مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
50% آبادی یا تو اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتی یا پھر پرائمری کی سطح پر ہی ادھر ادھر ہو جاتی ہے
NUML ''نمل'' مختصر نام ہے اس یونیورسٹی کا جسے National University of Modren Languages کہتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ ادارہ ایک انسٹی ٹیوٹ کی شکل میں قائم کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں کئی جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں مگر بنیادی طور پر دنیا کی جدید زبانوں کا ہی ایک تدریسی مرکز ہے۔ گزشتہ دنوں شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلبہ نے مل کر میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا تو مجھے اس کے بارے میں کئی ایسی باتیں جاننے کا موقع ملا جو پہلے تو میرے علم میں تھیں ہی نہیں یا پھر ان کا بہت اجمالی سا تصور میرے ذہن میں تھا۔ سب سے پہلی اطلاع اور وضاحت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی تعلق عمران خان کی میانوالی میں قائم کی گئی یونیورسٹی سے نہیں ہے جسے مجھ سمیت بہت سے لوگ نمل کے نام سے جانتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس کا نام ''نمبل'' ہے جو اصل میں اس علاقے کا نام ہے۔ جہاں یہ قائم کی گئی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اس وقت دنیا کے مختلف علاقوں میں بولی اور لکھی جانے والی سیکڑوں زبانیں اور مستقبل میں ان کے وجود کا قیام ایک مسئلے کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ہماری اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں سمیت ان میں سے بیشتر زبانیں آیندہ پچاس برس میں ختم ہو جائیں گی۔ اب بظاہر یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ کم و بیش ڈیڑھ ارب لوگ جس زبان کو بولتے اور سمجھتے ہوں وہ عنقریب صفحہ ہستی سے مٹنے والی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پیش گوئی بھی ایک مفروضہ ہے جسے طاقتور اور زیادہ ترقی یافتہ معاشروں کے بعض محققین کے کچھ مفادات اور مخصوص نوعیت کی علمی و نسلی برتری کے تصور نے تخلیق کیا ہے۔ بعض کے خیال میں اس کا تعلق زبانوں کی بول چال سے نہیں بلکہ ان کے رسم الخط سے ہے اور یہ عمل اس وقت بھی جاری ہے۔ مثال کے طور پر دیگر ممالک کو تو چھوڑیے خود پاکستان میں جس کی سرکاری، قومی اور تاریخی زبان اردو ہے یا سمجھی جاتی ہے اس کا رسم الخط بھی کس قدر تیزی سے زوال پذیر ہے۔
50% آبادی یا تو اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھ پاتی یا پھر پرائمری کی سطح پر ہی ادھر ادھر ہو جاتی ہے۔ جب کہ باقی 50% کا تقریباً نصف انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتا ہے جہاں ان کی اردو کا یہ عالم ہے کہ مڈل کلاس کے بچے بھی بمشکل اپنا نام اردو میں لکھ سکتے ہیں اور یہی حال ان کی اردو پڑھنے کی صلاحیت کا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ٹکینالوجی کے ذریعے ہو رہی ہے۔ جہاں اردو رسم الخط کے لیے سرے سے کوئی جگہ ہی نہیں، فی الوقت یہ زبان آنکھوں سے زیادہ کانوں کی زبان چکی ہے۔ لیکن اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو بہت جلد یہ کانوں کی زبان بھی نہیں رہے گی کہ آج کا بچہ پڑھتا اور بولتا تو انگریزی میں ہے ہی لیکن ان انگلش میڈیم اسکولوں میں اسے سوچنا بھی انگریزی میں سکھایا جا رہا ہے اور یوں دو یا تین نسلوں کے بعد اردو جرمن یا جاپانی کی طرح ایک غیر ملکی زبان بن جائے گی۔
ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنا، پڑھنا اور جاننا یقینا ایک بہت اچھی اور فائدہ مند بات ہے کہ اس طرح ہم عالمی برادری میں زیادہ آسانی اور اعتماد کے ساتھ رشتہ استوار کر سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان سیکھ کر اور زندگی کے بنیادی تصورات کو اس کے ذریعے سمجھنے کے بعد اس عمل کا حصہ بنیں۔ دنیا بھر کے تعلیمی نظاموں میں سات یا آٹھ سال کی عمر میں بچوں کو ان کی مادری اور تعلیمی زبان کے علاوہ کسی اور زبان سے روشناس کرایا جاتا ہے اور وہ بھی صرف بطور زبان کے ہماری طرح سے بطور ذریعۂ تعلیم نہیں۔
