قدرت کا پیکیج
وہ کبھی دے کر آزماتا ہے تو کبھی نہ دے کر۔ کبھی لے کر آزماتا ہے تو کبھی اچانک چھپر پھاڑ کر ظرف دیکھتا ہے۔
محمد علی، وحید مراد اور ندیم ہماری فلم انڈسٹری کے بڑے ہیروز تھے۔ ان تینوں کی الگ الگ خوبیاں تھیں، اس دور کے اکثر نوجوان اپنے اندر ان کی تمام خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے، انھیں قد اور رنگ محمد علی کا سا چاہیے تھا، تو ہیئر اسٹائل وحید مراد کا اور چلنے کا انداز ندیم کا سا مانگتے تھے۔ سب چیزیں تو تمام انسانوں کو نہیں ملتیں۔ یوں سمجھیں کہ قدرت نے تمام انسانوں کو ایک پیکیج دیا ہے۔ آج کل فون کمپنیاں اور چند ادارے مختلف قسم کی سہولتیں الگ الگ قسم کی قیمت کے بدلے دینے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا پیکیج بڑا خوبصورت اور منفرد ہوتا ہے، اگر انسان اس پر غور کرے۔ ایک دور میں ہمیں کسی انسان کی زندگی کا انداز اچھا معلوم ہوتا ہے، جب اس انسان پر برا وقت آتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں، ہماری زندگی جیسی بھی ہے بھلی ہے۔
صدام، قذافی اور حسنی مبارک کا پیکیج بڑا شاندار نظر آرہا تھا۔ دولت، حکومت، شہرت اور بظاہر عزت بھی۔ جب صدام پھانسی، قذافی قتل اور حسنی مبارک گرفتار ہوئے تو ان کی زندگی پر رشک کرنے والوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا ہوگا۔ ان کی اولاد کی دربدری دیکھ کر اپنے بچوں کو اپنے سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ہوگا۔ خامی کہاں ہے؟ اﷲ نے فرمایا ہے کہ ''انسان بڑا ناشکرا اور جاہل ہے''۔ ہم کسی بھی انسان کی شان و شوکت دیکھ کر مرعوب ہوجاتے ہیں، جب وہ ہمیں آفر کرے کہ میری زندگی تم لے لو اور اپنی زندگی مجھے دے دو تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ چلیں پاکستان سے کچھ مشہور اور کچھ عام مثالیں دے کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کوشش کرنے سے کوئی منع نہیں کرتا۔
ایک مشہور سیاسی شخصیت سے کوئی اپنی زندگی تبدیل کرنا چاہے گا؟ وہ کہیں گے بھائی! پہلے تو تم گیارہ سال کی جیل بھگتو۔ یہیں سے 99 فیصد لوگ بھاگ جائیں گے۔ پھر وہ کہیں گے، تمہیں تو گیارہ سال کی مدت کا پتہ چل گیا ہے، میرے لیے تو ہر دن رہائی کی امید لے کر آتا ۔ پھر جیل کی کال کوٹھڑی امیدوں کو توڑ دیتی، یہ دولت، اقتدار اور صدارت کے بدلے بچوں کے بچپن کو لڑکپن اور پھر جوانی میں بدلتے دیکھا، صرف دور سے دیکھا۔ جب جیل گیا تو بچے بچپن کی سرحد میں تھے اور جب رہا ہوکر آیا تو وہ جوانی کی سرحد میں داخل ہوچکے تھے۔ بیوی کی جدائی نے گھریلو زندگی برباد کردی۔ بولو! بدلنا ہے پیکیج؟ دولت اور شہرت و اقتدار کے طلبگار ایک فیصد جوان مردوں میں سے بھی شاید ایک فیصد ہی رہ جائیں۔ چلیں چھوڑیں۔ ایک مشہور، امیر اور بااختیار شخص کے بجائے کسی عام سے کروڑپتی سے اپنی زندگی بدلتے ہیں۔ اس کی زندگی کھنگالیں تو ہمیں ماضی کے کئی المناک دکھ سننے کو ملیں گے۔
اپنے خاندان کے امیروں پر نظر دوڑائیں، آپ کو ایک بڑی تعداد کی ابتدائی زندگی نہایت غربت میں بسر ہوتی دکھائی دے گی۔ ان میں سے کوئی آپ کو اپنے بچپن کا قصہ سنائے گا۔ ''ہم رمضان میں روزوں کی افطاری کے لیے اپنے نانا کے گھر گئے تھے، وہاں میری خالہ، خالو اور ان کے بچے بھی تھے، تراویح کے بعد میرے خوشحال خالو اپنے بیٹے کو ایسے جوتے دلاکر لائے جن میں سے روشنی بھی نکلتی تھی اور سیٹی بھی بجتی تھی۔ میں نے اپنے ابو سے فرمائش کی لیکن وہ ٹالنے لگے۔میں نے رو دھو کر ہنگامہ برپا کردیا۔ میرے نانا نے خالو کو ڈانٹا کہ اپنے بچے کو جوتے کسی اور دن دلادیتے۔
