عید سے عید تک
عید سے عید تک کا زمانہ دنیا بھر میں مسرت کا زمانہ ہوتا ہے، پاکستانیوں کے لیے یہ چھ ماہ تشویش بھی ساتھ لاتے ہیں،
KARACHI:
عید سے عید تک کا زمانہ دنیا بھر میں مسرت کا زمانہ ہوتا ہے، پاکستانیوں کے لیے یہ چھ ماہ فرحت کے ساتھ تشویش بھی ساتھ لاتے ہیں، پاکستان اکیسویں صدی کی ابتدا سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ ایک طرف مسرت تو دوسری طرف حسرت ہوتی ہے، حسرت کہ کاش کوئی ہماری خوشیوں کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال دے، ان عیدوں کے درمیان غم کے مہینے بھی آتے ہیں، ان دنوں میں بھی دہشت گردی کے خطرات ہمارے ایام کو احتیاط و ہوشیاری سے منانے کا تقاضا کرتے ہیں۔
ربیع الاول کا مہینہ جب نصف ہوجاتا ہے تو ہم نصف سال میں اپنے تمام ایام منالیتے ہیں۔ گویا آدھا برس ہم اپنے مذہبی تہوار مناتے ہیں تو نصف برس ان کا انتظار کرتے ہیں، ان نصف برسوں میں یعنی جب مذہبی تہوار نہیں ہوتے تب بھی سیاسی ہنگامہ آرائی، انتخابی دنگل، جلسے جلوس، دھرنے اور احتجاجی مظاہرے جاری رہتے ہیں، آج ہم عیدالفطر سے عید میلاد النبیؐ کی بات کریں گے کہ ہم یہ نصف برس کس طرح گزارتے ہیں، دنیا بھر میں تو یہ پرسکون طریقے سے گزرتے ہیں جیسے پاکستان کے ابتدائی چالیس پچاس برسوں میں ہم اپنے تہوار و ایام اطمینان بخش طریقے سے مناتے تھے۔
رمضان، تراویح، عیدالفطر، عیدالاضحی، محرم اور عید میلاد النبیؐ کے ایام اکیسویں صدی میں پاکستان کے لوگ کس طرح مناتے تھے؟ ان کے چھ ماہ یعنی عید سے عید تک کا زمانہ کس طرح گزرتا تھا؟ یہ سوال صدی کی ابتدامیں بھی اور آخر میں بھی اہم رہے گا۔ مذہبی تہواروں کی ہنگامہ خیزی کا دور عالم اسلام میں رمضان ہی سے شروع ہوجاتا ہے، ابتدائی عشرہ تو پاکستانیوں کی بڑی تعداد عبادت میں گزارتی ہے، دن میں روزے تو رات کو تراویح۔ نوجوانوں کی بڑی اکثریت پہلے عشرے کے بعد خریداری میں لگ جاتی، پولیس اور رینجرز کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ مسجدوں کے باہر پہرے دیں، پندرہویں روزے کے بعد مارکیٹوں میں رش بڑھ جاتا۔
یہاں بھی قانون نافذ کرنے والوں کی ڈیوٹیاں لگتیں،رمضان کے بعد عید پر بھی دہشت گردی کا خطرہ رہتا، پولیس کی دوڑ بالکل میڈیا والوں کی طرح لگتی، جس طرح ٹی وی چینلز والے عید کی نمازوں کو اپنے ناظرین کو دکھانے کے لیے الگ الگ عید گاہوں کی طرف بھاگتے، اسی طرح پولیس والے بھی صبح چھ بجے سے دس بجے تک اس ڈیوٹی میں مصروف ہوجاتے۔ شام کو تفریح گاہوں پر بھی پولیس نظر آتی، کسی دور میں اوباش نوجوانوں پر نظر رکھنے کے لیے ، لیکن صدی کی ابتدا میں دہشت گردوں پر بھی نگاہ رکھنے کے لیے، اب لڑکیوں اور فیملیز کو اوباشوں سے بچانے سے زیادہ فکر دہشت گردوں سے بچانے کی ہوتی ہے۔
عیدالفطر کے تین دن خیریت سے گزرنے کے بعد دو ماہ کا آرام ہوتا، پھر لوگ بقر عید کے تہوار منانے لگتے، جس کا دورانیہ پندرہ دن ہوتا، منڈی میں بولنے والے اور بے زبان جانوروں کا رش ہوتا، نیا مسئلہ جانوروں کی حفاظت کا ہے، یہ ٹھگی کے انداز سے بھی ہتھیا لیے جاتے ہیں اور ہتھیار کے ذریعے بھی ہتھیا لیے جاتے ہیں۔ کہیں چوکیدار اور کہیں شامیانے کہ جانور اور ان کی کھال چوروں سے محفوظ رہ سکیں۔ کراچی میں قربانی کی کھالوں پر سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں میں بڑی چھینا جھپٹی ہوتی ہے۔ جب تک قربانی کرنے والا اپنے جانور کی کھال کسی تنظیم کے حوالے نہ کردے اس کی اپنی کھال بڑی سخت رہتی ہے۔ قربانی کے تین دن قربانی کرنے والے اہل کراچی خود قربان گاہوں پر لٹکے ہوتے ہیں۔ ان ہی دنوں میں لوگ حج پر جاتے ہیں، عمرہ، احرام،ہدیہ زم زم کا پانی اور کھجوریں معاشرے کی روایات بقر عید کے بعد محرم کا مہینہ آجاتا ہے۔
