کراچی اور نواز شریف
اندرون سندھ کے لیے شروع ہونے والے آپریشن کا رخ کراچی کی جانب مڑ گیا۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور نواز شریف پاکستان کے بہت بڑے سیاستدان۔ ایک شہر اور شخصیت کا کیا تعلق ہے؟ جب پاکستان کا معاشی مستقبل ان دونوں سے وابستہ ہو تو کیوں نہ جائزہ لیا جائے کہ ان کے تعلقات کی کڑیاں کہاں کہاں ملتی ہیں، لاہور میں پیدا ہونے والے اور پلنے بڑھنے والے صنعت کار نے شہر قائد کا دورہ اپنی جوانی کے دور میں ضرور کیا ہوگا۔ وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوں گے، یہاں کے تفریحی مقامات پر شاندار گاڑیوں میں گھومے ہوں گے، امیر امراء سے ملاقات کی ہوگی اور جہاز کی عمدہ نشستوں پر واپسی ہوئی ہوگی ۔ لاہور ایئرپورٹ پر باوردی ڈرائیور اور سیکریٹری نے خوش آمدید کہا ہوگا۔
نواز شریف سن 81 میں صوبائی وزیر بنے ہوں تو شاید کراچی کا سرکاری دورہ کیا ہو۔ اب ان کا انداز مختلف ہوگا۔ سندھ کے خیالی وزراء نے ان کا استقبال کیا ہوگا۔ اب ان کی رہائش کراچی کے اقتدار کے مرکز ''قصرناز'' میں رہی ہوگی۔ 85 میں وزیر اعلیٰ بننے پر ان کا استقبال ہم منصب غوث علی شاہ نے کیا ہوگا۔ اب مقام آسودگی صوبے کے بڑے وزیر کا گھر ہوگا۔ 88 میں نواز شریف کی سیاست نے پلٹا کھایا۔ جنرل ضیاء کی رخصتی کے بعد آئی جے آئی کا قیام عمل میں آیا، کراچی میں ایک انتخابی جلسے میں نوازشریف کی شرکت ان کے قومی سطح کے لیڈری کی جانب بڑھنے کا پہلا قدم تھا۔ ایک سال بعد ایم کیو ایم کو اپنی جانب مائل کرنا نواز شریف کی پہلی بڑی سیاسی کامیابی تھی، یہیں سے ان کی جماعت اسلامی سے کچھ دوری اور ایم کیو ایم سے قربت کی ابتداء ہوتی ہے۔ 90 کے انتخابات میں آئی جے آئی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی، وزارت عظمیٰ کا تاج نواز شریف کے سر پر رکھا گیا۔ طاقت ور حلقے بڑے صوبے کے لیڈر مجیب کو اقتدار نہ سونپنے کا انجام دیکھ چکے تھے۔ ابھی تک نواز شریف اورکراچی کا تعلق ایک عشرے پر مشتمل تھا۔ صوبائی وزارت سے وزارت عظمیٰ تک ایک صنعتی شہر اور صنعتکار کا تعلق ۔
طاقتور وزیر اعظم کے لیے کراچی اور سندھ کی بدامنی ایک مسئلہ تھی۔ آرمی چیف جنرل آصف نواز بھی طاقتور شخصیت تھے۔ اندرون سندھ کے لیے شروع ہونے والے آپریشن کا رخ کراچی کی جانب مڑ گیا۔ حالات بدتر تھے۔ پہلی مرتبہ نواز شریف اور کراچی کے درمیان تلخی دیکھنے میں آئی۔ کسی وزیر اعظم کی گڈ بک میں دیہی سندھ کی مقبول پیپلز پارٹی اور شہری سندھ کی عزیز پارٹی ایم کیو ایم نہ ہو تو پھر کیا ہو؟اسی کشمکش میں ایک سال بعد نواز شریف کا اقتدار ختم ہوا تو پھر ایک شہر اور ایک شخصیت کے گلے شکوے دور ہوئے۔ بے نظیر کے دوسرے دور اقتدار میں نواز شریف نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو کراچی کے جلسے میں اکٹھا کیا۔ لاہور کے سیاستدان نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے اجتماع سے سب سے آخر میں خطاب کیا۔ دوبارہ اقتدار بھی دو تہائی اکثریت سے ملا۔ اس مرتبہ کراچی کی نمایندہ ایم کیو ایم شریک سفر تھی۔ نواز شریف کے اقتدار کو بیس ماہ ہی ہوئے تھے کہ اکتوبر 98 میں حکیم محمد سعید کو شہید کردیا گیا۔ سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ یوں کراچی میں پیدا ہونے والے دو بڑے سیاستدانوں سے نواز شریف کی دوری تلخی کا اختتام نہ تھی، کراچی میں پلنے بڑھنے والی تیسری شخصیت سے ان کا ٹکراؤ تاریخ کا ایک باب ہے۔
12 اکتوبر 99 کی تاریخ بھی نواز شریف اور کراچی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔شہر قائد کے ایئرپورٹ پر کامیاب آپریشن نواز حکومت کو معیاد مکمل کرواسکتا تھا۔ آرمی چیف پرویز مشرف کا طیارہ اسی شہر میں اترنا تھا لیکن طیارے کے اترنے میں رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ طیارہ نہ نواب شاہ گیا اور نہ احمد آباد۔ مشرف کا جہاز کراچی ایئرپورٹ پر اترا تو نواز شریف بھی اقتدار سے اتر گئے۔ پھر ''طیارہ سازش کیس''والا مقدمہ بھی کراچی میں چلا۔ یہیں کی عدالت نے نواز شریف کو سزا دی۔ جدہ کی جلاوطنی نے نواز شریف کو صرف کراچی سے نہیں بلکہ پاکستان سے دور کردیا۔ شاید قلبی طور پر دوری نہ ہوسکی ، لیکن جسمانی طور پر ضرور تھی۔
