خواتین کا وقت
کالم کا یہ عنوان دیکھ کر آپ یہ نہ سمجھیں کہ کہا جا رہا ہے کہ خواتین کے لیے وقت ٹھہر جاتا ہے
کالم کا یہ عنوان دیکھ کر آپ یہ نہ سمجھیں کہ کہا جا رہا ہے کہ خواتین کے لیے وقت ٹھہر جاتا ہے۔ لطیفہ ہے کہ صنف نازک کی عمر اٹھارہ سال کے بعد نہیں بڑھتی لہٰذا خواتین کا شناختی کارڈ ہونا ہی نہیں چاہیے۔ یہ ہنسی مذاق کی بات ہے لیکن آج ہم بچیوں کے حوالے سے سنجیدہ موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ وہ شادی شدہ عورتیں جن کے گھر ابتدائی برسوں میں مسائل کا شکار ہوں۔
والدین رشتہ باقی رکھنے اور توڑ دینے کے حوالے سے فیصلہ نہیں کرسکتے یوں بعض اوقات تین چار سال اور کبھی کبھی پانچ چھ برس بھی گفتگو، مذاکرات اور سوچنے میں ضایع کردیتے ہیں۔ اگر لڑکیوں کے لیے ازدواجی زندگی کے بہترین بیس سال سمجھے جائیں تو والدین نے ایک چوتھائی وقت اپنی فیصلہ سازی کی کمزوری کے سبب گنوا دیا ہے۔ بیس سال کی عمر سے چالیس سال کی عمر کو عروج کے برس سمجھا جائے تو؟ والدین نے رشتے کے انتخاب میں غلطی کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کیا۔ اندازے اور قیاس میں، خامی کا امکان وہاں زیادہ ہوتا ہے جہاں دو بالکل اجنبی خاندان آپس میں اپنے بچوں کی شادی کر رہے ہوتے ہیں۔ ناچاقی کے بعد کسی فیصلے تک نہ پہنچنے کا سبب بھی یہی دوری ہوتا ہے۔
وکالت کے ابتدائی برسوں میں شہناز کا مقدمہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ شوہر نے دبئی جانے کے بعد دوسری شادی کرلی تھی۔ اب نہ وہ خرچہ بھیجتا اور نہ رابطہ کرتا۔ نازک مسئلہ یہ تھا کہ یتیم لڑکی کی والدہ کو کینسر تھا۔ ایک رستہ موجود تھا اگر عدالت سے خلع لے لی جائے۔ ہم نے محترمہ نزہت آرا علوی کی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ ہمارے پاس صرف کراچی کا پتہ تھا۔ دبئی میں لڑکا کہاں رہتا ہے؟ یہ شہناز کے علم میں نہ تھا۔ ہم نے کراچی کے پتے پر ڈاک کے ذریعے اور بیلف کی معرفت سمن بھجوائے۔ جواب آیا کہ لڑکا ملک سے باہر ہے۔
کئی مرتبہ کی مشق کے بعد طلبی کے لیے اخبار میں اشتہار کی اشاعت کی درخواست دی۔ اس طرح چھ ماہ گزر گئے۔ کسی طرح سے دوسری پارٹی اور ان کا وکیل نہ آیا۔ عدالت میں ہماری فائل گلابی رنگ کی تھی۔ ہم عدالت میں بیٹھے اپنے مقدمے کی باری کے منتظر تھے کہ اشتہار کے حوالے سے حکم ہو تو یکطرفہ کارروائی ہوجائے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک منشی کو پیش کار ہماری فائل دکھا رہا تھا۔ قریب جاکر دیکھا تو گلابی رنگ کی فائل ہماری ہی تھی۔ حیرانگی ہوئی کہ جب دوسری جانب سے کوئی نہیں آیا تو عدالتی اہلکار کسی کو تفصیل کیوں بتا رہا ہے۔
قریب جاکر دیکھا تو پیشکار اس منشی سے کہہ رہا تھا کہ اب لڑکی والوں نے اخبار میں اشتہار کی اشاعت کی درخواست دی ہے۔ میں نے منشی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کے ہاتھ سے ڈائری لے لی۔ اس نے حیرانگی سے دیکھا تو اس سے کہا کہ پیچھے کرسی پر بیٹھ جاؤ اور عدالت سے جانا نہیں۔ ڈائری دیکھی تو پتہ چلا کہ یہ منشی ہمارے مقدمے کا تعاقب کرتا نظر آیا۔ جب مقدمے کی تاریخ ہوتی وہ ڈائری کے کونے پر مقدمے کا نمبر لکھ دیتا۔ چھ ماہ گزر گئے تھے۔ اب اگر دوسری جانب سے وکیل آتا تو مزید چند ماہ لگ جاتے۔ جج صاحبہ فارغ ہوئیں تو انھیں پوری صورتحال بتائی۔
