بہن بیٹیوں کا تحفظ
خواتین کو قتل کرنے کے پے در پے واقعات حیران کن ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران سات واقعات سامنے آئے۔
خواتین کو قتل کرنے کے پے در پے واقعات حیران کن ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران سات واقعات سامنے آئے۔ ابھی ایک واردات کی تفصیل پوری نہ ہوئی کہ قتل کا دوسرا سانحہ سامنے آجاتا، پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کی سہیلی کو گاڑی میں باندھ کر جلادینے سے بھی کوئی اندوہناک واقعہ ہوسکتا تھا؟ جس خاندان کی لڑکی انھیں نہ ملی تو اس کی سہیلی کو ڈھونڈا گیا۔ صورتحال اتنی کرب ناک تھی کہ پہلے تو پولیس طے نہ کرسکی کہ یہ لاش کسی مرد کی ہے یا عورت کی۔ افسوس سے کہا جارہا ہے کہ آنے والے دو واقعات اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہیں۔
بیٹی کی سہیلی کو جلاکر مار دینے والے غیر تھے۔ ایک ایسی بھی بیٹی تھی جسے اس کے اپنے باپ نے گولی ماردی، وہ بیٹی جس کی پیدائش پر باپ خوش بھی ہوا ہوگا اور بچی کو گود میں کھلایا بھی ہوگا۔ اسکول بھی بھیجا ہوگا اور فرمائشیں بھی پوری کی ہوںگی۔ رخصتی کردینے کے وعدے پر داماد و بیٹی کو گھر بلاکر انھیں موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ بیٹی کو سرخ جوڑے میں رخصت کرنے کے بجائے کفن میں رخصت کیا۔ ان سب سے زیادہ درد ناک ایک اور واقعے نے معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا۔ غیروں کے بجائے اپنوںسے لگی چوٹ کی تکلیف زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر یہ چوٹ ماں کی جانب سے ہو تو اس کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔
شاید ہی پاکستانیوں نے ایسی دندناتی ماں دیکھی ہوگی، پسند کی شادی کرنے والی بیٹی کو آگ، شاید کسی ڈرامے اورفلم میں بھی نہ دکھائی گئی ہو، جو بیٹی کو آگ کی تپش میں جھونکنے کے بعد کہے کہ ''کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی، اس لڑکی نے پسند کی شادی کرکے ہماری بے عزتی کروا دی تھی، اب اس کی جلی ہوئی لاش دیکھ کر سکون ملا ہے'' یہ الفاظ ہیں جو ایک ماں کی زبان سے ادا ہوئے ہیں، اتنی بے دردی اور اتنی سفاکی، وہ بھی ایک جنم دینے والی کی زبان سے۔
''پسند کی شادی'' نامی کالم 2001 میں دو حصوں میں ایکسپریس میں شایع ہوئے تھے۔ شادی کے بعد عدالتوں میں آنے والوں کے واقعات تین سال بعد کتابی شکل میں سامنے آئے۔ اس دور میں اتنی مار دھاڑ نہ تھی، دس پندرہ سال پہلے بھی پسند کی شادیاں ہوتی تھیں، اور ماں باپ ناراض بھی ہوتے تھے لیکن انتقام لینے اور بدلہ چکانے کی وہ شدت نہ تھی جو آج کل نظر آرہی ہے۔
شاید اس کا ایک سبب موبائل فون اور میڈیا ہو یا معاشرے میں اپنی مرضی سے گھر بسانے کے مقابل اپنی مرضی تھونپنے کا جذبہ زیادہ شدت اختیار کرگیا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لڑکیوںمیں تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحان نے انھیں اپنے سے کم تر لڑکے سے بیاہ سے انکار کی جرأت پیدا کردی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام جواز اور باتیں سطحی ہوں، آیئے ذرا دوسرے معاشروں کی گہرائی میں جاکر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
سعودی عرب میں تو ماں باپ اور رشتے دار اپنی بہن بیٹی کو اس طرح قتل کرتے ہمیں نظر نہیں آتے، انگلینڈ تو معاشرتی اور تعلیمی ترقی کے لحاظ سے ہم سے کم از کم پچاس سال آگے ہے، پھر ہمیں برطانیہ میں یہ سب کچھ دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ اگر اکا دکا واقعات ہوتے بھی ہیں تو ان میں پاکستانی ملوث نظر آتے ہیں، وہ مغربی معاشرے میں پچیس تیس سال گزارنے کے باوجود وہیں اپنی بیٹیوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہیں دیتے۔ شاید کہ لڑکیاں کسی کم تر خاندان کے یا کسی غیر مسلم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔
برطانوی معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کے اس طرح کے واقعات دکھائی نہیں دیتے۔ اور تو اور ہمیں بھارت میں بھی لڑکیوں کو پسند کی شادی کرنے پر قتل کردینے کی اندوہناک کہانیاں سننے کو نہیں ملتیں۔ ہندوستان میں بڑی تعداد میں بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے رحم مادر میں قتل کردیا جاتا ہے، بے شک سربازار خواتین سے چھیڑ چھاڑ عام ہے، جب کہ گینگ ریپ کے واقعات کا تو کوئی شمار ہی نہیں، لیکن بیٹی کی پسند کی شادی پر اسے موت کے گھاٹ اتار کر دندناتے ماں باپ یا بھائی ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ اس کی وجہ سعودی، برطانوی، امریکی اور بھارتی سماج یک رنگ ہیں، جب کہ ہمارا دیہی معاشرہ سہ رنگا معاشرہ ہے۔ اگر ہم اپنے رنگے سماج کو ایک رنگ میں رنگ دیں تو ایسے واقعات کا سدباب ہوسکتا ہے۔
انگریز ہمیں زبان اور وضع قطع کے ساتھ زمین داری نظام بھی دے گئے۔ ہندوؤں کے ساتھ ایک ہزار سال رہنے کے سبب ذات پات کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اسلام ہمارا مذہب ہے اور ہم اپنی دینی روایات کے مکمل نہیں بلکہ کسی حد تک ہی پابند ہیں۔ آئیے ایک سوال سے مسئلے کو واضح کرتے ہیں۔ برٹش انڈیا کے مسلمان معاشروں میں لڑکیوں کے قتل کے واقعات کیوں پیش نہیں آتے تھے، معاشرہ ایک رنگ میں رنگا ہوا تھا۔
سعودی معاشرہ بڑی حد تک اسلامی رنگ میں ڈھلا ہوا ہے تو وہاں بھی ایسے واقعات پیش نہیں آتے۔ انگلینڈ میں رات دو بجے بھی بیٹی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ آئے تو انگریز باپ غیرت کے چکر میں نہیں پڑتا۔ بھارت میں بھی اگر بیٹی والدین کی مرضی کے خلاف غیر مذہب یا غیر برادری میں شادی کرے تو ماں باپ افسوس کرکے یا روپیٹ کر صبر کرلیتے ہیں۔ ہمارے معاشروں بالخصوص دیہی معاشروں میں غیرت کے نام پر بیٹی تو قتل کردینے کے دردناک پے در پے واقعات سوچ بچار اور حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
جاگیردارانہ نظام میں زمین کے بٹوارے سے بچنے کے لیے آپس میں کزنز کی شادیاں کروائی جاتی ہیں، پچاس کے عشرے کی ان پڑھ لڑکیاں انھیں کسی طرح قبول کرلیتی تھیں، اب زمینداروں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو تعلیم دینی شروع کردی ہے۔ بیٹی کی ہر فرمائش پوری کرنے والے والدین اپنی بیٹی کو اس کی پسند کی شادی کا حق دینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف لڑکی اپنے اونگے بونگے بدمزاج یا جاہل کزن سے بیاہنے کو تیار نہیں۔ یوں یہ مسئلہ معاشرے کی دو رنگی سے جنم لے رہا ہے، زمین کے بٹوارے اور برادری کا کوئی مسئلہ برطانیہ، سعودی عرب اور امریکا کے شہریوں کو پیش نہیں آتا، ان کے معاشروں میں یکسوئی ہے، ایسی ہی یکسوئی ہمیں پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
دوسری برادری، دوسری قوم یا دوسری زبان کے علاوہ دوسرے مسلک میں شادیاں شہری علاقوںمیں عام ہیں، مشہور و معروف لوگوں یا عام لوگوں کا سروے کروایا جائے تو میاں بیوی الگ صوبوں، الگ تہذیب و ثقافت کے دکھائی دیںگے۔ غیرت کے نام پر قتل زیادہ تر دیہی علاقوں یا پاکستان کے چھوٹے شہروں میں ہوتے ہیں، اس کا سبب دیہی پس منظر رکھنے والوں کا کنفیوژن ہے، وہ ترقی بھی کرنا چاہتے ہیں اور بچیوں کو تعلیم بھی دلانا چاہتے ہیں۔ ان کے گھروں میں ٹی وی چینلز بھی ہیں اور لڑکیوں کے پاس موبائل فون بھی، لیکن شادی کے لیے صرف اور صرف برادری۔ اب اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور بچیوں کو یونہی جاہل رشتے داروں کی جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھنے دیں؟ حکومت کے سماجی شعبوں کو آگے آنا چاہیے، اپنے صوبے کے ان علاقوں کو ٹارگٹ کرنا چاہیے جہاں ایسے واقعات زیادہ ہوتے ہیں۔ وہاں ترغیب، اشتہارات اور پروپیگنڈے کے ذریعے قائل کرنا چاہیے کہ دوسری برادری کا قابل لڑکا داماد بن کر بیٹے کا روپ دھار سکتا ہے۔
ماؤں کو سمجھانا چاہیے کہ اپنے عام شکل و صورت کے کند ذہن یا بدمعاش قسم کے بیٹے کے لیے اپنے بھائی، بہن یا نند و بھاوج کی خوبصورت، پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی بیٹی کے لیے ضد نہ کرے۔ بچیوں کو مارنے والوں کے قتل کا مقدمہ صرف اور صرف دہشت گردوں کی عدالت میں چلے اور صلح صفائی کے تمام راستے بند ہوں یا ان تجاویز پر غور اور پھر ان پر عمل در آمد کرے گا میرے وطن کے بہن بیٹیوں کا تحفظ۔