کراچی کے لیے کیا بہتر رہے گا
اختیارات کی مرکزیت اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خواہش کی بنا پرکراچی گندگی اور مسائل کا پہاڑ بن کر رہ گیا۔
ISLAMABAD:
یہ درست ہے کہ زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے،کبھی کچھ برداشت کرکے اورکبھی کچھ نظر اندازکرکے۔ کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ ''بلدیاتی نظام'' عوام کو شہری سہولتیں ان کے گھروں اورگلی محلوں تک پہنچانے کا نام ہے۔ بد قسمتی سے کئی سال تک بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے شہری ان سہولتوں سے محروم رہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کرا تو دیے مگر اختیارات کی مرکزیت اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خواہش کی بنا پرکراچی گندگی اور مسائل کا پہاڑ بن کر رہ گیا۔ اس بات میں بھی اب کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کراچی کے حقوق پر ایک طرف سندھ حکومت قابض ہوچکی ہے تو دوسری طرف دو تہائی ٹیکس ادا کرنے والے اس کے شہریوں پر 21 ارب روپے کا بجٹ مختص کرکے کراچی کے دیگر منصوبوں کو ختم کردیاگیا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کو بھی پس پشت ڈال کر من مانیاں کی جارہی ہیں۔
سیوریج، صحت وصفائی، پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل سر اٹھائے چلے جارہے ہیں۔ سبھی کو معلوم ہے کہ کراچی کے میئر سے تمام اختیارات پہلے ہی حکومت سندھ نے لے لیے ہیں۔ پتہ نہیں جیل سے کیسے وہ بگڑے کراچی کے معاملات کو سدھاریںگے؟ نہ جانے کیوں اورکس کے رحم وکرم پرکراچی کے شہریوں کو چھوڑا جارہاہے؟ دوبارہ بھتے کی پرچیاں اور ڈکیتیاں شروع ہونے سے پھر شہری پریشان ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم ایک دن سے زیادہ کراچی میں گزارتے نہیں،کیا ان پرکراچی کی بربادی کی ذمے داری نہیں ہے، صدر پاکستان کا تعلق توکراچی سے ہے لیکن وہ بھی بے خبر اور مکمل بے اختیار ہیں۔
احسن طریقہ اور مناسب وقت ہے کہ مقامی حکومتوں کے تمام ارکان کو وقتی مفادات کے لیے اختلاف برائے اختلاف اور تصادم کے بجائے چاربرس کی باقی رہ جانے والی مدت میں عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے حتی الامکان مفاہمت اور تعاون کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ شہری مسائل کے حل میں منتخب مقامی حکومتیں دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔
سندھ کے لوگ پچھلے آٹھ برسوں میں بوجوہ منتخب مقامی حکومتوں سے محروم رہے تاہم کم ازکم اب صوبائی حکومت کی جانب سے تمام مقامی حکومتوں خصوصاً ملک کے اقتصادی و تجارتی مرکز، میٹروپولیٹن سٹی اور منی پاکستان کہلانے والے کراچی کی شہری حکومت کو ضروری وسائل اوراختیارات فراہم کرنے میں کسی تنگ دلی سے کام نہیں لیا جانا چاہیے اور مقامی حکومتوں کے ذمے داروں کو بھی عوامی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں میں اعلیٰ معیارات تیز رفتاری اور شفافیت کا مکمل اہتمام کرنا چاہیے تاکہ برسوں سے ناگزیر شہری سہولتوں سے محروم عوام کو زندگی بسر کرنے کے لیے جلد از جلد اچھا، صحت مند اور صاف ستھرا ماحول میسر آسکے۔
کراچی کی ایک اور بدقسمتی کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اس کے منظر نامے پر سے ہوتا ہوا پوری دنیا کے افق پر چھاگیا وہ کردار جو پاکستان بنانے والوں کی اولاد ہونے کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں ان ہی کی پاکستان کے خلاف منافرت پھیلانے والی تقریروں اور اپنے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر بھی اکساتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ناخوش گوار واقعات وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے ان کی پارٹی بہت کڑی آزمائش اور مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔
