تین چیزیں
صاف ستھرا ٹریفک،جرائم سے پاک ماحول، منتخب نمایندے عوام کی پہنچ میں اور میٹرو بس بھی۔کیا سیاسی پارٹیاں دیں گی یہ چیزیں؟
نواز شریف کے چاہنے والوں نے لاہور میں ایک پل بنایا ہے، ستائیس کلو میٹر طویل پل۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پل ان کے لیے ''پل صراط'' بن جائے گا اور اسے عبور کرکے وہ اسلام آباد تک پہنچ جائیں گے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ شہباز شریف تمام روپے لاہور پر لگا رہے ہیں، یوں سرائیکی بیلٹ کے لوگ پسماندگی کا رونا رو رہے ہیں، لاہور کی ترقی کی تین وجوہات ہیں، حکمرانوں کا تعلق اس تاریخی شہر سے ہے، دوسری وجہ ان کی نیت ہے اور تیسرا سبب اس کام کے لیے ان کے پاس پیسے ہیں۔ اگر ایک کام کیا جائے تو پورا ملک ترقی کرسکتا ہے۔ تعلق، نیت اور روپے ہر جگہ بانٹ دیں، پورا ملک ترقی کرجائے گا۔
سندھ کی تقسیم کے اکثر سیاستدان خلاف ہیں۔ ایک طرف اہل کراچی کی دبی دبی خواہش اور دوسری طرف دوسروں کی شدید مخالفت۔ اگر شہر قائد کو اپنی حکومت دی جائے جو اہل کراچی کی ہو، نیت ہو اور روپے ہوں تو شہر قائد بھی ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔ نعمت اﷲ ایڈووکیٹ اور مصطفیٰ کمال میں جب یہ تین گر سما گئے تو انھوں نے بھی کراچی میں بے شمار ترقیاتی کام کیے، یہی بات ملتان، بہاولپور، پنڈی، پشاور اور کوئٹہ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔
لاہور بدلا ہے کہ وہاں میٹرو بس کے ذریعے ستائیس کلومیٹر کا سفر 54 منٹ میں ہوسکتا ہے، یعنی دو منٹ میں ایک کلومیٹر۔ کیا پاکستان کا کوئی شہر ایسا ہے جس کا ایک کلومیٹر کا فاصلہ دو منٹ میں طے ہوسکتا ہے؟ اگر یہ ہوجائے تو چار کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ منٹ میں طے ہوجانا چاہیے اور دس کلومیٹر کا سفر کرنے والے کو اپنے گھر بیس منٹ میں پہنچ جانا چاہیے۔ لیکن ایسا ہر جگہ نہیں، کیونکہ ہر جگہ تین چیزیں نہیں ہوتیں، وہ تین چیزیں جو آج کل لاہور کو ملی ہوئی ہیں۔ اقتدار کا اس علاقے سے تعلق، ترقی کی نیت اور روپے۔
ایسا کچھ جب کراچی میں تھا تو جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ادوار میں کراچی نے ترقی کی تھی اور اب یہی تینوں چیزیں لاہور کو مل گئی ہیں تو وہ ترقی کر رہا ہے۔ پھر ہم کیوں نہ یہ تینوں چیزیں تمام پاکستانیوںکو دے دیں تو وہ بھی ترقی کریں، یوں پورا ملک ایک ساتھ ترقی کرے، مسئلہ کیا ہے؟ دو بڑی پارٹیاں نہیں چاہتیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جب کہ یہ سسٹم تینوں چیزیں اپنے لوگوں کو دے سکتا ہے۔ اگر لاہور کی میٹرو بس پنجاب حکومت کے بجائے لاہور کی سٹی حکومت نے بنائی ہوتی تو کہیں سے تنقید نہ ہوتی بلکہ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی۔
