری ہے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمان یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم نے 1400 برس پہلے یہ سبق پڑھ لیا تھا کہ ہم نے امن، محبت، رواداری اور انصاف سے آگے بڑھنا ہے۔ آج مسلم ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں بھی نہ امن ہے اور نہ ہی معاشی و صنفی انصاف ۔ بدقسمتی سے دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے۔ ترقی پزیر ممالک بدحالی کا شکار ہیں، آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو جیسے چاہیں چلاسکتے ہیں۔
امریکا جیسے ملک میں بھی صدارتی انتخابات میں جو زبان استعمال ہوئی اور جس طرح امریکا، اسرائیل کے ظلم و بربریت کو سپورٹ کر رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار بالکل ختم ہوگیا ہے اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر پر عملدرآمد کا نظام پوری طرح سے ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ عدم برداشت میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں تعلیم سے دوری، انصاف کا نہ ہونا، سیاسی نظام کا شخصیات کے گرد گھومنا، عوام کے مفادات کا سیاست میں کردار نہ ہونا، خاص طور پر بچوں اور خواتین کا استحصال، نصف سے زائد آبادی کا تعلیم، صحت، روزگار، انصاف سے محروم ہونا ہے۔
ایسی صورتحال میں ملک کیست آگے بڑھے گا۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائیں۔ معاشی ناانصافیوں کو ختم کرنے کیلئے برابری، انصاف اور قانون پر عملدرآمد کریں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھانا ہوگا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی، سیاسی عمل میں شرکت ، تنظیم سازی، تعلیم، صحت سمیت دیگر حقوق کو ماننے کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے بھی توجہ دیں۔
ہمیں نوجوانوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت سے جوڑنا ہوگا، انہیں تربیت دینا ہوگی۔ میرا حکومت سے مطالبہ ہے کہ قانون پر عملدرآمد اور انصاف کی فراہمی یقینی بنائے اور صنفی برابری کے ذریعے ملک میں برداشت کو فروغ دے۔