چیف جسٹس آف پاکستان کا خطاب

جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مزید کہا کہ ملکی ترقی اور بقا صرف آئین کی پاسداری ہی سے ممکن ہے


ایکسپریس August 06, 2012
موجودہ جمہوری نظام کے تحفظ میں عدلیہ کا بھی اہم کردار ہے، چیف جسٹس، پی آئی ڈی

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ اگر ریاست ناکامی سے دوچار ہو جائے اور حکومت آئین کے اطلاق میں کامیاب نہ ہو تو اس صورت میں عدلیہ کو سامنے آنا پڑتا ہے۔ ملتان میں ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ جمہوری حکومت کو ساڑھے چار سال چلانے کا سہرا عدلیہ کے سر ہے کیونکہ پانچ سال قبل یہ کیسے ممکن تھا کہ جمہوری حکومت کو اتنا عرصہ تک چلنے دیا جاتا۔ یہ وکلاء اور میڈیا کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے لوگوں کو یہ شعور دیا کہ ملک کی بقا آئین سے منسلک ہے۔

ماضی میں جمہوری حکومتوں کو چلنے نہیں دیا جاتا تھا مگر آج کی مضبوط عدلیہ جمہوریت کی محافظ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا خطاب اپنے اندر معنی کا جہان لیے ہوئے ہے۔بہت سی باتوں کو چھوڑ کر ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بلاشبہ اس وقت پاکستان میں جمہوریت ہے اور ہر قسم کے نامساعد حالات کے باوجود اداروں کے درمیان تصادم کی نوبت نہیں آئی اور ہر مشکل اور رکاوٹ کو آئین کے دائرے میں رہ کر حل کرلیا گیا۔بہت سے مقدمات میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان تصادم کے آثار پیدا ہوئے اور بعض مواقع پر ایسا محسوس ہوا کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے ہیں لیکن پھر سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق طے پا گیا۔

سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں نااہل قرار دیا گیا تو حکومت نے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا، یہ ایسا موقع تھا جب کچھ بھی ہوسکتا تھا لیکن فریقین نے صبر وتحمل اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ۔ اب پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کردہ توہین عدالت قانون کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کو بھی حکومت نے تسلیم کرلیا ہے لیکن ایسی افواہین اور قیاس آرائیاں ضرور گردش کررہی ہیں جن سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید معاملات درست سمت میں نہیں جارہے۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عدالت عظمی کی طرف سے توہین عدالت ایکٹ 2012ء کو کالعدم قرار دینے پر حکومتی اتحاد نے مختلف آپشنز پر غور کرتے ہوئے تجویز پیش کی ہے کہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے بجائے 8 اگست سے پہلے صدارتی آرڈیننس جاری کر کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو این آر او کیس میں توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی سے بچایا جائے۔ جب کہ بعض حکومتی ماہرین آئین نے اس حوالے سے پارلیمنٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی ثابت کرنے کے لیے آیندہ ہفتے کے دوران توہین عدالت بل پر نئی قانون سازی کر کے اسے فی الفور نافذ العمل کرایا جائے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ توہین عدالت کے قانون کی خامیوں کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے اور قانون کا نیا مسودہ لانے کے لیے ماہرین آئین وقانون کا جائزہ لے رہے ہیں جس کی منظوری کے بعد وزارت قانون مجوزہ توہین عدالت قانون کا حتمی مسودہ تیار کرے گی۔بہرحال پارلیمنٹ اگر کوئی قانون سازی کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے، اس میں کوئی تصادم والی بات بھی نہیں ہے۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کررہی ہیں تو اس سے نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی یہ بات درست ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کے تحفظ میں عدلیہ کا بھی اہم کردار ہے۔ ادھر ملتان میں جناب چیف جسٹس نے اپنے مفصل خطاب میں کہا جب آپ انصاف کی کرسی پر ہوں تو آپ کو کسی سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ اس موقع پر انھوں نے نبی کریم کے آخری خطبے کا حوالہ بھی دیا اور کہا قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آج ملک میں جو بہتر تبدیلی نظر آ رہی ہے کہ تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں اس کا سہرا وکلاء کے سر ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کا کمال ہے۔

بلوچستان کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ کو حل کر رہے ہیں۔ وکلاء خواہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں آئین کے نفاذ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں جب آئین و قانون کی ملکی تاریخ لکھی جائے تو یہ بات نمایاں رقم ہو گی کہ جنوبی پنجاب کے وکلاء نے فرنٹ لائن پر رہ کر اس تاریخ کی آبیاری کی۔ مضبوط بار کے بغیر عدلیہ بھی آزاد اور خود مختار نہیں رہ سکتی ۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مزید کہا کہ ملکی ترقی اور بقا صرف آئین کی پاسداری ہی سے ممکن ہے۔

قانون وضع کرنے والے لوگ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصول کو مدنظر رکھیں۔ چیف جسٹس کی انصاف کے حوالے سے باتیں سچ پر مبنی ہیں۔ جمہوریت کی بقا جہاں پارلیمنٹ کی بالادستی سے منسلک ہے وہاں عدلیہ کے وقار واختیارات اور قانون کی حکمرانی کے تصور کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں ماضی میں جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں باہم دست وگریباں ہوئیں اور مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی۔ماضی کی عدلیہ نے بھی غیر جمہوری قوتوں کو آئینی جواز بخشا لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ماضی میں سب کی غلطیوں کا خمیازہ جمہوریت کو برداشت کرنا پڑا۔

اب چیف جسٹس آف پاکستان نے دوٹوک الفاظ میں واضع کیا ہے کہ عدلیہ جمہوری نظام کے تحفظ اور آئین وقانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے ہر قسم کی قربانی دے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان کسی حد تک کشیدگی کی صورتحال ہے، بعض قوتیں اس کشیدگی کو بڑھا کر بحران میں تبدیل کرنے کی خواہشمند ہوسکتی ہیں۔یہ ایسا فیز ہے، جسے جمہوریت کے فیصلہ کن کہا جاسکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سب ادارے آئین اور قانون کی پاسداری کریں گے اور ملک میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں