ہتھ جوڑی
نواز شریف اور عمران خان ایک بار پھر ایک دوسرے کے مقابل ہیں
نواز شریف اور عمران خان ایک بار پھر ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ پانامہ لیکس کے ہنگامے نے دونوں کو پنجہ آزمائی کا موقع دیا ہے۔ ان دونوں شخصیات کے علاوہ کوئی تیسرا ایسا شخص نہیں جو وزارت عظمیٰ کا اتنا سنجیدہ امیدوار ہو۔ 2013 کے انتخابات میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والی پارٹیوں کے سربراہان بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
لندن میں ایک طرف عمران کی سابقہ ساس کے گھر کے سامنے نواز شریف کے حامیوں کا مظاہرہ تھا تو دوسری طرف لندن ہی میں عمران خان اپنے مخالف کے خلاف تنقید کے تیر برسا رہے تھے۔ کیا یہ آج کی محاذ آرائی ہے؟ عمران کی بیس سالہ سیاست میں ان کا سب سے بڑا ہدف نواز شریف بھی رہے ہیں۔ جب مشرف اور زرداری حکمران رہے ہیں تو شدت میں کچھ کمی آجاتی تھی۔
جوں ہی مسلم لیگ اقتدار کے ایوانوں میں آتی ہے ویسے ہی تحریک انصاف کی رائے ان کے خلاف ہوجاتی، جو رائے ونڈ کے باسی ہوتے ہیں۔ نواز شریف نے کبھی عمران خان کو ہلکا نہیں لیا۔ چھ ماہ کی پارٹی جب انتخابات میں اتر رہی تھی تو پہلے نواز شریف نے پندرہ بیس نشستوں کی پیش کش کی۔ کیرٹ اور سٹک کے کھیل میں کیرٹ سے نہ بہلنے والے کے لیے لاٹھی سامنے لائی گئی۔ ایک صاحب کو عمران کی نجی زندگی کے حوالے سے پروپیگنڈے کا مشن سونپا گیا۔ کیا یہ کشمکش دو عشروں پر محیط ہے؟ آج کی محاذ آرائی کو سمجھنے کے لیے دو شخصیات کی زندگی کو دیکھتے ہیں۔
76 میں سڈنی کے میدان میں عمران نے بارہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے بین الاقوامی سطح پر نام کمایا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف لاہور چیمبر آف کامرس میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگلے پانچ برسوں میں عمران نے کرکٹ کی بلندیوں کو چھونا شروع کیا۔ نواز شریف بھی پیچھے نہ رہے، وہ پنجاب کے وزیر خزانہ بن گئے اور اگلے چار برسوں میں صوبے کے وزیراعلیٰ۔
کرکٹ ٹیم کی کپتانی اور صوبے کی سربراہی دو مختلف میدان تھے۔ اس کشمکش کے دلچسپ حصے کو پڑھنے سے پہلے دو باتیں جاننا لازمی ہیں۔ قارئین بیس سال، چالیس سال یا ساٹھ سال کے آس پاس ہوں گے۔ نوجوانوں کے لیے سب کچھ نیا ہے۔ بال بچے والوں کو سیاست کی خبر براہ راست ہے جب کہ عمران کی کرکٹ و نواز شریف کی صوبے کی سربراہی سے واقفیت تاریخ کے ذریعے ہوئی ہے۔ بزرگوں کے تو سامنے سب کچھ پیش آیا ہے۔ یہ پہلی بات ہے۔ دوسری بات ایک جھولے کی مثال ہے۔ کبھی ایک حصہ اوپر ہوتا ہے تو دوسرا نیچے اور کبھی دونوں برابر بھی آجاتے ہیں۔ عمران اور نواز کی کشمکش ایسے جھولے کی مانند ہے۔
عمران نے کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تو نواز شریف نے پنجاب کی سیاست میں اپنے آپ کو تسلیم کروایا۔ نوے میں نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم بن گئے تو دو برسوں بعد عمران کی قیادت میں کرکٹ ٹیم ورلڈ چیمپئن بن گئی۔ اگلے تین برس دونوں حریفوں نے انوکھے انداز میں گزارے۔ نواز شریف پہلی مرتبہ اپوزیشن میں تھے۔ ان کی وزیراعظم بینظیر بھٹو سے کشمکش جاری تھی، عمران بھی اپنی زندگی کے مختلف دور سے گزر رہے تھے۔ وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے۔
ایک طرف اسپتال کی تعمیر مکمل ہوئی تو دوسری طرف نواز شریف کے دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہونے لگی۔ یہاں تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تو دوسری جانب نواز شریف نے ایک مقبول اور کرشماتی شخصیت کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ یوں سڈنی کے میدان سے آسٹریلوی بلے بازوں کے ساتھ محاذ آرائی دو عشروں بعد پنجاب کے میدانوں میں ایک مقبول وزیراعظم سے محاذ آرائی میں بدل گئی۔ یہاں ہم ایک شخصیت کا تذکرہ کیے بغیر عمران خان اور نواز شریف کا تذکرہ مکمل نہیں کر سکتے۔