اسی طرح ترقی یافتہ دنیا کی یونیورسٹیوں میں اپنی اور غیر ملکی زبانوں کی تعلیم و تدریس کے لیے بہترین شعبے قائم کیے جاتے ہیں تا کہ وہ طالب علم جو زبانوں اور لسانیات سے شغف رکھتے ہیں انھیں آسانیاں فراہم کی جا سکیں۔ ان کے لیے ان زبانوں کے بنیادی اور آسان کورسز سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے لیے سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پالیسی سازوں، محکمہ ہائے تعلیم اور خارجہ امور کے اداروں نے دیگر قومی اداروں کی طرح اس معاملے میں بھی سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
فی الوقت کئی ایسے ممالک میں اردو کی تعلیم کا انتظام ہے جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں (میری مراد تارکین وطن کے علاوہ وہاں کے مقامی لوگوں سے ہے) مگر وہاں یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم کا باقاعدہ انتظام کیا گیا ہے۔ مثلاً جاپان میں پاکستانیوں کی کل تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہے مگر وہاں کی تین یونیورسٹیوں ''ٹوکیو'' ، ''دائتوبنکا'' اور ''اوساکا'' میں پچاس کی دہائی سے اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ اس کی ایک وجہ جاپان کی صنعتی ترقی تھی کہ اب انھیں اردو دان دنیا بالخصوص بھارت اور پاکستان میں اپنی مصنوعات کی فروخت اور کاروباری معاملات میں افہام و تفہیم کے لیے اچھے اردو دانوں کی ضرورت تھی جو ان کے اپنے ہوں۔ اسی طرح چین، امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ترکی، مصر اور ایران سمیت کئی ممالک میں اردو کی تدریس کی سہولت موجود ہے۔
جب کہ پاکستان کی اکا دکا یونیورسٹیوں میں آپ انگریزی کے علاوہ کسی دوسری غیر ملکی زبان کا شعبہ موجود پائیں گے۔ ایسے میں ''نمل'' کا قیام یقینا ایک بہت اہم پیشرفت ہے کہ یہاں 25 کے قریب غیر ملکی زبانوں کی تدریس کے باقاعدہ شعبے قائم کیے گئے ہیں اور ساری دنیا سے طالب علم یہاں اردو پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ میرے ٹی وی سیریل ''وارث'' کے چینی مترجم لُو شوئی لین اور شاعری کو چینی زبان میں ڈھالنے والے برادر چانگ شی شوان عرف انتخاب عالم بھی اسی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان غیر ملکی طلبہ کو نہ صرف زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کی جائیں بلکہ ان کے نصاب تعلیم میں بھی اردو کو کسی اچھی کتاب کا ان کی اپنی زبان میں یا ان کے کسی ادب پارے کا اردو میں ترجمہ ایک لازمے کے طور پر رکھا جائے تا کہ دنیا یہ بھی جان سکے کے اردو ز بان میں کیسا اعلیٰ پائے کا ادب نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اس کا خیال مجھے یوں آیا کہ کچھ عرصہ قبل میری قاہرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ابراہیم ابراہیم سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی ایک شاگرد میری شاعری پر ایم فل کا تھیسیس لکھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ میری نظموں کے ایک انتخاب ''محبت ایسا دریا ہے'' کا عربی میں ترجمہ بھی کر رہی ہے کہ یہ اس کی ڈگری کا حصہ ہے۔
''نمل'' کی تقریب پذیرائی کے دوران بار بار یہ باتیں میرے ذہن میں آتی رہیں اور بعد میں میں نے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر جنرل اور شعبہ لسانیات کے ڈین کے علاوہ شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر روبینہ شہباز سے بھی ان کا تذکرہ کیا اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نہ صرف وہ پہلے سے ان لائنوں پر کام کر رہے ہیں بلکہ انھوں نے میری تجاویز کو بھی بہت توجہ سے سنا اور سراہا۔ مجھے یقین ہے کہ جتنے زیادہ غیر ملکی طالب علم اردو سیکھیں گے اور ہمارے منتخب ادب کے تراجم اپنی زبانوں میں کریں گے اتنا ہی ہمارا اور ہمارے معاشرے کا Soft Image اور ہمارے لکھاریوں کی ذہنی بصیرت دنیا پر واضح ہو گی اور یوں زبانوں کی تعلیم اور تفہیم کے ذریعے ہم دنیا میں اس امن کی فضا کو قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے جو فی الوقت عالم انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