موسم

گرمی اور سردی کے موسم‘ بہار اور برسات کی طرح برصغیر کی حد تک ہر سال آتے اور جاتے ہیں


Amjad Islam Amjad May 12, 2016
[email protected]

TOKYO: اللہ بخشے مرحوم انتظار حسین اکثر گرمیوں کے آغاز میں کم از کم ایک کالم میں یہ شعر ضرور درج کیا کرتے تھے کہ

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ

فرق صرف یہ ہے کہ انھیں یہ وضاحت نہیں کرنا پڑتی تھی کہ چوٹی سے ایڑی تک کا مطلب ''سر سے پاؤں تک'' ہے اور اس کا تعلق کسی پہاڑ کی چوٹی سے نہیں ہے جب کوئی زبان اپنی تہذیب' تاریخ اور ثقافت کے حوالوں کے بغیر صرف زبان کے طور پر (اور وہ بھی رسمی طور پر) پڑھائی اور لکھائی جائے تو اس طرح کی صورت حال سچ مچ پیدا ہو جاتی ہے۔ میر صاحب نے کیا کمال کا شعر کہا ہے کہ

جن بلاؤں کو میر' سنتے تھے
ان کو اس روز گار میں دیکھا

گرمی اور سردی کے موسم' بہار اور برسات کی طرح برصغیر کی حد تک ہر سال آتے اور جاتے ہیں اور اگرچہ اب ان کی جزوی سختیوں سے نمٹنے کے لیے بہت سی چیزیں بھی ایجاد ہو گئی ہیں مگر دوسری طرف فطرت سے چھیڑ چھاڑ اور توانائی کا بحران بھی اپنا اپنا کام دکھا رہے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ اے سی' کولر یا برقی پنکھے کے بغیر لوگ ساری گرمیاں گزار لیتے تھے لیکن اب ان کی شدت پہلے سے زیادہ محسوس ہونے لگی ہے کہ رات اور دن میں تقریباً چھ بار ایک ایک گھنٹے کے لیے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، مان لیجیے کہ دس سے پندرہ فی صد تک لوگ جنریٹر یا یو پی ایس کی مدد سے کسی حد تک اس کا تسلسل بحال کر لیتے ہیں مگر باقی کی خلق خدا کے لیے اس اذیت کا اثر دوگونہ ہو جاتا ہے کہ پستی میں رہنے اور بلندی سے واپس پستی میں گرنے کا تجربہ بہت مختلف ہوتا ہے، نام نہاد گلوبل وارمنگ اپنی جگہ مگر وطن عزیز میں ہم نے جس بے دردی سے جنگل کاٹے اور کچھ ''شرفا'' نے بیچ کھائے ہیں اس نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ شہروں کے بیشتر باغات اور درخت رہائشی اسکیموں اور سرکاری منصوبوں کی بھینٹ چڑھ گئے جب کہ گیس اور بجلی کی کمی اور مہنگائی نے غریب آدمی کے لیے گرمی کا موسم دو آتشہ کر دیا ہے۔

اس برس اس موسم میں مزید گرمی پنامہ لیکس نے پیدا کر دی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں قمیصیں اتار کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاسی تنازعات صرف چند مخصوص پروگراموں تک محدود اور مخصوص تھے پھر یہ دائرہ پھیلنا شروع ہوا اور اب یہ عالم ہے کہ خبرنامے یا نیوز بلیٹن بھی میدان جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں ''خاص خبر'' کا تصور ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

آپ کسی بھی چینل کا خبرنامہ سن لیجیے آپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ کون سی خبر اپنی ہے اور کون سی پرائی۔ وکی لیکس ہو' پنامہ لیکس یا مستقبل میں سامنے آنے والی کوئی اور لیکس اصل دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان کا مقصد اور طریقہ کار کیا ہے اور یہ کہ کیا ان کا بیان کردہ سچ واقعی پورا سچ ہے اور اگر ایسا ہے تو ہم سب کو مل کر ان خرابیوں اور برائیوں کا سدباب کرنا چاہیے جو کسی بھی وجہ سے' دانستہ یا نادانستہ ہمارے کچھ طبقوں میں رواج پا گئی ہیں، اگر کچھ دیر کے لیے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آف شور کمپنیوں کا مکارانہ نظام عالمی معیشت کے ٹھیکیداروں نے خود اپنے مفادات کے لیے وضع کیا تھا اور اسے ایک نیم قانونی شکل بھی دے دی تھی تو اس کے بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے کہ ان کمپنیوں میں جو رقومات رکھی گئیں ان کی اپنی قانونی حیثیت کیا تھی؟ لیکن کالم جذبات' نعرہ بازی اور دشنام طرازی کے بجائے تحمل اور تحقیق کا طالب ہے۔

آئس لینڈ کے وزیراعظم یا ڈیوڈ کیمرون کی مثال شاید تیسری دنیا کے ملکوں کے مخصوص تاریخی اور سیاسی پس منظر کی وجہ سے وہاں پوری طرح قابل عمل نہ ہو سو مل جل کر کوئی حل نکالنا اور وضع کرنا چاہیے کہ اصل مقصد خیر کا حصول اور برائی اور اس کے محرکات اور سہولت کاری نظام کا خاتمہ ہے۔ نیری گرما گرمی سے یہ موسم مزید طویل ہوتا جائے گا۔ آئیے دیکھیے کیا کہتے ہیں ''محبت کے موسم'' بیچ اس مسئلے کے۔

محبت کے موسم
زمانے کے سب موسموں سے نرالے
بہار و خزاں ان کی سب جدا
الگ ان کا سوکھا' الگ ہے گھٹا
شب و روز عالم کے احکام کو
یہ محبت کے موسم نہیں مانتے
زندگی کی مسافت کے انجام کو
یہ محبت کے موسم نہیں مانتے
رفاقت کی خوشبو سے خالی ہو جو
یہ کوئی ایسا منظر نہیں دیکھتے
وفا کے علاوہ کسی کام کو
یہ محبت کے موسم نہیں مانتے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