محسن کائنات نبی کریم ﷺ کا سفرِ معراج

تکذیبِ معراج کے وقت بھی رب نے اپنے حبیب ﷺ کو تنہا نہ چھوڑا۔


یہ واقعہ معراج دنیا میں رہنے والے انسانوں پر اپنے حبیبؐ کی شان و مقام اور اپنی قدرت کو عیاں کرنے کا ایک مظہر تھا۔ فوٹو: فائل

'' وہ ذات (ہر نقص اور کم زوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے (اس) مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنادیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔''

(بنی اسرائیل، الاسراء)

معجزات نبوت کا لازمہ ہیں۔ تمام انبیائے کرامؑ کو انفرادی طور پر مختلف نوع کے معجزات دیے گئے۔ یہ مظاہر خلافِ عادت تو ہوتے مگر مظاہر ارضی یا انسانی کیفیات کی تبدیلی سے متعلق ہوتے، مثال کے طور پر چشموں کا جاری ہونا، دریاؤں کا راستہ دے دینا، عصا کا سانپ بن کر دیگر سانپوں کو نگل لینا، کوڑھ کے مریض کا تن درست ہونا، مُردوں کا جی اٹھنا اور پہاڑی سے اونٹنی کا برآمد ہونا۔

یہ تمام معجزات قافلۂ نبوت کے اعلیٰ سواروں کو دیے جاتے رہے، مگر اس عظیم الشان قافلے کے بے مثل سالار اعظم نبی کریم ﷺ کو بہت سارے معجزات کے علاوہ جو دو محیرالعقل معجزات دیے گئے وہ فضا و آسمان کا تصرف ہے۔ ان میں سے ایک کو ''واقعہ شق القمر'' اور دوسرے کو ''معراج النبیؐ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو ٹکڑوں میں بانٹ دینا، رب کائنات کا حکم اور اس کے حبیب ﷺ کی شان کے سوا کیا ہے۔ ایمان نہ لانے والے تو تب بھی نہ لائے جب اپنی آنکھوں سے چاند کو ٹکڑوں میں بٹ کر مختلف سمتوں میں سفر کرتے دیکھا۔ ان ٹکڑوں کا پھر سے ملنا دیکھا، قافلوں کی گواہیاں سنیں مگر جادو، جادو پکارتے رہے۔ دیکھے ہوئے معجزے پر جب یہ ردعمل تھا تو ان دیکھے پر اعتبار ناممکن تھا۔ جنہیں ساری عمر صادق و امین پکارتے رہے۔

بدترین دشمنی اور بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنی امانتیں انہی کے سپرد کرتے رہے، جب وہی صادق و امین ﷺ اپنے سفر معراج کی روداد، اللہ کی دکھائی ہوئی نشانیوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو جھوٹ، جھوٹ ( نعوذباﷲ) کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ عدم سے وجود پانے، ناچیز سے چیز ہونے والے ان گونگے، بہرے انسان نما جانوروں کو اپنی ذات میں، اپنی تخلیق میں کبھی اپنے رب کی قدرت نظر آئی ہوتی تو رب کے حبیبؐ سے ان کے اس سفر کے دورانیے، ان کی سواری کی رفتار کی بابت تمسخر نہ کرتے۔

مادیت پرستی کے پرچارک، تسکین نفسانی کے دل دادہ بس جسم کی کثافتوں کی دلدل میں ہی دبے رہے۔ انہوں نے کبھی روحانی لطافتوں کو، اپنے لطیف و خبیر رب کی قدرت کو اپنی ہستی کے ذرے ذرے میں پرکھا ہی کب تھا۔ وہ محدود عقل رکھنے والے، مچھر کے پر سے حقیر دنیا کے طلب گار، لامحدود قدرت، سماعت و بصارت رکھنے والے، رب کی نشانیوں، اس کے احکام کو جھٹلانے والے اور اس کے حبیب ﷺ کو ایذا دینے والے یقینا بے پروا تھے، اپنے دردناک انجام سے، دوزخ کا ایندھن بننے سے۔

سرکشوں، غافلوں کا کام محض جھٹلانا ہے۔ حق سے منہ موڑنا ہے کیوں کہ ان کے دل مُہرزدہ اور عقل قفل زدہ ہے۔ میر حجاز ﷺ کو ایذا دینے میں سبقت لے جانے والے آپؐ کی نبوت و معجزات کو جھٹلاتے تھے۔ آپؐ کے سفر معراج، نور ازل و ابد کی تجلیات کی جلوہ بینی کو جھٹلاتے تھے۔ مگر رب کائنات کو اپنے حبیب ﷺ کی افسردگی کہاں گوارا تھی جب جب دشمنوں نے چراغ نبوتؐ کو اپنی سرکش فطرت کی مبغوض لہروں کی زد پہ رکھنا چاہا تو اللہ نے تسلی و تسکین قلب کے لیے انعام و اکرام کی بشارتوں کے ذریعے اپنی رحمتوں کے حصار میں لے کر چراغ نبویؐ کی لو کو یک سر بچالیا۔

