فاتح زمانہ
پہلے ہم روٹی کی بات کرتے ہیں، کپڑے اور مکان کے علاوہ دوسری عیاشیوں کی چیزوں پر بعد میں بات کریں گے
پہلے ہم روٹی کی بات کرتے ہیں، کپڑے اور مکان کے علاوہ دوسری عیاشیوں کی چیزوں پر بعد میں بات کریں گے۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اسے اچھے سے اچھا کھانا ملے۔ کہتے ہیں کسی آدمی کو دعوت میں اچھی بوٹیاں نہ ملے تو وہ تھوڑا ناراض ہوجاتا ہے، چاہے وہ کھانا میت کا کھانا کیوں نہ ہو۔ اب چاہے افریقی بچوں کی کئی دن سے فاقے کی خبر آجائے یا تصویر، خود غرض آدمی یہی سوچے گا کہ نہیں بھئی مجھے کھانے میں مزہ نہیں آیا۔
وزن لوگوں کا اسی لیے بڑھتا ہے کہ لوگ کھانے میں احتیاط نہیں کرتے۔ جس انداز سے پاکستان میں ہوٹل کھل رہے ہیں اور جس طرح لوگ کھانوں پر ٹوٹے پڑتے ہیں الامان والحفیظ۔ گھنٹوں کھانا کھانے کی جگہ پانے کے لیے انتظار کیا جاتا ہے۔ تکے، بوٹی، ملائی، سجی، برگر، پیزا، یہ نام تیس چالیس سال پہلے نہیں سنے گئے۔ مٹھائیوں کو ہی دیکھ لیں کہ کس قدر دکانیں کھل گئی ہیں اور نت نئی قسم کی مٹھائیاں مارکیٹ میں آگئی ہیں۔ ہم روٹی، کپڑا، مکان کے بعد ایک موضوع پر گفتگو کریں گے۔
کپڑا انسان کی دوسری ضرورت ہوتا ہے، یہ تن ڈھانپنے کے بھی کام آتا ہے اور انسان اس سے خوبصورت بھی دکھائی دیتا ہے۔ کپڑا ہی انسان کو جانور سے علیحدہ کرتا ہے۔ ورنہ خوراک تو دونوں ہی کھاتے ہیں اور گھر و گھونسلہ بھی دونوں بناتے ہیں۔ زیادہ روٹی کھاکر موٹے ہونے والوں کا تو کوئی مقابلہ نہیں ہوتا لیکن یہ سروے پہلے ضرور ہوتا تھا کہ کون شخص خوش لباس ہے۔ اسی طرح قیمتی سوٹ، شاندار گھڑیاں، بیش قیمت چشمے، لاکھوں کے جوتے و پرس اور مہنگی ٹائیاں بھی لباس میں شمار ہوتی ہیں۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اچھے سے اچھا برانڈڈ لباس زیب تن کرے۔ یہ انسانی فطرت ہے اور ہم اس پر کوئی تنقید نہیں کررہے، روٹی اور کپڑے پر گفتگو کے بعد ہم مکان پر آئیں گے کہ ہم آج ایک بڑی شخصیت پر گفتگو کرنے جارہے ہیں۔ 74 کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں اداکار محمد علی کے شاندار گھر کو شاہ فیصل کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد اب وہ گھر ایک عام سا گھر ہوگیا ہے کہ لاہور میں علی کے گھر سے کہیں بڑے مہنگے اور قیمتی گھر سامنے آئے ہیں۔ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے گھر بھی ہوتے ہیں۔
تیس چالیس کروڑ کے فلیٹ تو کرکٹ کے کھلاڑی اپنی اداکارہ منگیتر کو گفٹ کردیتے ہیں۔ شاہ رخ کا ''منت'' نامی گھر اور پاکستان میں شریف برادران کے رائے ونڈ جیسے گھر اور عمران خان کے بنی گالہ کے گھر کے چرچے ہیں۔ ہر انسان اپنی حیثیت اور معاشرے میں مقام کے مطابق علاقے میں رہتا ہے۔ امجد صابری جیسا بڑا اور خوش حال فنکار اوسط درجے کے علاقے میں رہتا تھا تو لوگ تعجب کرتے تھے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اچھے سے اچھا کھانا کھائے، اچھے سے اچھے کپڑے پہنے اور اچھے سے اچھے گھر میں رہائش اختیار کرے۔ اگر یہ جائز ذرایع سے ہو اور ملک و قوم کا لوٹا ہوا پیسہ نہ ہو تو لوگ فضول خرچی کہنے کے علاوہ کوئی خاص تنقید نہیں کرتے۔ آج ہم ایک بڑی شخصیت کی بات کررہے ہیں جو ہم میں نہیں ہیں۔
''مجھ کو بھی تو لفٹ کرادے'' والے گانے سے لگتا ہے کہ شاندار گاڑیاں، غیر ملکی دورے اور نوکر چاکروں کی فوج کون نہیں چاہتا، خواہشات سب کی ہوتی ہیں اور اکثر کی خواہشات ہوس کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں، تو وہ اسے حاصل بھی کرلیتے ہیں۔
