یہ دو لوگ
کیا معاشرہ نظر کرم و شفقت کرے گا ان پر جنھیں ہم نے بھلا دیا ہے؟ ہماری توجہ کے محتاج ہیں یہ دو لوگ۔
KARACHI:
یہ دو قسم کے لوگ ہیں جنھیں ہم نے بھلا دیا ہے، جب دھماکے، ڈرون یا خودکش حملے ہوتے تو کیا ہوتا ہے؟ لوگ جاں بحق ہوجاتے ہیں، جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آٹھ لوگ مرگئے یا ساٹھ انسان دنیا سے رخصت ہوگئے یا یہ تعداد سو کے لگ بھگ ہے، یہ کیا ہے،یہ گنتی ہے؟ ہم مرنے والوں کو نمبروں سے یاد کرتے ہیں، ہمیں ان کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے، پھر ہم افسوس کرتے ہیں۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس میں دو قسم کے لوگ ہیں جنھیں ہم نے بھلا دیا ہے۔ ہم نہ ان کی تعداد کو سنجیدگی سے لیتے ہیں نہ بعد میں ان کے دکھوں کی خبر رکھتے ہیں۔ مرنے والے تو مرجاتے ہیں اور ان کا رابطہ ہماری اس ظالم دنیا سے ختم ہوجاتا ہے۔ اب ان کا اور ان کے ربّ کا معاملہ ہوتا ہے، لیکن ہم ان دو سو لوگوں کا کیا کریں جو بچ جاتے ہیں۔ غیر طبعی موت چاہے کسی حادثے یا دہشت گردی سے ہو یا ڈرون حملوں سے، کچھ لوگ مرجاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں۔ آج ہم دو قسم کے بچ جانے والوں کی بات کر رہے ہیں، جنھیں معاشرہ بھلا چکا ہے، سماج انھیں فراموش کرچکا ہے۔
ہر حادثے کی خبر دو قسم کی اطلاع دیتی ہے۔ اتنے لوگ جاں بحق اور اتنے زخمی۔ ہم زخمیوں کی کتنی دیکھ بھال کرتے ہیں؟ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ مرنے والوں سے بھی زیادہ بدقسمت ہوتے ہیں۔ شدید زخمی کو نہ ریاست پوچھتی ہے نہ کوئی تنظیم ان کی دیکھ بھال کرتی ہے اور نہ معاشرہ انھیں علاج معالجے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ لوگ زندہ درگور ہوجاتے ہیں وہ چلتی پھرتی لاش بن جاتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے تو کوئی ہاتھ سے محروم ہوجاتا ہے، کسی کی ایک آنکھ ضایع ہوجاتی ہے تو کوئی سماعت کھو بیٹھتا ہے، کسی نے دست گیری نہ کی کہ کتنے زیورات بک چکے ہیں؟ سب ناواقف ہیں کہ کتنا قرضہ چڑھ چکا ہے؟ جب ریاست بے خبر ہو، حکومت لاچار اور معاشرہ بے حس ہو، تنظیم فراموش کرجائے اور ساتھی کارکن مجبور ہوں تو اس زخمی کی کون مدد کرے گا؟ جو کسی جلسے یا جلوس میں شریک ہوکر بے حال ہوچکا ہے، کسی حادثے یا دھماکے کا شکار ہوکر زخمی ہوچکا ہے، ایسے شدید زخمی پہلے لوگ ہیں جو ہماری توجہ چاہتے ہیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو اس حادثے کے سبب یتیم و بیوہ ہوچکے ہیں۔ ماں کے دوسرے بیٹے ہوں یا بھائیوں کے دوسرے بھائی ہوں تو ان کا اتنا زیادہ معاشی حرج نہیں ہوتا۔ اگر ایک آدمی مرجائے جو ایک خاندان کا سربراہ ہو تو چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والے اور بیوگی کا بوجھ بٹانے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ لوگ مرنے والے کے اس لمحے کو افسوس سے یاد کرتے ہیں جب وہ کسی جلسے جلوس میں شریک ہوا تھا یا حادثے کی جگہ اتفاقاً موجود تھا۔ وارثین افسوس کرتے ہیں کہ کاش! وہ حادثے کے اس لمحے بھی وہاں موجود نہ ہوتا۔ باقی لوگ چند دن افسوس کرکے اپنی زندگی میں مگن ہوجاتے ہیں، سب سے زیادہ متاثر وہ ہوتے ہیں جن کے لیے معاشرے نے اور زبانوں نے الفاظ ایجاد کیے ہیں۔ یتیم اور بیوہ کے الفاظ۔ ایک سائے اور سرپرستی سے محروم ہونے والے، وہ محروم و مجبور جن کا ازالہ تو کوئی نہیں کرسکتا، لیکن ظالم معاشرہ اس کی شدت کم کرنے کو بھی سامنے نہیں آتا۔
بیوہ اور یتیموں کو چھوڑ جانے والے جو ان کے چھوٹے چھوٹے بچے اور مظلوم عورتیں معاشرے کی ذمے داری ہوگئیں۔ اگر وہ نوکری پیشہ ہے تو ایک دو ماہ کی تنخواہ کے بعد سلسلہ بند ہوجاتا ہے، اگر وہ خود اپنا کوئی چھوٹا موٹا کاروبارکرتا تھا تو وہ دکان بند ہوجاتی ہے۔ اگر وہ اپنے بھائی کے ساتھ پارٹنر تھا تو مشکلات بھائی کے لیے شروع ہوجاتی ہیں کہ اب دو گھروں کا خرچہ کیسے چلائے؟ جب بچے اسکول، کالج جانے کی عمروں کے ہوں تو اخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں، ایسے میں کئی بچے یتیمی کا داغ لیے جماعت کا دوسرا داغ سجانے کی تیاری کرتے ہیں۔ چودہ پندرہ سال کے بچے عملی زندگی میں آجاتے ہیں اور پھر زندگی بھر اس حادثے کو یاد کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان کے والد حادثے کے مقام پر موجود تھے۔ کس طرح ظالموں نے ان پر یتیمی کا داغ سجاکر ظالم دنیا کے بے رحم تھپیڑوں کے آگے چھوڑ دیا۔
ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسا فنڈ قائم کرے جو حادثے کے شکار یتیموں، بیواؤں کے لیے ہو، حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ خصوصی گرانٹ سے ہی کچھ رقم ان مظلوموں کے لیے مقرر کی جائے۔ یہ ذمے داری ان تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے جن کے جلسے جلوسوں میں وہ حادثے کا شکار ہوئے۔ ان لیڈروں کی ذمے داری ہے جن کی محبت میں وہ شخص شریک ہوا تھا۔ وہ تنظیمیں بھی ہیں جو شہید کو اپنا کہتی ہیں، کفیل انھیں بننا چاہیے جن کے پرچموں میں مرحوم کا جنازہ تھا۔
اگر وہ جوان بیوی کا شوہر اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ تھا اور غریب تھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں تو یہ معاشرے کے مخیر حضرات کی بھی ذمے داری ہے کہ ایسے یتیموں اور زخمیوں پر شفقت کا ہاتھ رکھیں۔ اس میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی ہیں، سیاسی تنظیموں کے حامی و مذہبی پارٹیوں کے پرجوش کارکنان بھی اور عام شہری بھی۔ یہ زندہ درگور قسم کے دو لوگ جو معاشرے کی توجہ چاہتے ہیں، شدید زخمی اور بے کفالت ہوجانے والے لاوارث۔ کیا معاشرہ نظر کرم و شفقت کرے گا ان پر جنھیں ہم نے بھلا دیا ہے؟ ہماری توجہ کے محتاج ہیں یہ دو لوگ۔