تکذیبِ معراج کے وقت بھی رب نے اپنے حبیب ﷺ کو تنہا نہ چھوڑا۔ اپنی آیات کے ذریعے معراج نبی کی تصدیق کی۔ ان کی حق پرستی و حق گوئی کا اعلان کیا۔ اپنی طرف سے انہیں علم دیے جانے کا ذکر کیا اور دنیائے انسانی کو بتایا کہ آپؐ نے تجلیات جلوہ کو ملاحظہ فرمایا۔ اپنے اور اپنے حبیبؐ کے قرب و تعلق کو جتایا اور یہ بھی کہ وہ جلوہ انہوں نے ایک بار نہیں دو بار دیکھا۔ انسانوں سے سوال کیا کہ کیا ان کے دیکھے پر جھگڑتے ہو اور اس ملاحظہ کرنے والی آنکھ کی ستائش کہ نہ پھری نہ حد سے بڑھی اور اپنی نشانیاں (جنت و دوزخ کے مناظر) دکھائیں۔

ترجمہ: '' اس پیارے چمکتے تارے کی قسم جب یہ اترے۔ تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے۔ اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے، مگر جو وحی انہیں کی جاتی ہے۔ انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقت ور نے۔ پھر اس جلوے نے قصہ فرمایا۔ اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارے پر تھا۔ پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا۔ پھر خوب اتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بل کہ اس سے بھی کم۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے کو، جو وحی فرمائی۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا تو کہا تم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پر جھگڑتے ہو۔ اور انہوں نے تو وہ جلوہ دو بار دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اس کے پاس جنت الماوی ہے جب سدرہ پر چھا رہا تھا، جو چھا رہا تھا آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ بے شک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔''

(سورۃ النجم: 1-18)

حضرت موسیٰ ؑ تجلیات ربانی کی جلوہ نمائی کے طلب گار ہوئے۔ کوہ طور کی جانب متوجہ رہے، جب تجلی کی اِک جھلک طور پر برسی تو آپؑ پر بے ہوشی طاری ہوگئی مگر سورۂ نجم کی ان آیات میں اللہ اپنے حبیب ﷺ کی چشم پُرنور کی ستائش فرماتا ہے کہ وہ آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔

اس واقعے کو ایک طرح سے لوگوں کے لیے آزمائش، ایمان والوں اور ظاہر بینوں کے درمیان تفریق بنادیا ہے۔

'' اور ہم نے تو (شب معراج کے) اس نظارے کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لیے صرف ایک آزمائش بنایا ہے۔'' (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے)

(بنی اسرائیل)

اس پرنور سفر کا پہلا مرحلہ ''اسرا'' کہلاتا ہے جو مکۃ المکرمہ سے بیت المقدس تک کی سیر کا ہے وہاں انبیائے کرامؑ کی امامت کے بعد اگلا مرحلہ بیت المقدس سے عرش بریں تک کا سفر تھا جسے ''معراج'' کہا جاتا ہے۔ تمام انبیا و رسلؑ کا آپؐ کی امامت میں نماز ادا کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ سید الانبیا و رسل ہیں۔ اس کے بعد آپؐ یکے بعد دیگرے ساتوں آسمانوں تک اور پھر سدرۃ المنتہیٰ تشریف لے گئے۔ مختلف آسمانوں پر بزرگ و برتر انبیا ئے کرامؑ سے ملاقات ہوتی رہی۔ جن میں سیدنا آدمؑ، حضرت یحییٰؑ، حضرت عیسیٰ ؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت ادریسؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور سب سے آخر میں اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔

ان تمام انبیائے کرامؑ سے ملاقات کرنے اور ان کی دعائیں سمیٹنے کے بعد آپؐ نے جنت و دوزخ کے مناظر کا مشاہدہ کیا۔ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے تو جبرائیل امینؑ نے مزید پیش قدمی سے عجز ظاہر کردیا۔ چناں چہ وہ منزل آپہنچی جو عرشِ بریں پر تجلیات انوار ربانی سے حبیب کو مزید منور کر گئی۔ جس کے لیے اقبال فرماتے ہیں :

معراج کا سفر عظمتوں وا لے رب کی مہمان نوازیوں کا ایک پرنور و دل نواز سلسلہ ہے، جس کا آغاز اپنے حبیبؐ کی طرف ایک عالی شان قاصد اور شان دار سواری بھیجنے سے ہوا اور اس سفر کا منتہیٰ اپنی تجلیات کا دیدار کرانا اور اپنے حبیب ﷺ کی امت کے لیے تین بہت خصوصی تحائف کا دینا تھا۔ یہ تین تحائف اللہ کا خصوصی کرم ہیں۔