کراچی اور نواز شریف کا ساتھ پاکستان کو ترقی دلاسکتا ہے۔ بے نظیر کو غریبوں سے، عمران کو نوجوانوں سے تو نواز شریف کو تاجروں سے قریب تر قرار دیا جاسکتا ہے۔مشرف کی اقتدار سے رخصتی اور ن لیگ کو پنجاب کا اقتدار ملنا، یوں جلاوطنی اور صوبائی حکومت پر توجہ نے ایک بار پھر نواز شریف اور کراچی کو ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) شہر قائد کو کچھ کچھ نظر انداز کرکے اندرون سندھ کے سیاستدانوں سے رابطے کر رہی ہے۔ ممتاز بھٹو اور ڈاکٹر قادر مگسی سے اتحاد اور لاڑکانہ، ٹھٹھہ اور میرپورخاص کے دوروں نے خلیج کچھ نمایاں کردی ہے۔ ایم کیو ایم سے تعلقات کی ناخوشگواری نے لاہور کے صنعت کار کو پاکستان کے معاشی حب سے ایک سطح تک فاصلہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ کراچی اور نواز شریف کی یہ غیریت پاکستان کے لیے بڑی خطرناک ہے، کالم اب ایک نازک مقام پر آکر ایک شخصیت اور ایک شہر کو قریب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک صنعت کار سے زیادہ ایک صنعتی شہر کی اہمیت کا اندازہ شاید کسی دوسرے کو نہ ہو۔اور شہر بھی وہ جو بربادیوں کی مسلسل زد میں ہو۔
صوبہ سندھ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ شہری اور دیہی میں تقسیم ہے۔ شاید برصغیر کے کسی صوبے میں یہ صورت حال نہ ہو، یا دنیا میں کہیں نہ ہو۔اگر دونوں کی سیاسی پسند ایک ہوتی تو مسئلہ اتنا بڑا نہ ہوتا۔ دیہی سندھ کی چالیس برسوں تک پیپلز پارٹی کے لیے پسندیدگی اور کراچی کی پسند کوئی اور ۔ اس تقسیم نے مسئلے کو بڑا نازک بنادیا ہے۔ تیسری نزاکت یہ ہے کہ قدیم سندھی اپنے صوبے کی تقسیم پر بڑے جذباتی ہیں وہ سندھ کی یکجائی کے شدت سے حامی ہیں ۔ ایک طرف یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف بڑی سیاسی پارٹیوں کا کردار ہے۔ ان کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کس کے مطالبے کی حمایت کریں؟ کوٹہ سسٹم، زبان، بہاریوں کی آمد اور کراچی کے لیے بلدیاتی نظام پر دونوں طبقوں کا اختلاف، ایک تاریخ ہے۔ سندھ کی وحدانیت اور کالا باغ ڈیم کی نامنظوری پر دونوں کا اس کالم کے لکھے جانے تک اتفاق ہے۔
قومی سطح کے ایک بڑے لیڈرکا آبادی کے ایک طبقے کی حمایت دوسرے کو ان سے دور کردیتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں پیش قدمی کے جواب میں اندرون سندھ میں آگے بڑھنا نواز شریف کا حق ہے۔ ایسے میں کراچی جیسے آبادی کے بڑے طبقے کی امن و امان، بلدیات و ٹریفک کے معاملات کی تکلیفوں کو تکلف میں اڑا دینا بڑا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ دنیا کے درجنوں بڑے شہروں کو قریب سے دیکھنے والے نواز شریف کو لاہور اور کراچی کے لیے ایک جیسا شہری نظام دینے کی طرف آگے بڑھنا چاہیے۔ نواز شریف کے علاوہ عمران خان، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی کی ایک طبقے سے ''لاڈ'' اور دوسرے سے ''دھتکار'' کو اچھے معنوں میں نہیں لیا جائے گا۔ امریکا میں پچاس سال قبل آنے والے خاندان کا اوباما صدر بن سکتا ہے تو ساٹھ سال قبل سندھ میں پیدا ہونے والا صوبے کا وزیراعلیٰ کیوں نہیں بن سکتا؟ نازک سوالات نہایت شائستہ انداز میں ایک بڑے لیڈر کے علاوہ کئی ایک لوگوں کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں۔ اندرون سندھ سے منتخب ہونے والے نمایندے اہل کراچی کی اشک شوئی نہ کرسکیں تو کم ازکم ملک کے دوسرے علاقوںسے تعلق رکھنے والے لیڈروں کو شہر قائد کے مسئلے کو سمجھنا چاہیے۔ پاکستان کو صحیح سمت میں چلانے کے لیے اس کے معاشی انجن کی دیکھ بھال لازمی ہے۔ ملک اس وقت ترقی کرے گا جب ہم سب ایک سمت میں سوچ رہے ہوں گے بالخصوص ایک صنعتی شہر اور ایک صنعت کار ، ایک شہر اور ایک شخصیت، کراچی اور نواز شریف۔