انھوں نے غصے سے پیش کار کی طرف دیکھا اور منشی کا نام اور ڈائری میں درج دیگر تفصیلات لکھ کر انھیں عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا۔ منشی کو عدالت سے باہر بلایا اور کہا کہ تم لوگوں نے غیر قانونی کام کیا ہے۔ اب اگر کسی وجہ سے مقدمے میں تاخیر ہوئی تو میں تمہاری کمپنی کے خلاف بار کونسل، تمہارے خلاف بار ایسوسی ایشن اور پیش کار کے خلاف ڈسٹرکٹ جج کے روبرو درخواست دوں گا۔ یوں اس دن کے بعد کوئی نہ آیا۔ یکطرفہ فیصلے کے بعد شہناز نے عدت گزاری اور اس کی شادی ہوگئی۔ دو ہفتے بعد شہناز کی والدہ انتقال کرگئیں۔ اگر مقدمے میں مزید تاخیر ہوتی تو نہ جانے شہناز کا گھر بس پاتا؟ یہ ہوتی ہے لڑکیوں کی زندگی میں وقت کی اہمیت کہ بڑا قیمتی ہوتا ہے خواتین کا وقت۔
ثوبیہ کا خلع کا مقدمہ شادی کے دو ماہ بعد ہی دائر ہوا۔وکلا عموماً لڑکیوں سے ان کی شکایات اور خواہش اردو میں لکھوا لیتے ہیں۔ پھر اس تحریر کی بنیاد پر عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہیں۔ خاص طور پر نازک معاملات میں تاکہ جو کچھ لڑکی نے کہا ہے وہ اس کی اپنی لکھی ہوئی داستان کی شکل میں عدالت کے سامنے آجائے۔ لڑکے والوں نے اعتراض نہ کیا۔ ان کی خاتون وکیل کا فون آیا کہ معاملہ جلد ازجلد حل کرنا چاہتے ہیں۔
جہیز کی دی گئی فہرست کا سامان اتوار کو واپس کردیا گیا۔ ہماری فرم کے ایک ساتھی اس موقع پر موجود تھے۔ دو دن بعد عدالت میں پیشی تھی۔ وہاں زیورات کا بھی تبادلہ ہوگیا، سوائے سونے کے ایک سیٹ کے۔ لڑکے والوں کا کہنا تھا کہ آج مقدمہ ختم کروالیں، ہم سیٹ دو دن بعد دے دیں گے۔
یہ مشکل فیصلہ تھا۔ ان سے کہا کہ گھر قریب ہے، آدھے گھنٹے میں زیور لے آئیں تو تمام کام آج ہی ہوجائیں۔ یوں تمام معاملات کے طے ہونے کے بعد فائل جج صاحب کے روبرو پیش کی گئی تو انھوں نے پوچھا کہ عدت کی رقم لڑکی کو مل گئی؟ ایک ماہ میں خلع اور لاکھوں کا جہیز و زیور ملنے پر ہم بہت کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرچکے تھے۔ پھر بھی معاملہ لڑکی پر چھوڑ دیا، جس نے تین ماہ کی عدت کی رقم چھوڑ دی۔ یوں لڑکی اور اس کے والدین نے جلد ازجلد فیصلہ کرلیا۔ عید کے بعد ثوبیہ کی شادی ہے۔
اب دو مقدمات مختصراً جس میں ایک میں مناسب وقت لیا گیا اور ایک میں بہت تاخیر کی گئی۔ طوبیٰ کی اپنے شوہر مدثر سے نہیں بنتی تھی۔ ان کی ایک بیٹی تھی۔ ہم نے خلع کا مقدمہ دائر کیا تو مدثر نے بچی کو تحویل میں لینے کا کیس دائر کردیا۔ لڑکے نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اپنے سسر کے خلاف پیسے کے لین دین کا مقدمہ سول عدالت میں دائر کیا۔ ایک کسی حد تک غیر مناسب اور دو مناسب مقدمات عدالتوں کے روبرو تھے۔ یوں مدثر نے رشتہ برقرار رکھنے کے تمام مواقع ختم کردیے۔ طوبیٰ کی خلع کے بعد دوسری جگہ شادی ہوگئی۔ اس کی بیٹی نانا کے پاس ہے۔ سرپرست بننے کے لیے نانا کی درخواست میں مدثر کا بیان ہوا تو پتہ چلا کہ اس نے بھی دوسری شادی کرلی ہے۔
احمد سمیع کی بیٹی ثنا کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔ ان کا داماد نہ اپنے بیٹے پر توجہ دیتا ہے اور نہ بیوی پر۔ غیر ذمے داری کی حد یہ ہوئی کہ جب احمد صاحب اپنے نواسے کی بیماری پر اسے اسپتال لے کر جا رہے تھے تو وہ نہ آیا۔ ثنا نے اپنے شوہر یاسر کو بچے کی حالت کا بتایا تب بھی کوئی تشویش نہ تھی۔ ایک گھنٹے بعد اس سے رابطہ نہ ہوا کہ وہ موبائل فون بند کرکے اپنے دوست کے دفتر جاکر سو گیا تھا۔
چھ سال سے ثنا کے والد رشتے کو بچانے کی کوششوں میں ہیں۔ ایک فورم سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے۔ اب یاسر نے اپنے سسر کو گالیوں بھرے پیغامات بھیجے تو وہ لڑکے والوں سے طلاق اور نوازے کے خرچے کی بات کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی یہ مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن اس دوران ثنا کے قیمتی چھ سات سال ضایع ہوگئے۔ یہ درست ہے کہ رشتے کے خاتمے میں جلد بازی نہیں ہونی چاہیے بالخصوص جہاں بچے ہوں لیکن غیر ضروری تاخیر بھی ضایع کردیتی ہے خواتین کا وقت۔