جنرل ضیا کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے دونوں صنم آج پاکستانی سیاست کے بت خانے کے دو بڑے ''بھگوان'' بنے بیٹھے ہیں۔ ضیا الحق کے دو جملے یا دو فیصلے نہ ہوتے تو آج پاکستان کی سیاست بالکل مختلف ہوتی۔ 85 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ کا فیصلہ کرنا تھا۔ اس وقت تک اس منصب پر اکثر جاگیردار ہی بیٹھتے رہے تھے۔ پہلی مرتبہ نواز شریف کی شکل میں ایک نوجوان صنعت کار سامنے آیا۔ زمینداروں نے پسند نہ کیا لیکن جنرل ضیا کے ایک جملے نے بازی پلٹ دی۔ ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط ہے''۔ صرف ایک جملہ پاکستان کی سیاست پر اب تک چھایا ہوا ہے۔ عمران خان 87 کے ورلڈ کپ کے بعد ریٹائرڈ ہو رہے تھے۔
جنرل ضیا کی درخواست پر انھوں نے کرکٹ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے طنزاً کہا کہ ''اب صدر کا یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی ریٹائرمنٹ کے فیصلے واپس کرواتا پھرے۔'' یوں عمران نے کرکٹ جاری رکھی۔ اگر ضیا یہ فیصلہ نہ کرواتے تو عمران کے کریڈٹ پر نہ ورلڈ کپ کی کامیابی ہوتی اور نہ شوکت خانم اسپتال کی تعمیر اور نہ تحریک انصاف کا قیام ۔ یوں آج کی سیاست میں اگر بھٹو کے داماد اور نواسے موجود ہیں تو جنرل ضیا کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے بھی موجود ہیں۔ دو مقبول سیاستدان جنھیں ستر فیصد سے زیادہ پاکستانی عوام پسند کرتے ہیں۔
اسکول جانے والے بچوں کے والدین ادھورے اور بزرگ ان واقعات سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ نوجوان قارئین کے لیے یہ باتیں نئی اور انوکھی ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کی کشمکش کا پچھلا بیس سالہ دور بھی مار دھاڑ سے بھرپور ہے۔ پانامہ لیکس پہلا واقعہ نہیں بلکہ کئی واقعات کی ایک کڑی ہے۔ پچھلی صدی کے آخری تین سال نواز شریف کے عروج کے تین سال تھے۔
دو تہائی اکثریت کے علاوہ صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے الجھاؤ کو کامیابی سے سلجھا چکے تھے۔ دونوں کے استعفوں نے نواز شریف کو پراعتماد بنادیا تھا۔ جنرل جہانگیر کرامت کے ایک بیان پر استعفیٰ لے کر وہ ہیٹ ٹرک مکمل کرچکے تھے یوں نواز شریف پاکستان کی تاریخ کے مضبوط ترین وزیر اعظم بن چکے تھے۔ اسلام آباد کا وہ حکمران جس کا سگا بھائی پنجاب کا وزیراعلیٰ ہو، اس دور میں عمران کی تنقید کو مسلم لیگ کوئی اہمیت نہ دیتی تھی۔ نئی صدی میں مشرف کا دور آیا تو دونوں لاہوریوں کی لڑائی کی شدت میں کمی آگئی۔
بینظیر اور نواز شریف کی جلاوطنی کے خاتمے کے بعد دور مشرف کے انتخابات نے خان اور میاں میں ایک بار پھر دوریاں پیدا کر دیں۔ عمران نے اپنے انتخابات کے بائیکاٹ کو نواز شریف کا فیصلہ بدلنا قرار دیا۔ وکلا تحریک میں ججوں کی بحالی کے بعد تحریک کے خاتمے کے یکطرفہ فیصلے نے بھی دونوں لیڈروں میں فاصلے پیدا کردیے۔ اصل گرما گرمی 2011 کے سرد موسم سے ہوئی جب عمران نے مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کیا۔
دو لاہوری تخت لاہور میں مقبولیت کے بعد اسلام آباد کے ایوان کے لیے برسر پیکار ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے بعد دھرنا بھی ایک پڑاؤ تھا۔ اب پانامہ لیکس کے ہنگامے نے بازار ایک بار پھر گرم کردیا ہے۔ ایک ہی زمانے میں اور ایک ہی شہر میں جنم لینے والی اور ساتھ ساتھ مختلف میدانوں میں مقبولیت حاصل کرنے والے دونوں لیڈر مختلف مزاج، وژن اور پالیسیوں کے علمبردار ہیں۔ پاکستانی سیاست کے نسبتاً پرسکون تالاب میں پانامہ لیکس کے پتھر نے ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ دوسری پارٹیاں ہلکی پھلکی موسیقی چاہتی ہیں جب کہ تحریک انصاف پکے راگ گانا چاہتی ہے۔ دیگر سیاسی لیڈر ہلکا ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں تو عمران پنجہ آزمائی کا سوچ رہے ہیں۔ شاید کہ اردو کے پنجہ آزمائی کو پنجابی زبان میں ہتھ جوڑی کہا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام آنے والے دنوں میں تیار ہیں دیکھنے کو ایک اور ہتھ جوڑی۔