اگر آج ہی خریدنے تھے تو گاڑی میں رکھتے۔ پھر میرے نانا نے ماموں کو پیسے دیے اور انھوں نے مجھے اپنے کزن جیسے جوتے دلائے۔ شاید اس دن میرے والد ٹوٹ کر بکھر چکے ہوں گے۔ بڑا ہوا تو مجھے اپنی نادانی کا احساس ہوا۔ وہ آپ سے کہے گا کہ اے نوجوان! اے دوست! اے بزرگ! اے خواہش مند! اگر آج میری دولت سے اپنے آپ کو بدلنا ہے تو میرے بچپن کے وہ دکھ بھی سہنے ہوں گے جو نہ صرف میں نے بلکہ میرے پورے خاندان نے برداشت کیے ہیں۔ اس امیر آدمی کی ڈبڈباتی آنکھیں دیکھ کر شاید ہی کوئی ان سے وہ پیکیج لینا چاہے۔ آپ کہیں گے کہ ہمیں اپنے آپ کو کسی کروڑ پتی سے نہیں بلکہ کسی پروفیشنل سے تبدیل کرنا ہے۔ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل اور کامیاب ڈاکٹر۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی کھنگالیں تو وہ کہیں گے ''جب میں تیرہ سال کا تھا تو ہمارے اسکول کے طلبا و اساتذہ پاکستان کے ٹور پر جارہے تھے۔ یہ دور میرے والد کی بے روزگاری کا دور تھا۔ مجھے آٹھویں کلاس میں تو احساس نہ تھا لیکن بعد میں پتہ چلا۔ میں نے والد سے کہا کہ میں بھی لاہور، پنڈی، کوئٹہ، مری اور سوات دیکھوں گا۔ ماں نے ممتا کا واسطہ دیا اور کہا کہ میں تمہیں اپنے سے الگ نہیں کرسکتی، نجانے کیا ہوجائے۔ ہونا تو کچھ نہیں تھا لیکن والدہ مجھے بہلا رہی تھیں۔ پھر نجانے کیسے انتظام ہوگیا۔ والدہ میری ضد کے آگے شکست کھاگئیں۔ جب میں فرسٹ ایئر میں آیا تو نانی نے مجھے کہا کہ اپنی والدہ کے ہاتھ دیکھو۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے میری ماں کے ہاتھوں کو؟ انھوں نے بتایا کہ ان کے ہاتھوں میں کبھی ایک دو چوڑیاں ہوا کرتی تھیں۔
جب تم نے اسکول والوں کے ساتھ جانے کی ضد کی تو تمہاری ماں نے اپنا اکلوتا زیور تمہارے والد کے سامنے رکھ دیا۔ یوں تم شہروں، شہروں کی سیر کرسکے۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ میری نادانی کے سبب میری ماں کے ہاتھوں کی کلائیاں سونی ہیں، پھر میڈیکل کالج میں میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں اپنی نادانی کی تلافی کرسکوں۔ جب میرے نام کے آگے ڈاکٹر لگ گیا تو میری ماں کو بہت خوشی ہوئی۔ جب میںاس قابل ہوا کہ ماں کی کلائیوں کو زیورات سے بھرسکوں تو وہ اس دنیا میں نہیں رہی۔ میں نے اٹھارہ سال سے لے کر چالیس سال کی عمر تک ماں کی سونی کلائیوں کو دیکھنے کا دکھ سہا ہے۔ صرف ذرا سی سیر کے بدلے۔ بائیس دنوں کی تفریح کے بدلے، بائیس برسوں کا دکھ''۔ بولو! بدلو گے میرے اس دکھ سے اپنا دکھ؟
کالم اختتامی لمحے پر انتہائی غم کے مقام پر آگیا ہے۔ یہ صرف کم حیثیت لوگوں کا المیہ نہیں، بعض خوشحال اور صاحب ثروت لوگوں کو اپنے سے کم دولت مندوں میں کچھ خوبیاں نظر آتی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں فلاں مسکین کی طرح اسمارٹ ہوجاؤں، کسی بڑے افسر کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش! میں اپنے فلاں ماتحت کی طرح قدآور ہوتا یا کوئی سیٹھ چاہتا ہے کہ میرے بال فلاں ملازمت پیشہ شخص جیسے ہوتے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا پیکیج ہے جو سب کے لیے الگ الگ ہے۔ ہر ایک کو ربّ کی رضا میں راضی ہونا چاہیے۔ آج کے دکھوں کی مصلحت اور ان کا سبب بعض اوقات سات، آٹھ برسوں بعد پتہ چلتا ہے۔ پھر برائی سے بھلائی نکلتی ہے اور ربّ کائنات کی حکمت کا احساس ہوتا ہے۔
وہ کبھی دے کر آزماتا ہے تو کبھی نہ دے کر۔ کبھی لے کر آزماتا ہے تو کبھی اچانک چھپر پھاڑ کر ظرف دیکھتا ہے۔ کبھی صحت دے کر آزماتا ہے تو کبھی بیماری دے کر۔ کسی دانشور کا قول ہے کہ خوش قسمت وہ نہیں جس کی قسمت بظاہر اچھی لگ رہی ہے، خوش قسمت وہ ہے جو اپنی قسمت پر خوش ہے۔ معاشرہ بہت بہتر ہوجائے اگر ہم خوش ہوجائیں جو اوپر والے نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے یا جو نصیب آج ملا ہوا ہے، ہمارے دل اطمینان سے بھر جائیں، اگر ہم اپنے سے کم تر کو دیکھیں، ہمارا یہ انداز ہمیں اپنے آج سے خوش کردے گا اور ہم قبول کرلیں گے وہ کچھ جو ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود ہماری قسمت میں نہیں ہے، مال میں نیچے والے کو اور اعمال میں اوپر والے کو دیکھیں تو ہم راضی ہوجائیں گے، اس پر جو ہمارے لیے ہے قدرت کا پیکیج۔