پاکستان کے ابتدائی چار پانچ عشروں میں یہ بڑا پرسکون ہوا کرتا تھا، تعزیے کے جلوس نکلا کرتے اور حفاظت کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے سنگم پر دہشت گردوں نے جلوسوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ حکومت نے حفاظت کے لیے تلاشی کے نظام کو سخت کیا۔ واک تھروگیٹ نصب کیے جانے لگے، کیمروں اور ہیلی کاپٹروں سے نگرانی کی جاتی، پاکستان کے درجنوں شہروں میں سے ایک دو مقامات پر دہشت گردوں کا داؤ لگ جاتا، ان کا طریقہ واردات خودکش اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکے ہوتے، حکومت کئی گھنٹوں کے لیے موبائل فون کی سروس بند کردیتی، محرم میں عاشورے سے چہلم تک کا سلسلہ جاری رہتا تو صفر کا مہینہ ختم ہونے کو آتا۔
عید میلاد النبیؐ کی تقریبات کی ابتدا یکم ربیع الاول سے قبل ہی شروع ہوجاتیں، ہر طرف ہرے جھنڈوں کی بہار نظر آتی، بلڈنگوں اور سڑکوں پر چراغاں ہوتا، جوں جوں نبیؐ کی ولادت باسعادت کا دن قریب آتا جاتا ویسے ویسے مسلمانوں کا جوش و خروش بڑھتا جاتا۔ رات کو جلوس نکلتے، نوجوانوں کی ٹولیاں نعت کی ریکارڈنگ کے ساتھ عظمت مصطفیٰؐ کے نعرے لگاتیں، گلیوںاور محلوں میں محرابیں بنائی جاتیں، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بڑے بڑے پوسٹر آویزاں کیے جاتے، سجاوٹ و روشنیاں دیکھنے کو گھر کے مرد خواتین و بچے باہر نکلتے۔
12 ربیع الاول کا دن تعطیل کا دن ہوتا، رات سے لوگ جشن ولادت منانے کو نکل کھڑے ہوتے، اکثر علاقوں میں حلوے و مٹھائیاں تقسیم کی جاتیں، نماز ظہر کے بعد جلوس نکلنا شروع ہوجاتے، ان کی منزل وہ پارک یا میدان ہوتا جہاں مقررین رسول اکرمؐ کی زندگی کے واقعات بیان کرتے، ٹی وی پر بھی ان بارہ ایام میں محسن انسانیتؐ کے بارے میں پروگرام پیش کیے جاتے، اخبارات اس دن خصوصی ایڈیشن شایع کرتے اور دوسرے دن تعطیل کے سبب اخبار شایع نہ ہوتا، سیکیورٹی کے ادارے چوکس رہتے۔
رمضان سے شوال اور پھر ذیقعد سے ذی الحج ، محرم سے صفر اور پھر ربیع الاول تک کے یہ ماہ نصف برس پر محیط ہیں، ان چھ سات ماہ میں ہم اپنے تمام تہوار وایام مکمل کرلیتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان ایام میں خلق خدا کو کم سے کم تکلیف میں مبتلا کریں، افطار کی جلدی کے لیے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہو یا رمضان میں نائٹ کرکٹ کا شور شرابہ، قربانی کے موقعے پر صفائی کا خیال ہو یا لاؤڈ اسپیکروہارن کی گونج، یا کچھ اور ہمیںاپنے تہواروں وایام کو پروقار طریقے سے منانا چاہیے، عاجزی و انکسار کے ساتھ نہ کہ فخرو غرور کے انداز میں۔ ہمیں ان چھ ماہ میں توازن کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے، ہمیں عیدالفطر سے عید میلادالنبیؐ تک کے موقعوں کو خلق خدا کے لیے آئیڈیل بنانا چاہیے، اتنا شاندار کہ 22 ویں صدی کے لوگ بھی کہیں کہ کیسے ہوا کرتے تھے پاکستان کے مسلمان اور کیسے دن ہوا کرتے تھے جو یہ گزارتے تھے عید سے عید تک۔