ان کی پارٹی آج بھی ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت، سندھ کی دوسری بڑی اور کراچی اور حیدرآباد کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ ایم کیو ایم آج 24 ایم این اے،45 ایم پی اے،6سینیٹرز اور کراچی اور حیدرآباد میں اپنا میئر بھی رکھتی ہے، کراچی کے تین اضلاع میں چیئرمین اور وائس چیئرمین بھی ان کے اپنے ہیں ، اس روشن حقیقت کو مان لیں یا جان لیں کہ قائد تحریک کی تصاویر ہٹانے، متحدہ کے دفاتر مسمار کرنے یا پابند کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کراچی کا ووٹر جب تبدیل ہوگا جب اسے موجودہ تبدیلی کے مستقل ہونے کا یقین ہوگا۔
یہ ریاستی ایکشن جو جرائم پیشہ افراد اور سیاسی کارکنان میں کوئی فرق نہیں کر پارہا، کیا اس طرح متحدہ کا سیاسی کردار ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے خاص طور پر اس وقت جب متحدہ اپنے قائد سے دور ہوچکی ہے۔ بعض سیاسی بقراط یا سیانے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ معاملہ ایک ذمے دار شخص کے غیر ذمے دارانہ تقریر کا نہیں بلکہ چار یا پانچ ایم کیو ایم بنانے کے ایجنڈے پر کام ہورہاہے؟
بہر حال معاملات چاہے جو بھی ہوں یہ بات ہمارے ارباب اختیار کو بہر طور مقدم رکھنی ہوگی کہ ایم کیو ایم جو ایک سیاسی طاقت ہے اس کے حقوق اور مفادات کا خیال رکھنا ہمارے قومی مفاد میں ہے منتخب جماعتوں پر ماضی کے آمرانہ ادوار پر پابندیاں لگتی رہیں اور سیاست کو جرم بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن ہمارے یہاں مارشل لاء کے تینوں ادوار میں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے منفی نتائج نکلے اور ملک عدم استحکام کا شکار ہوا۔ اس لیے کہ سیاسی جماعتیں جمہوری پارلیمانی نظام کا لازمی جزو ہوتی ہیں اور پاکستان میں یہ قومی یک جہتی کا بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ لہٰذا ہمارے ارباب اختیارکو ماضی کی غلطیوں کو ہرگز دہرانا نہیں چاہیے۔
اب جہاں ایم کیو ایم کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے وہاں ادارے بھی اپنی ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ ریاست، حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی جماعتوں کا ہدف کراچی میں امن وامان قائم کرنا ہے اور یہی ہونا چاہیے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کا ہر صورت خاتمہ ہونا چاہیے کیوںکہ کراچی دنیا کے انتہائی دس خطرناک شہروں میں شمار ہونے لگا ہے۔
کسی بھی سیاسی قوت کو جبری پابندیوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا، ماضی میں بھی یہی ہوا جس کا خمیازہ صرف اور صرف کراچی والوں نے ہی بھگتا ہے اور 1990 کی دہائی میں اس حرکت سے کراچی کے عوام کے حصے میں امن و سکون نہیں صرف خون ہی خون آیا۔ دوبارہ اس طرح کی سعی لوگوں کے جذبات ابھارے گی اور انھیں مشتعل کرے گی ایم کیو ایم اگر آئینی ڈھانچے میں رہ کر پر امن طریقے سے جمہوری طور پر اپنا نیا پلیٹ فارم قائم رکھنا چاہتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کیوں کہ سبھی جانتے ہیں کہ سندھ کی مخصوص سیاست کے پس منظر میں شہری سندھ کا ووٹ بینک اب بھی مہاجر کے لیے مخصوص ہے۔
ایم کیو ایم (پاکستان) کے فاروق ستار 1987 سے اب تک ایم کیو ایم کا ایک بہت ہی مضبوط اور ذہین سیاسی چہرہ بنے ہوئے ہیں اور مصطفی کمال بہت ہونہار یا پروگریسو ذمے دار واقع ہوئے ہیں حسن اتفاق سے دونوں کراچی کے میئر اور ایک ہی جماعت کے بہت اہم ترین فرد رہے ہیں اب دونوں مخالف سمتوں میں ہیں کاش دونوں وطن عزیز کی پاک سرزمین کی خاطر اردو بولنے والوں کی خاطر لاکھوں مہاجروں کے خون کے ناحق بہہ جانے کی خاطر اور پاکستان بنانے والوں کی اولادوں کی خاطر ایک دوسرے کے قریب آجائیںگے تو پاکستان کو نہ ماننے والے اور ان کے خلاف نعرہ لگانے والے اردو بولنے والوں سے خود بخود بہت دور چلے جائیںگے ویسے بھی ملک کے تمام محب وطن حلقے اصرار کررہے ہیں کہ قومی اداروں کو ہر قسم کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف ملکی مفاد کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ یہ کسی فرد واحد یا پارٹی کا معاملہ نہیں قومی بقا اور یک جہتی کا تقاضا ہے۔