یہ انسانی نفسیات ہوتی ہے اور اس میں کوئی انہونی بات نہیں۔ پاکستان میں تو یہ عام ہے اور ہمیں اس لیے بھی دکھائی دیتا ہے کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم اسے قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ ایسا کچھ تو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ انسان اچھے برے اور ایماندار بے ایمان ہر جگہ اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔
جو ''شک'' پیدا ہورہا ہے ایک شخص پر، جو 8 جولائی 2016 کو ہم سے رخصت ہوگئے۔ ''عبدالستار ایدھی'' جیسے انسان پاکستان کے عجیب و غریب معاشرے میں جنم لے گئے اور یہی شک کی بنیاد ہے۔ انسان تو اچھے سے اچھا کھانا چاہتا ہے لیکن کروڑوں روپے تجوری میں رکھے ہوں اور وہ شخص انتہائی سادہ کھانا کھائے، کسی کے کپڑے پر دھبا لگ جائے یا کہیں سے پھٹ جائے تو عام سا آدمی بھی محفل میں سبکی محسوس کرتا ہے۔
کالے رنگ کے ملیشیا جیسے لباس اور ٹوٹے پھوٹے جوتے میں وہ شخص گزارا کر رہا تھا، جس کی ایمبولینسز کی قیمت کروڑوں میں ہے، وہ شخص پھٹی پرانی بیس سالہ ٹوپی پہن رہا ہے جو چاہے تو اپنے نام سے ٹیکسٹائل مل بھی خریدے۔ یہی شک کی بنیاد ہے کہ عبدالستار ایدھی انسانیت سے بلند مرتبے پر فائز تھے۔ وہ انسان نہیں فرشتہ تھے۔ والد صاحب اور عبدالستار ایدھی کی میٹھادر میں بیٹھک کا فاصلہ چند گز کی دوری پر تھا۔ آٹھویں کلاس کے کورس کی کتابوں کے لیے گئے تو ان سے ملاقات ہوئی اور میمنی زبان میں گفتگو۔ پندرہ سالہ لڑکے کو بھی احساس ہوگیا کہ اتنا بڑا نام اور اس قدر سادگی، اتنا خلوص اور اتنی سچائی کہ ان خوبیوں کو سمجھنے کے لیے نہ تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ تجربے کی۔
عبدالستار ایدھی سے متعلق تین واقعات جو شاید اب تک منظر عام پر نہیں آئے۔ والد گرامی 60 کے عشرے کی بات بتاتے ہیں کہ ایک شخص کو دست ہوگئے۔ اتنی بدبو کہ اس کے بیٹے تک قریب نہ آتے کہ مریض کو اسپتال پہنچایا جائے، حتیٰ کہ جمعداروں نے بھی قریب آنے سے انکار کردیا۔ ایک فرشتہ انسانی روپ میں سامنا آیا اور مریض کو اپنی ڈسپنسری لے گیا۔ ایدھی کی ملک گیر شہرت 77 میں ہوئی، جب منہ اندھیرے یا یوں کہہ لیں علی الصبح ایک بلڈنگ گرگئی۔ کوئی مدد کو نہ پہنچا اور اگر کوئی پہنچا تو اس کا نام ایدھی تھا۔
80 کے عشرے میں ایک ٹی وی پروگرام میں محمد علی اور زیبا کو بلایا گیا۔ حاضرین نے ان کی شاندار پذیرائی کی کہ یہ دور خوبصورت فلمی جوڑے کے عروج کا دور تھا۔ اسی پروگرام میں تھوڑی دیر بعد عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی تشریف لائے۔ حاضرین نے انھیں بھی اسی قدر پذیرائی دے کر ثابت کیا کہ وہ زندہ معاشرہ ہے۔ ہم نے جس انداز میں عبدالستار کو رخصت کیا وہ بھی بے مثال تھا۔ قائداعظم اور جنرل ضیا کے بعد بے مثال۔ ہم نے تو ان کی قدر کی لیکن انھیں ''فادر ٹریسا'' کہنے والوں نے انھیں نوبل انعام نہ دے کر ثابت کردیا کہ یہ ایوارڈ کس کو اور کیوںکر دیا جاتا ہے۔ ایدھی وہ نام ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں بستا ہے اور دھڑکتا ہے۔ ایدھی وہ نام ہے جس نے پاکستانیوں کے دل کو اپنے خلوص، سچائی، انسانیت اور محبت سے فتح کرلیا جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ ہوتا ہے اور بلاشبہ عبدالستار ایدھی کو ہی کہا جاسکتا ہے فاتح زمانہ۔