Girls Safety Manual
مرد اور عورت کے تعلقات کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہے
ISLAMABAD:
مرد اور عورت کے تعلقات کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہے۔ دنیا کسی ایک فارمولے پر متفق نہیں ہے کہ صنف نازک اور صنف قوی کے درمیان کس طرح کی قربت یا دوری ہونی چاہیے۔ الگ الگ ممالک اور الگ الگ مذاہب کے الگ الگ قوانین ہیں۔ دو تین صدیوں سے مغرب کی ترقی نے انھیں اپنا فارمولا دنیا بھر میں پھیلانے کا بھرپور موقع دیا ہے۔
ایک طرف یورپ و امریکا ہیں تو دوسری طرف بھارت۔ مغربی تہذیب کو تیزی سے اپناتا ہندوستان اپنی فلموں کے ذریعے ہمارے قریب تر ہے۔ یوں ہم نصاریٰ کی وضع اور تمدن ہنود کو دیکھتے ہوئے اپنے معاشرے کو بھی اسی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ جب یہ کیفیت ہے تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دور کے گوروں اور قریب کے کالوں کو کیا فوائد حاصل ہیں اور کیا نقصانات وہ بھگت رہے ہیں۔ مرد و عورت کو قریب سے قریب تر کرکے ایک طرف پاکستان کے لبرل اور سیکولر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آدھی آبادی کو گھر میں بٹھا کر ترقی نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف پاکستان کا مذہبی طبقہ ہے جو آگ اور پانی کو ٹکرانے سے، دہکا جانے سے ڈرا رہا ہے۔ سوال وہیں آکر ٹھہرتا ہے کہ مرد و عورت کے درمیان کتنی قربت اور کتنی دوری ہونی چاہیے؟
دوسری جنگ عظیم کے سبب یورپی مردوں کی بڑی تعداد محاذ جنگ پر تھی، جن میں سے کروڑوں مرکھپ گئے، اس خلا کو پُر کرنے کے لیے یورپ نے خواتین کو بھرپور انداز میں میدان کارزار میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ شدید خواہش سرمایہ داروں کی تو تھی کہ عورت کو دفتروں اور کارخانوں میں لاکر مزدوروں کی سپلائی بڑھا کر ان کا معاوضہ کم سے کم طے کیا جائے۔ یوں ان کی تجوریاں اور بینک بیلنس بڑھتا جائے۔
یورپ کا لبرل طبقہ بھی عورت کو میدان میں لانے کو تیار تھا۔ تھوڑی سی ذہنی کشمکش قدامت پسند گوروں میں تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خلا نے ان کی اس ہچکچاہٹ کو بھی دور کردیا۔ یوں یورپ تیزی کے ساتھ اپنی عورتوں کو گھر کے محاذ سے معاشی محاذ پر لے آیا۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی انگریز عورتوں کو دیکھنے کے علاوہ ہندوستانیوں نے پردہ اسکرین پر گوری میموں کو اسکولوں، کالجوں، کارخانوں، دفتروں میں کام کرنے کے علاوہ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹری کرتے دیکھا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد پاکستان کے جدت پسند اور قدامت پسند طبقات میں عورت کے حوالے سے نظریاتی جنگ شروع ہوگئی۔
میڈیا کے محاذ پر لڑی جانے والی یہ جنگ آج تک جاری ہے اور شاید یہ کبھی ختم نہ ہو۔ کم از کم ہماری زندگی تک تو اس کے خاتمے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ایک طرف کالے انگریز اور مغرب زدہ کا طنز کیا گیا تو دوسری طرف ملا اور شٹل کاک کے طعنے دیے گئے۔ یوں ہمارا معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے، یورپ اور امریکا کے گورے میموں میں یک رنگی ہے، جب کہ پاکستان کے مسلمانوں میں دو رنگی واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ یہ لڑتا بھڑتا سماج ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یورپ کی مکمل آزاد اور ہندوستان کی نسبتاً آزاد اور ترقی کرتی عورت کے مسائل کو سمجھیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ ہم اپنی نیم آزاد اور ہوائی جہاز اڑانے یا اسکوٹر چلانے کی خواہش مند بچیوں کو ان مرد نما درندوں سے بچاسکیںگے، جن کا آج کل یورپ و امریکا کی میم اور ہندوستان کی مہیلا شکار بن گئی ہے۔ یورپ کے دانشور سر پکڑ کر بیٹھے ہیں اور بھارت کے مفکر اپنی بچیوں کو وصیت و نصیحت کررہے تو کیوں نہ ہم ان کے ذہنوں کو پڑھنے کی کوشش کریں؟