(1) پچاس نمازوں کا فرض ہونا (جن کی تعداد امت کی آسانی کے لیے پانچ کردی گئی)

(2) سورۂ بقرہ کی آخری آیات۔

(3) اور تیسری بغیر توبہ کے بھی گناہوں کا معاف کیا جانا۔

ان تحائف میں اولین صلوٰۃ ہے۔ یہ معراج میں فرض ہوئی اس لیے فرمایا گیا کہ ''الصلوٰۃ معراج المومنین'' نماز اہلِ ایمان کے لیے بہ منزلۂ معراج ہے۔

یہ تمام تحائف لے کر جب آپ ﷺ دنیا میں لوٹے تو وقت کی نبض نے پھر رفتار کی ڈور تھامی اور نظام کائنات کو روانی ملی۔ واقعۂ معراج اور اس کی تفصیلات کی گونج جب مکہ کی فضاؤں میں پھیلی تو مشرکین مکہ کو ہرزہ سرائیوں کا ایک موقع ہاتھ آگیا ان کی جانب سے سوالات شروع ہوگئے کہ مسجد اقصیٰ کے ستون کتنے ہیں؟ وہاں کی کھڑکیاں کیسی ہیں؟ فرش کیسا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے اچانک آپؐ کے سامنے مسجد اقصیٰ کو ظاہر کردیا اور آپؐ نے دیکھ دیکھ کر ان تمام سوالوں کے جوابات دیے۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے خود سنا: '' جب مجھ کو قریش نے (واقعۂ معراج) پر جھٹلایا تو میں حجر میں کھڑا ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہر فرمایا۔ میں نے ان کو اس کی نشانیاں بتانا شروع کردیں اور میں ان کو دیکھتا جاتا تھا۔'' (بخاری و مسلم)

اس واقعہ کے بعد کا ایک اہم پہلو، مرحلہ تصدیق یعنی صدیقؓ بھی ہیں۔ مشرکین مکہ نے حضورؐ کی زبانی تذکرۂ معراج سنا تو چند ایک عجلت میں صدیق اکبرؓ کی بارگاہ میں پہنچے کہ آپؐ یہ فرما رہے ہیں۔ وہ اپنی دانست میں رفیق رسولؐ کو متزلزل کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر تب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے جب یار غارؓ نے فرمایا کہ لوگو! اگر آپؐ کہہ رہے ہیں تو سو فی صد سچ کہہ رہے ہیں، میں یہ مانتا ہوں کہ روزانہ آپؐ کے پاس فرشتہ آتا ہے اور اگر ایک مرتبہ آپؐ کو آسمان پر لے جایا گیا تو یہ کون سی بڑی بات ہے، میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔''

اسی دن آپؓ کو بارگاہ رسالتؐ سے صدیق کا خطاب ملا۔

رویت باری تعالیٰ سے متعلق دور روایات ہیں۔ جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' تم اپنے رب کو عیاں دیکھو گے۔'' ایک اور روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہوئے فرمایا: '' تم اپنے رب کی طرف دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور اس کے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے۔ اگر تم اس بات کی طاقت رکھو کہ تم سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ کردیے جاؤ تو ایسا ضرور کرو۔ پھر یہ آیت پڑھی:

'' اور تسبیح بیان کرو اپنے پروردگار کی سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے۔''(بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد)

رب جلیل کی قوتِ تخلیق اور قدرتِ تصرف کو ہماری عقل کی محدود رسائی نہ جان سکتی ہے نہ اس کے اسرار پاسکتی ہے۔ حیرت کدۂ دیر میں ان معجزات یا ماورائے عقل واقعات کا تسلسل ہے، عقل عاجز ہے، محدود ہے اور ان معجزات کو سمجھنے میں یک سر عاجز۔

یہ واقعہ معراج دنیا میں رہنے والے انسانوں پر اپنے حبیبؐ کی شان و مقام اور اپنی قدرت کو عیاں کرنے کا ایک مظہر تھا اور اصل عطائے ربانی ابھی باقی ہے کہ جب یوم حشر میں تمام مخلوق ذلیل و رنجور حالت میں ندامت سے سر جھکائے کھڑی ہوگی اور اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو اپنی رحمت و مغفرت کی خلعت عطا فرمائے گا اور سب سے بڑھ کر اپنے حبیبؐ کی شان لوگوں پر عیاں کرتے ہوئے حق شفاعت دے کر وسیلہ و مقامِ محمود پر سرفراز فرمائے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