انسان کی حیثیت
جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آتا ہے ویسے ہی زندگی کے معمولات تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ISLAMABAD:
جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آتا ہے ویسے ہی زندگی کے معمولات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کھانے پینے اور سونے جاگنے کے علاوہ روزگار پر جانے اور آنے کے اوقات میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی پارک میں جائے اور واک کرے تو اس کی ٹائمنگ میں بھی فرق آجاتا ہے۔ اسکول کے زمانے میں ایک رمضان کی صبح ایسی کرکٹ کھیلی جس میں رنز بناکر دو ٹیموں کو مقابلہ کرنا تھا۔ وہ دوپہر اور پھر افطار تک کا وقت کیسے گزرا؟ وہ آج تک یاد ہے۔ یوں اب صبح کے بجائے رمضان میں شام کو لوگ واک کرتے دیکھے جاتے ہیں۔
بعد عصر پارک گئے تو چند لوگوں سے گیارہ مہینے بعد ملاقات ہوئی۔ نہ ہم انھیں یاد تھے اور نہ وہ ہمیں۔ سوا تین سو دنوں بعد دیکھا تو یاد آگئے۔ کون کس کو یاد رکھتا ہے؟ یہ ہے انسان کی حیثیت۔ ہمارے دوست ایڈووکیٹ اظہر غیور چار پانچ سال کی وکالت کے بعد امریکا چلے گئے۔ جب واپس آتے ہیں تو وکلا ان سے بڑی گرم جوشی سے ملتے۔ انھیں یاد آجاتا ہے کہ یہ بھی کبھی یہاں ہوا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں اظہر بھائی! کہ یہ سب لوگ آپ کو یاد رکھے بیٹھے تھے۔ ''آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل'' والی کیفیت ہوتی ہے۔ جب آپ سامنے آتے ہیں تو انھیں یاد آجاتا ہے کہ ''کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا''۔
گیارہ مہینے بعد ملنے والوں سے آدھے گھنٹے گفتگو کے بعد واک شروع کی تو ایک اور شناسا چہرہ مل گیا۔ بعداز عصر ایک گھنٹہ بڑا سہانا ہوتا ہے۔ سرفراز صاحب شام کی رمضان کی واک کے ایک ماہ کے ساتھی رہیں گے۔ وکیل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مقدمات کی وجہ سے بڑے بڑے قانون دانوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ حالات حاضرہ سے واقفیت اور تاریخ کا مطالعہ ان سے گفتگو کا مزہ دوبالا کردیتا ہے۔
ان سے بھی انسان کی حیثیت پر بات یوں ہوئی کہ کہنے لگے آپ کو ایک دو مرتبہ ٹی وی پر دیکھا ہے۔ ان سے کہا کہ اگر کالم لکھنا چھوڑ دیں تو چند لوگ کچھ دن یاد کرنے کے بعد بھول جائیں گے۔ کون کس کو یاد رکھتا ہے؟ پھر ان سے اے کے بروہی اور خالد اسحق جیسے اعلیٰ پائے کے قانون دانوں پر گفتگو ہوئی۔ ہماری وکالت کا ابتدائی زمانہ ان کے عروج کا دور تھا۔ قانون کی مشکل ترین گتھیاں ان کا ذہن چٹکیوں میں سلجھا دیتا تھا۔ دونوں آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اے کے بروہی کی صاحبزادیوں کی شادیاں ہوگئیں، یوں ان کی کمپنی قائم نہ رہی۔ خالد اسحق اپنی قانونی مہارت کے علاوہ اپنی لائبریری کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔
پرائیویٹ لائبریریوں میں ان کی لائبریری کا پاکستان میں کوئی ثانی نہ تھا۔ ان کے دونوں بیٹے بیرون ملک چلے گئے، جو اپنے والد کی وفات پر آئے تھے۔ اب نہ عدالتوں میں خالد اسحق اینڈ کمپنی کا نام ہے اور نہ ان کی لائبریری رواں دواں ہے۔ اس کی دیکھ بھال اور اسٹاف کی تنخواہ کے لیے ہر ماہ لاکھوں روپے چاہئیں، جو کون دے؟ خالد اسحق اور اے کے بروہی کے کچھ شاگرد ضرور ہوں گے جنھوں نے نام کمایا ہوگا اور وہ اپنے سینئرز کے احسان مند ہوں گے۔ اگر آج کے نوجوان وکلا سے اے کے بروہی اور خالد اسحق کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید ہی انھوں نے ان قانون دانوں کا نام سنا ہو۔ یہ ہے انسان کی حیثیت۔
