ایک کڈنی سینٹر کی کہانی
سیکیورٹی کے انتظامات اس قدر سخت تھے کہ تقریب کے تاخیر سے شروع ہونے کے باوجود بہت سے لوگ ہال میں داخل نہ ہو سکے
22 سے 24 اپریل تک نیشنل بک فاؤنڈیشن نے عالمی یوم کتاب کے حوالے سے حسب معمول سہ روزہ تقریبات کا اہتمام کیا جس کا عنوان قومی کتاب میلہ رکھا گیا اور جس کا افتتاح پاک چائینہ فرینڈ شپ سینٹر اسلام آباد میں صدر مملکت ممنون حسین صاحب نے کیا اور جس کے روح رواں وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی اور منتظم ادارے کے ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید تھے۔
سیکیورٹی کے انتظامات اس قدر سخت تھے کہ تقریب کے تاخیر سے شروع ہونے کے باوجود بہت سے لوگ ہال میں داخل نہ ہو سکے، بعد میں کسی نے بتایا کہ یہ ساری ہٹو بچو اصل میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے لیے تھی جو اپنی سیاسی مصروفیات کے باعث شامل نہ ہو سکے۔ وجہ کوئی بھی ہو ضرورت سے زیادہ کسی بھی چیز کی زیادتی تکلیف دہ ہو جاتی ہے اس طرح کا پروٹوکول تو آج کل مہذب ملکوں کے بادشاہ بھی نہیں لیتے جس کا مظاہرہ تیسری دنیا کے عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ سربراہان مملکت کی آمد پر کیا جاتا ہے۔
عام طور پر اس تام جھام کو سیکیورٹی ایجنسیوں کے طریق کار اور احتیاطی تدابیر کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن کیا امریکا اور برطانیہ میں اس طرح کی ایجنسیاں نہیں ہوتیں۔ وقفے وقفے سے ہمارے حکمرانوں کی طرف سے بھی آیندہ غیر ضروری پروٹوکول نہ لینے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن اس کی شکل مولانا حالی کے اس شعر جیسی ہی ہوتی ہے کہ
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
میں صرف پہلے ڈیڑھ دن کی تقریبات ہی میں شامل ہو سکا کہ مجھے اور انور مسعود کو 23 اپریل کی شام ایبٹ آباد میں پاکستان ویلفیئر سوسائٹی (ٹرسٹ) کے قائم کردہ کڈنی سینٹر کی ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں شامل ہونا تھا جس کا ہم نے منتظمین سے کئی ماہ قبل سے وعدہ کر رکھا تھا۔ یہ سینٹر جدہ (سعودی عرب) اور کچھ مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں نے مل کر ایک سال قبل شروع کیا تھا جن میں سے کئی اس پہلی سالگرہ میں شرکت کے لیے خاص طور پر اپنے خرچے پر وہاں پہنچے تھے۔
معلوم ہوا کہ اس کے لیے اڑھائی کنال پر مشتمل قطعہ اراضی ٹرسٹ کے چیئرمین ڈاکٹر خلیل الرحمن نے عطیہ کیا تھا جب کہ اس کی اعلیٰ تعمیر اور بہترین مشینری کے اخراجات ان چند نیک دل لوگوں اور ان کے احباب نے مل کر اٹھائے تھے جہاں فی الوقت روزانہ تیس سے چالیس مریضوں کو ہیپاٹائٹس بی اور سی کے علاج کے ساتھ ساتھ ڈائیلاسس کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے جس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ تقریباً 73% غریب مریضوں کا علاج بالکل مفت اور بقیہ صاحب حیثیت لوگوں سے صرف 4000 روپے وصول کیے جاتے ہیں جو عام پرائیویٹ اسپتالوں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم بنتے ہیں جب کہ یہاں نصب شدہ مشینیں اور دیگر سہولیات سعودی عرب کے کسی اعلیٰ درجے کے اسپتال سے کم نہیں۔
تقریب میں کی جانے والی تقریروں' تقسیم کیے جانے والے بروشر اور دکھائی جانے والی ڈاکیو مینٹری سے پتہ چلا کہ اس سینٹر کا بنیادی محرک اکتوبر 2005 کا پاکستان اور آزاد جموں کشمیر میں آنے والا وہ تباہ کن زلزلہ تھا جس کے احساس زیاں نے قومی محبت اور جذبہ خدمت کو مہمیز کیا اور یوں جدہ میں 2006 میں تارکین وطن' پاکستانی ڈاکٹروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ محب وطن اور انسان دوست ساتھیوں نے اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، یہ لوگ جدہ میں پندرہ روزہ فری میڈیکل کیمپ بھی لگاتے ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں گردوں کی بیماریوں کے بہترین اور سستے علاج کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان ویلفیئر سوسائٹی کے زیر اہتمام صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد (ہزارہ ڈویژن) میں گردوں سے متعلقہ بیماریوں کے لیے خصوصی طور پر پاکستان کڈنی سینٹر قائم کیا گیا ہے۔
کراچی میں ڈاکٹر ادیب رضوی کے مثالی کڈنی اسپتال کے علاوہ سرکاری اور رفاعی اداروں کے تحت اب گردوں کے علاج کی سہولیات میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن یہ اب بھی ضرورت سے کم ہے اور بالخصوص چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں میں تو ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہیں ایسے میں یہ دیکھ کر بہت خوشگوار اور حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ اس سے علاقے کے مخیر' صاحب ثروت اور اہل دل لوگوں نے اپنی ذاتی کوشش سے نہ صرف اس نظرانداز کردہ علاقے میں ایسا عمدہ اور State of Art قسم کا کڈنی سینٹر بنا لیا بلکہ اب وہ اسے خوش اسلوبی سے چلانے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شعبوں اور سہولیات کا اضافہ بھی کرتے جا رہے ہیں۔