کون سا لاہوری
طاہر القادری وہ لاہوری ہیں جو نواز شریف کے قریب رہے ہیں۔ ’’اتفاق مسجد‘‘ کی امامت سے دونوں کی ملاقات کا اتفاق ہوتا ہے۔
لاہور کے تین سیاستدان ابھر کر سامنے آئے ہیں، صدی کی ابتداء میں یہ ناقابل ذکر تھے، نواز شریف جدہ جاچکے تھے اور مشرف کا اقتدار سر چڑھ کر بول رہا تھا، عمران خان سیاست میں نئے نئے آئے تھے اور پارٹی کے قائم ہونے کے چھ ماہ بعد الیکشن میں حصہ لے چکے تھے۔ طاہر القادری کی منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کوئی قابل ذکر نہ تھیں، اب جب کہ صدی کا دوسرا عشرہ شروع ہوچکا ہے تو یہ تینوں بھرپور انداز میں سیاست کے اہم کھلاڑی بن چکے ہیں، ہم دیکھیں گے کہ آیندہ آنے والے انتخابات میں کون سا لاہوری کیا کرسکتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ لاہور میں پیدا ہونے والے اور وہیں پرورش پانے والے تین اہم سیاستدانوں کے گرد ملکی سیاست کا پہیہ گھومے گا تو یہ غلط نہ ہوگا۔
نواز شریف پاکستان کے سب سے تجربہ کار سیاستدان کہے جاسکتے ہیں، وہ 81 سے اقتدار کی غلام گردشوں میں رہے ہیں، انھوں نے صوبائی وزارت سے صوبے کی سربراہی اور وزارت عظمیٰ سے قائد حزب اختلاف تک کے معاملات قریب سے دیکھے ہیں، اقتدار کے مزے سے اس کے چھوڑنے کی تلخی برداشت کی ہے یا طاقت کا لطف اٹھایا ہے تو جلاوطنی کا دکھ بھی سہا ہے، تخت کو دیکھا ہے تو تختے کا بھی نظارہ کیا ہے، اگلے انتخابات میں ان کا تجربہ ان کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہوگا، ایک طرف قوم کو کچھ دینے کے دعوے ہوں گے تو دوسری طرف بہت کچھ نہ کرسکنے کے طعنے۔ جنرل جیلانی کا نظر انتخاب اور پھر جنرل ضیا کی سرپرستی میں سیاست شروع کرنے والے نواز شریف نے ریاست کے سرد وگرم کو قریب سے دیکھا ہے، چار سال صوبائی وزارت سنبھالنے کے بعد غیر جماعتی انتخابات میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔
جنرل ضیا کے ایک بیان نے اقتدار کے گرد منڈلانے والوں کو نواز شریف کے قریب کردیا۔ یوں تین سال ایک جنرل کی سرپرستی میں صوبے کو چلانے کے تجربے نے نواز شریف کو سات سالہ اقتدار کا تجربہ عطا کردیا۔ جنرل ضیا کے فضائی حادثے کے بعد بے نظیر سے کشمکش کا دور شروع ہوتا ہے۔ ان دو برسوں کے بحران نے اس تجربے کی عمر نو سال کردی ۔ صدر غلام اسحق اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے بے نظیر کو اقتدار سے بے دخل کردیا تو نظر انتخاب لاہور کے صنعت کار پر پڑی۔ سن 93 تک وزارت عظمیٰ کے تین سالہ تجربے نے اس بھٹی سے گزرنے کی عمر بارہ سال کردی۔ یہاں سے اقتدار کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے اور حزب اختلاف کا تجربہ شروع ہوجاتا ہے۔ بے نظیر کے اقتدار کے تین برسوں کے بعد اب پھر باری نواز شریف کی آتی ہے۔ ایٹمی دھماکے، کارگل اور مشرف سے کشمکش کے ان دو برسوں نے اقتدار کی عمر چودہ برس کردی، یہ نواز شریف کے براہ راست اقتدار کا کل عرصہ ہے، اب اقتدار سے محرومی کے چودہ برس لگائے جائیں تو بنتے ہیں اٹھائیس برس۔ بے نظیر کے تین سالہ دور اقتدار کو شامل کیا جائے جب شریف پنجاب میں اقتدار سے محروم تھے تو یہ مدت تیس برس سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ یوں نواز شریف پاکستان کے سب سے تجربہ کار سیاستدان قرار پاتے ہیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ طویل تجربہ ان کے لیے دو دھاری تلوار بن سکتا ہے۔ اسے کس طرح دو لاہوری یعنی عمران خان اور طاہر القادری اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں؟ یہ سوال بڑا دلچسپ ہوگا۔
عمران خان دوسرے لاہوری ہیں جنھیں اب پاکستانی سیاست سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ لاہور میں پیدا ہونے والے اور پلنے بڑھنے والے عمران نے نواز شریف کو قریب سے دیکھا ہے۔ ایک کے اقتدار اور دوسرے کی کرکٹ کا عروج ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جب نواز شریف اقتدار کے قریب تھے تو وہ دور عمران کے عروج کا دور تھا۔ جہاں جنرل ضیا نے اپنا ایک ہاتھ نواز شریف کے سر پر رکھا تھا تو وہیں انھوں نے عمران کو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لینے پر مجبور کیا۔ گویا آج بھی پاکستان کے دو بڑے سیاستدان جنرل ضیا کی بدولت ملک کی رہنمائی کا دعویٰ لے کر میدان سیاست میں موجود ہیں۔ جب نواز شریف کا اقتدار سوا نیزے پر تھا تو اسی دور میں عمران نے ورلڈ کپ میں کامیابی دلاکر مقبولیت کی انتہا کو چھو لیا تھا۔جب نواز شریف بے نظیر کے دوسرے دور اقتدار میں اپنی بقا کے لیے پریشان تھے تو عمران اپنے اسپتال کی تعمیر میں الجھے ہوئے تھے۔ یہاں بھی دونوں کے ستارے یکساں تھے۔ یہاں عمران کا اسپتال قائم ہوتا ہے تو وہاں نواز شریف کو دوبارہ اقتدار مل جاتا ہے۔ 97 کے انتخابات میں قسمت کا فرشتہ الگ الگ کتاب لکھتا ہے۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہیں تو عمران اپنی سیاست کی بدولت عوام کو متوجہ کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ مسلم لیگ کا دوسرا دور اقتدار عمران کے لیے درد سر بنا رہتا ہے۔ پروپیگنڈے کی یلغار اور اس کا بمشکل مقابلہ کرتے عمران۔
یوں مشرف کے اقتدار نے جہاں بے نظیر بھٹو کو اطمینان کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا تو یہی کیفیت عمران کی بھی تھی۔ مشرف کے ریفرنڈم میں حمایت کی غلطی کرکے عمران اقتدار کے فوائد سے دور رہے۔2002 کے انتخابات میں اکلوتی نشست کپتان خان کو سیاست سے مایوس کردینے کو کافی تھی۔ یہاں عمران سیاست و ازدواجی زندگی میں ناکامی پر مشکل میں تھے تو نواز شریف جدہ میں جلاوطنی کی تکلیف اٹھا رہے تھے۔ مشرف کی رخصتی کے بعد پنجاب میں اقتدار نے نواز شریف کے لیے اطمینان کا ماحول پیدا کردیا تھا لیکن عمران کو ایسے اطمینان کے لیے تین سال تک انتظار کرنا پڑا۔ اکتوبر سن گیارہ کے مینار پاکستان کے جلسے نے پاکستانی سیاست کو ایک اور لاہوری عطا کیا۔ آنے والے انتخابات میں ان دو لاہوریوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کی امید تھی کہ ایک تیسرا لاہوری میدان سیاست میں کود پڑا۔
طاہر القادری بھی وہ لاہوری ہیں جو نواز شریف کے قریب رہے ہیں۔ ''اتفاق مسجد'' کی امامت سے دونوں کی ملاقات کا اتفاق ہوتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے میاں شریف سے ملاقات اور اسلام آباد کے دھرنے تک کے طاہر القادری کی زندگی اپنے اندر دلچسپی کا سامان لیے ہوئے ہے۔ جب نواز شریف جیسا بڑا صنعت کار نہ صرف یہ کہ انھیں حج کروائے، ان کے ساتھ حجاز مقدس تک جائے بلکہ اپنے کندھے پر بٹھاکر غار حرا تک لے جانے کا اقرار کرے تو کیا اہمیت ہوگی طاہر القادری کی؟ پھر کیوں نہ چاہنے والے مریدوں کا ہجوم طاہر القادری کی طرف لپکے، پھر کیوں نہ ان پر روپوں، پاؤنڈز، ڈالروں اور ریالوں کی برسات ہوجائے، قابلیت و وسائل سے مالا مال طاہر القادری ''منہاج القرآن'' کا سا ادارہ قائم کرکے دین کے متوالوں کو اپنے گرد جمع کرتے ہیں اور پھر اس مقبولیت کو ملکی اقتدار میں آکر بہتر بنانے کے لیے سیاسی پارٹی بناتے ہیں، 2002 کے انتخابات میں عمران کی طرح ایک نشست حاصل کرنے والے طاہر القادری چند سال بعد استعفیٰ دے کر کینیڈا چلے جاتے ہیں۔ انتخابی سال میں نئے سفر کی ابتداء کرنے والے طاہر القادری اپنا رنگ مینار پاکستان لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک تک بکھیر چکے ہیں۔ ان کی اسٹریٹ پاور پر جتنا لکھا گیا ہے اور صلاحیت پر جتنا بولا گیا ہے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ آیندہ آنے والے دنوں میں لاہور کے اس تیسرے سیاستدان کا کیا انداز ہوگا؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔
نواز شریف، عمران خان اور طاہر القادری لاہور کے نہیں بلکہ پاکستان کے اہم، معروف اور مقبول رہنما ہیں۔ نہ صرف اگلا انتخاب بلکہ آنے والی نصف صدی کا انحصار ان کے آنے والے پچاس دنوں کے فیصلوں پر ہوگا۔ صاف ستھرے انتخابات کروانا تو نگراں حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوگی لیکن؟ صاف ستھری سیاست، تہذیب و شائستگی کا بڑا انحصار ان تینوں پر ہوگا۔ آصف زرداری، الطاف حسین، منور حسن، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت اور اسفند یار ولی کو نظرانداز نہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست کا بڑا انحصار ان تینوں لاہوریوں پر ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی رہنمائی کون کرتا ہے؟ نواز شریف، عمران خان یا طاہر القادری۔ ان تینوں میں سے کون سا لاہوری؟