پاکستان میں ایوب خان اور ایران میں شہنشاہ ایران کی کیا شان تھی۔ ایوب کا چھ فٹ سے نکلتا قد اور گورا چٹا رنگ۔ پاکستان کے حکمران اور ترقی کرتا پاکستان۔ یہاں ایوب حکومت کا دس سالہ جشن منایا جارہا تھا تو وہاں عوام میں ان کے خلاف بیزاری کی لہر ایک اندوہناک نفرت میں بدل رہی تھی۔ طلبا، مزدور، وکلا، صحافی سڑکوں پر آئے اور ایوب خان مارچ 69 میں اقتدار سے رخصت ہوگئے۔
یہی حال دس سال بعد شہنشاہ ایران کا ہوا۔ امریکا کے خفیہ ادارے شہنشاہ کی حکومت کو مضبوط قرار دے رہے تھے۔ ایران میں زوردار تحریک چلی اور شہنشاہ کو جلاوطنی پر مجبور ہونا پڑا۔ جس شہزادے کی تربیت کے لیے بہترین اساتذہ اور اعلیٰ ادارے قائم کیے گئے وہ تخت سے محروم ہوگیا۔ جس شہزادے کو آداب شہنشاہی سکھانے کے لیے برطانیہ اور جاپان کے شاہی خاندانوں میں بھیجا گیا اس کی تربیت دھری کی دھری رہ گئی۔ یہ ہے انسان کی حیثیت۔ اس سے بڑھ کر اگر آج کے پاکستانی بچوں کو ایوب خان کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید ہی سو میں سے ایک بچہ کچھ بتا سکے۔ اسی طرح ایرانی اسکولوں کے طالب علموں کو رضا پہلوی نام کا کوئی شہنشاہ یاد نہ ہوگا۔ ہم نہ جانے کس بات پر اکڑتے ہیں اور کن باتوں پر اتراتے ہیں کہ یہ ہے انسان کی حیثیت۔
بی کام کے بعد ہمارا دوست منیر اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلا گیا۔ احمد فراز کی اسی دور میں کتاب ''جاناں جاناں'' شایع ہوئی تھی جس کا ایک شعر منیر اکثر اپنے خطوط میں لکھتا۔ یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آتا ہے، کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں۔ شادی کارڈ بھیجا تو منیر نے زندگی کی بڑی حقیقت لکھ بھیجی۔ ''وقت کا پہیہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ نہ کسی کا انتظار کرتا ہے اور نہ کسی کے لیے رکتا ہے۔'' رشتوں کے حوالے سے خوش فہمی اور کبھی کبھار خود فریبی انسان کو مار دیتی ہے۔
وہ سمجھ کچھ اور رہا ہوتا ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کی دو چیزیں ذہن میں رکھیں تو انسان کی حیثیت ہمارے سامنے رہتی ہے۔ ٹیلی فون ڈائریکٹریاں جو کسی زمانے میں بڑی اہم دستاویز ہوتی تھیں اور تقریبات جن کے ہم میزبان رہے ہوتے ہیں۔ موبائل فون نے بہت ساری چیزوں کی طرح ٹیلی فون ڈائریکٹری کو بھی ختم کردیا ہے۔ اگر کچھ یاد آئے کہ ہر دو چار سال بعد ہمارے عمومی دوستوں میں تبدیلی ہوجاتی تھی۔ چند خصوصی دوست اور ان کے فون نمبرز ہر ڈائریکٹری کا حصہ رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح ہماری تقریبات کے اکثر مہمان بھی تبدیل ہوتے دکھائی دیں گے۔ زندگی میں بعض نازک مواقع آتے ہیں جب ہم اپنے دوستوں سے سر راہ دور سے ہیلو ہائے کرکے گزر جاتے ہیں۔ یہ وہ دوست ہوتے ہیں جن کے ساتھ کبھی ہماری زندگی کے روزانہ کے نو دس گھنٹے ساتھ گزرے ہوتے تھے۔ اب اگر جاب تبدیل ہوگئی یا دلچسپیاں مختلف ہوگئیں تو پرانے دوست سے کس موضوع پر بات کریں۔
ایوب خان اور شہنشاہ ایران جیسے حکمرانوں کی بات کرنے کے بعد اب کالم نیا رخ لے رہا ہے۔ بھلا دینے کی بات ادھوری، جی ہاں ادھوری اور بالکل نامکمل بات ہے۔ جن لوگوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کیے ہوتے ہیں وہ صدیوں تک نہیں بلکہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود بھی انسانوں کو یاد رہتے ہیں۔ رہنما ہوں یا اصلاح کرنے والے، سائنسدان ہوں یا خدمت خلق کرنے والے، ایسے لوگ تادیر یاد رہتے ہیں۔
اب تک دنیا سے گزر جانے والے اربوں انسانوں میں ان کی تعداد ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔ سمندر کے مقابلے میں موتی کے چند قطرے۔ ہم عام انسان کس شمار و قطار میں ہیں؟ آج مرے اور کل دوسرا دن۔ پانی کے بلبلے اس انسان کو کس بات کا غرور اور کس کامیابی کا گھمنڈ ہے۔ کل لاٹھی، پرسوں وہیل چیئر اور پھر کومے کے بعد قبر۔ یہ ہے انسان کی حیثیت۔