بالی وڈ کی بھارتی فلم انڈسٹری ہالی وڈ کی نقل کرتی دکھائی دیتی ہے، جن مسائل کا سامنا یورپ کو پچاس سال پہلے تھا ان سے واسطہ ہندوستان کو آج پیش آرہا ہے۔ ہم یہ سوال اس لیے کالم میں اٹھا رہے ہیں کہ پچاس سال بعد پاکستان کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس قسم کی فلمیں یورپ میں نصف صدی قبل بنی تھیں، ویسی ہی آج کل انڈیا میں بن رہی ہیں کہ مسائل ایک جیسے ہیں، بالکل اسی طرح بیس پچیس سال کے بعد ایسی ہی فلمیں پاکستان میں بنیں گی۔ جب ہم اسی راستے پر چل رہے ہیں تو یہ ماننے میں ہچکچاہٹ کیسی؟ آئیے فوائد و نقصان کی بیلنس شیٹ کے علاوہ خواتین کے لیے تجویز کی گئی احتیاطی ہدایات کو دیکھتے ہیں۔
عورت کے میدان میں آنے سے ملک کی ترقی کی رفتار تیز ہوسکتی ہے، عورت معاشی طور پر خود کفیل ہونے سے بااعتماد ہوجاتی ہے، شوہر کے معذور ہوجانے یا انتقال کرجانے یا طلاق کی صورت میں عورت اپنے بچوں کی پرورش خود کرسکتی ہے۔ بااعتماد عورت ظلم و زیادتی کا مقابلہ کرسکتی ہے، سسک سسک کر جینا اور جی جی کر مرنا وہ قبول نہیں کرتی۔ معاشی اور معاشرتی طور پر خود مختار خاتون کے ساتھ کوئی مرد زور زبردستی نہیں کرسکتا۔ (رضامندی کا موضوع الگ کالم کا تقاضا کرتا ہے)۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور بالکل صحیح رخ ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف ایک رخ نہیں، بلکہ سچی تصویر ہے، بالکل حقیقی تصویر، لیکن ایک جانب کی، یعنی یکطرفہ تصویر۔ دوسرا منظر کیا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے بہتر ہوگا ہم دور پرے کے یورپی معاشرے کو سمجھنے کے بجائے قریب کے ہندوستانی معاشرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
بھارت کے معاشرے کو دیکھنے کا موقع تو ملا ہے، ساتھ ہی ساتھ خبریں اور بالی وڈ کی ہندی فلمیں ایک خوفناک انڈین معاشرے کو ہمارے سامنے لارہی ہیں، جس بے چارگی اور بے بسی سے ہندوستانی عورت کو پردہ سیمیں پر وہاں کے ڈرامے اور فلمیں پیش کررہی ہیں، اس کا تجزیہ ہمارے لیے مفید ہوگا۔ ہم جن کے نقش قدم پر چلنے کو زیب قدم سمجھ رہے ہیں اس راہ کے کانٹوں کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی راستے پر چلنے کا ایک مکمل پیکیج ہوتا ہے، فوائد و نقصانات سے بھرپور پیکیج، ادھورا اور نامکمل نہیں، بلکہ مکمل پیکیج ہے۔
بھارتی مہیلا کے نام دو ماہ قبل کے کالم کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ فلم ''پنک'' میں امیتابھ بچن نے بطور وکیل جن تین نوجوان لڑکیوں کا عدالت میں دفاع کیا ہے، ہم اس کی بات کررہے ہیں۔ بظاہر طنزیہ انداز میں، لیکن حقیقتاً وہ ایک سبق ہے، ہر ایسی خاتون کے لیے جو ورکنگ ویمن ہے۔ تین لڑکیوں کی تین لڑکوں کے ساتھ ہوٹل میں ملاقات ہوتی ہے، اس بے تکلفی کے بعد لڑکیوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے بچنے کے لیے فلم کے مصنف نے فنکار کے ذریعے Girls Safety Manual جاری کیا ہے۔ تنہائی میں کسی لڑکے سے ملنے سے لڑکی کو روکنے کو پہلی ہدایت قرار دیا گیا ہے۔
نادان مرد اسے لائسنس سمجھتا ہے چھونے کا۔ لباس کے حوالے سے دوسری ہدایت دی گئی ہے کہ جینز اور اسکرٹ پہننے سے معاشرے میں خاتون کا کردار سوالیہ بن جاتا ہے۔ گھڑی کی سوئی مرد کے کردار کو تو نظر انداز کردیتی ہے لیکن عورت کے کردار کا تعین کرجاتی ہے۔ سنسان سڑک پر کسی خاتون کو اکیلے دیکھ کر گاڑیوں کی کم ہوتی رفتار اور شیشے اترنے پر بھی گھٹیا قسم کے مردوں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کسی لڑکی کے شراب یا سگریٹ پینے کو بھی ہندوستانی معاشرہ پسند نہیں کرتا، لہٰذا مردوں کی محفل میں اس سے گریز کو چوتھی ہدایت قرار دیا گیا ہے۔ ہنس ہنس کر بات کرنے یا جلد گھل مل جانے والی خواتین کے حوالے سے مرد اسے Hint سمجھتا ہے۔ یہ ہدایت نامہ ہے مخلوط دفاتر یا مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کے لیے۔
پاکستانی معاشرہ نہ ہندوستانی سماج کی طرح آزاد ہے اور نہ مسائل کی وہ شدت ہے اور نہ وہ گراوٹ جو ہمیں سرحد پار دکھائی دیتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود بھی ہماری خواتین اپنے ملک کے گھٹیا مردوں کے مظالم کا شکار ہیں۔ کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے کچھ سیکھیں کہ ان کے تجربے نے تیار کیے ہیں Girls Safety Manual۔