بہاولپور جنوبی صوبہ، ہزارہ صوبہ، سرائیکی صوبہ اور سندھ کی تقسیم کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ جب حقوق نہ دیے گئے تو علیحدہ یونٹ بنانے کے لیے پاکستان بنا۔ جب بنگالیوں کو حقوق نہ دیے گئے تو وہ الگ ہوگئے، اب جب ملتان، کراچی، بہاولپور اور ہزارہ کے لوگوں کو حقوق نہیں دیے جارہے تو ترقی یافتہ اور پسماندہ کا فرق سامنے آیا ہے۔ مسئلہ جہاں ہو وہاں مسائل کے حل کرنے والے کو طاقت بھی ہونی چاہیے، سیاسی، مالی و انتظامی طاقت۔ اب جب لاہور کا مسئلہ ہوتا ہے تو اس کے حل کرنے والے پنجاب کے دارالخلافے میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر پشاور کا مسئلہ ہو تو اکثر اس کا حل کرنے والا اس شہر میں ہوتا ہے تو کوئی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ جب نعمت اﷲ اور مصطفیٰ کمال کراچی کے کرتا دھرتا تھے تو شہر قائد کے مسئلے کے حل کے لیے وہ موجود ہوتے تھے، جب لاہور عامر محمود کے حوالے تھا تو وہاں ترقی ہوتی تھی۔
ڈاکٹر اسرار مرحوم نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ اگر کسی سرمایہ دار کی بیٹی کی شادی کا دھوم دھڑکا ہورہا ہو اور غریب کی بیٹی جھونپڑے میں بن بیاہی بیٹھی ہو تو اس کی سمجھ میں اسلامی اخوت نہیں آئے گی۔ جب مذہب کی طرف سب کو لانے کے لیے انصاف لازمی ہے تو ایک قوم بننے کے لیے بھی انصاف ضروری ہے۔ جب لاہور کے ہاتھ میں لاہور کے وسائل ہونے چاہئیں تو یہی چیز کراچی، ملتان، بہاولپور اور ہزارہ کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ تعلق، نیت اور روپے ہوں تو کسی کو کسی سے شکایت نہ ہو۔ اب دیکھیں ہو کیا رہا ہے؟
پنجاب کو دو یا تین حصوں میں بانٹنے کی بات کو لے کر پیپلز پارٹی کیوں آگے بڑھ رہی ہے؟ انھوں نے دیکھ لیا کہ حکومت کی ساری توجہ صوبے کے وسطی علاقوں کی جانب ہے، اس محرومی کا فائدہ اٹھاکر وہ انتخابات سے پہلے ''تخت لاہور'' سے علیحدگی کی بات کر رہے ہیں۔ ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کا موقع اس وقت ملا جب صوبہ سرحد کا نام خیبرپختونخوا رکھا گیا۔ اس سے زیادہ نازک مسئلہ کراچی کا ہے۔ دو کروڑ کی آبادی کے شہر کو نہ بلدیاتی نظام دیا جارہا ہے اور نہ ان کے منتخب نمایندوں کو ٹریفک پولیس پر کوئی اختیار ہے اور نہ جرائم کے کنٹرول کی پاور۔
کراچی کا معاملہ سب سے نازک ہے۔ جب سندھ کی منتخب حکومت ہو، جن کے وزرا کی اکثریت اندرون سندھ سے ہو تو کراچی کے مسائل کس طرح حل ہوں؟ جب تمام اختیارات صوبے کی اسمبلی کو حاصل ہوں تو شہر قائد کے باسی اپنا دکھڑا کس کے پاس جاکر روئیں؟ جب ان کے منتخب نمایندوں کو پولیس، بلدیات اور ٹریفک کے اختیارات نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ اس شہر میں روزانہ دس پندرہ لوگ مرتے ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کراچی کا کوڑا کرکٹ اٹھانے والی گاڑیوں کو سندھ اسمبلی پٹرول کے پیسے نہ دے تو کوئی کیا کرے؟ اب کراچی جرائم کا شہر نہ بنے تو کیا ہو؟ کراچی گندگی کا منظر پیش نہ کرے تو کیا ہو؟
شہر قائد کا کون سا شہری دو منٹ میں ایک کلومیٹر کا سفر طے کرے گا؟ یہاں کا بے ہنگم ٹریفک اور بے لگام پولیس ہو تو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں کیوں نہ طے ہو؟ لوگ بیس بیس منٹ تک گاڑیاں بند کرکے کیوں نہ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہوں؟ شریف لوگ عصر و مغرب کی نماز اور کبھی مغرب و عشا کی نماز ایک ہی مسجد میں کیوں نہ ادا کریں کہ ٹریفک سرک ہی نہ رہا ہو؟ جب منتخب نمایندوں سے پوچھا جائے تو وہ اپنی بے اختیاری کا رونا روتے ہیں، جب اختیار کہیں اور ہو اور الیکشن جیتنے والا کہیں اور، تو پھر مسائل کس طرح حل ہوں؟ یہ ہیں مسائل ملتان، بہاولپور، ہزارہ اور کراچی کے۔ اب اس کا حل کیا ہے؟ جہاں صوبہ بنانا ہو وہاں بنائیں اور جہاں جذباتی کیفیت ہو وہاں اختیارات دیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کی تاریخ رکھتی ہیں، ایسا کیوں ہے اور یہ پارٹیاں انتخابات نہ کروانے کا سبب کیا سوچتی ہیں؟ وہ سیاسی شطرنج کے لحاظ سے ٹھیک ہی کرتے ہیں۔ اگر نواز شریف وزیر اعظم ہوں تو وہ کراچی کیوں ایم کیو ایم یا جماعت اسلامی کے حوالے کریں؟ غوث علی شاہ اور عبدالستار افغانی کا موٹر وہیکل ٹیکس پر ٹکراؤ تاریخ کا حصہ ہے۔ مسلم لیگ ن اندرون سندھ اور سرائیکی بیلٹ کے بلدیاتی اختیارات پیپلز پارٹی کے حوالے کیوں کرے؟ اسی طرح پیپلز پارٹی کیونکر لاہور کو مسلم لیگ ن، کراچی کسی اور کے اور ملتان گیلانیوں و قریشیوں کے سپرد کریں۔
یہ ہے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کہ دونوں پارٹیاں بلدیاتی اختیارات کو نچلی سطح پر سونپنے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے قائدین یعنی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور زرداری کے اقتدار میں اس امر کی مرتکب نہیں ہوئی۔ نواز و شہباز کا چار مرتبہ پنجاب کا تخت اور دو مرتبہ وفاق پاکستان کا اقتدار اس امر سے پاک ہے۔ اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترامیم نے ان انتخابات کو لازمی قرار نہیں دلوایا، پانچ پانچ برس کے لگاتار اقتدار اور عوامی مقبولیت کے دعوے کے باوجود گھاس کی جڑ والا نظام نہ دیا جاسکا۔ سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات والا بلدیاتی نظام۔
کیا آج کی دونوں بڑی پارٹیاں یہ تین چیزیں اہل پاکستان کو دے سکتی ہیں؟ تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی جیسی خدمت خلق کا ریکارڈ رکھنے والی تین پارٹیاں پاکستانیوں کو یہ تین چیزیں دینے کا دعویٰ یا وعدہ کرتی ہیں؟ حاکم کا تعلق آپ کے علاقے سے، اس کی ترقی دینے کی ایماندارانہ نیت اور پیسے کا اختیار اس کے ہاتھ میں، یہ حل ہے صوبوں کی تقسیم سے بچنے کا۔ صاف ستھرا ٹریفک و جرائم سے پاک ماحول، منتخب نمایندے عوام کی پہنچ میں اور میٹرو بس سروس بھی۔ کیا سیاسی پارٹیاں عوام کو دیں گی یہ تین چیزیں؟