پیسے کی اہمیت
نوجوان طلبا و طالبات کی کلاس تھی۔ سب کا مقصد اپنی انگریزی کو بہتر بنانا تھا
نوجوان طلبا و طالبات کی کلاس تھی۔ سب کا مقصد اپنی انگریزی کو بہتر بنانا تھا۔ مسز ولیم ہماری ٹیچر تھیں۔ یہ لیول فائیو کی کلاس تھی۔ ایک موقع پر لفظ منی money آیا۔ میڈم نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ کہا گیا پرچیزنگ پاور یا قوت خرید۔ یعنی جس کے پاس جتنی زیادہ کرنسی ہوگی وہ مارکیٹ سے اتنی زیادہ چیزیں خریدنے کی طاقت رکھتا ہے۔
اب سوال پیدا ہو کہ کیا دولت کو ہر چیز یا Every Thing قرار دیا جاسکتا ہے۔کچھ طالب علموں کی رائے ہاں میں تھی لیکن پھر طے ہوا کہ ہم روپے پیسے کو تو سب کچھ قرار نہیں دے سکتے۔ اس بات پر بھی اتفاق نہ تھا کہ اسے Nothing قرار دیا جائے۔ جیب خالی ہو تو بازار سے حقیر سے حقیر چیز بھی نہیں خریدی جاسکتی۔ کوئی خیرات میں کچھ دے دے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جب روپیہ پیسہ سب کچھ بھی نہیں اور اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ کچھ بھی نہیں تو پھر یہ کیا ہے؟ طے ہوا کہ اسے Something قرار دیا جاسکتا ہے۔
زن، زر اور زمین دنیا میں فساد کی جڑ ہیں۔ یہ مشرق کی کہاوت ہے۔ اہل مغرب نے تین Ws دریافت کیے ہیں۔ ان کے نزدیک دولت، عورت اور شراب نے دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ صنف نازک کے علاوہ دولت دونوں جگہ مشترک قرار پاتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ دولت کتنی ہونی چاہیے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ حلیم ایک سیدھا سادھا ملازم تھا۔ تیس سال قبل وہ ایک دفتر میں کلرک تھا۔ اس نے کہا کہ میری تنخواہ گیارہ سو روپے ہے۔ اگر یہ پندرہ سو روپے ہوجائے تو میرے تمام مسائل حل ہوجائیں۔ آتش جوان تھا اور بی کام کا طالب علم۔ اس سے کہا کہ تمہاری ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار یا ڈیڑھ لاکھ بھی ہو جائے تب بھی تمہارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ صرف مسئلے کی نوعیت بدل جائے گی۔
عامر خان ایک فلم میں ایک غریب نوجوان کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہیروئن رانی مکھرجی بہت امیر ہوتی ہیں۔ ایک دن وہ عامر کو اپنے شاندار گھر لے کر جاتی ہے۔ وہاں رانی کے والد ایک غیر عورت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ یہاں باپ بیٹی کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ بیٹی کہتی ہے کہ روزانہ ایسی حرکتیں کرنے کے بجائے آپ کسی ایک خاتون سے شادی کرلیں۔ زوردار جھگڑے کے بعد امیر ہیروئن اور غریب ہیرو شاندار ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہیں تو عامر کہتے ہیں کہ ''میں تو سمجھتا تھا کہ آپ امیر لوگوں کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا ہوگا۔'' سوال وہیں آکر ٹھہرتا ہے کہ مال و دولت اور زر و جائیداد کتنی ہونی چاہیے؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ ایک جواب پر سب متفق ہوں گے کہ اتنے پیسے ہونے چاہئیں کہ انسان خوش رہے۔
کتنے پیسے یا یوں کہ پیسہ کتنا ہونا چاہیے؟ آئیے اس سوال کے جواب کے لیے محسن انسانیتؐ کے فرمان کی جانب دیکھتے ہیں۔ مفہوم ہے کہ ''اگر انسان کو سونے کی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری طلب کرے گا۔ اگر دوسری دے دی جائے تو پھر وہ تیسری مانگے گا۔ ایسے ناشکرے کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔'' اسلامی تعلیمات کے مطابق صرف قناعت ہی سے انسان میں شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ پیسہ، مال و دولت، زمین و جائیداد، اسٹیٹس سمبل ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ قدرت نے انسان میں ایک طرف مال و زر کی خواہش رکھی ہے تو دوسری طرف اپنے غریب بھائی کی مدد کا حکم بھی دیا ہے۔ یہی اس کی آزمائش ہوتی ہے۔
ایک شخص کو روٹی کھانے کے لیے مکان میں داخل نہیں ہونے دیا گیا کہ اس کے کپڑے صاف ستھرے نہ تھے۔ پھر وہ شخص عمدہ لباس پہن کر آیا تو دربان و میزبان نے استقبال کیا۔ کھانا لگا تو اس نے اپنے کپڑوں پر ڈالا۔ لوگوں نے پوچھا تو کہا کہ دعوت تو ان کپڑوں کی ہے۔ مجھے تو سادھے کپڑوں میں نکال باہر کیا گیا۔ یہ مسئلہ ہر دور میں رہا ہے لیکن جدید دور نے اس کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔
میڈیا پہلے اخبار اور پھر ریڈیو تک محدود تھا۔ سرکاری ٹی وی کے بعد اب ہزاروں اور لاکھوں پرائیویٹ چینلز نے دنیا بھر میں اطلاعات کے سیلاب کو گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ کمپیوٹر اور نیٹ نے کسی چیز کو خفیہ نہیں رہنے دیا۔ جو کاغذات پچاس ساٹھ برسوں قبل ریکارڈ رومز کے لاکرز اور تالوں میں بند ہوتے تھے وہ اب کمپیوٹر کی اسکرین پر آگئے ہیں۔ پاس ورڈ جیسے تالوں کو ہیکنگ کی چابی سے کھول کر سب کچھا چٹھا دنیا کے سامنے لایا جاتا ہے۔ خواہش کا علاج ہوسکتا ہے لیکن ہوس کا کوئی علاج نہیں۔ جب امیروں کی مزید دولت کے لیے ہوس اپنے عروج پر پہنچ جائے تو خبر کی تلاش میں سرگرداں میڈیا خوشبو و خوش لباسی میں ملبوس خوشحال و مشہور لوگوں کے جسموں پر تار عنکبوت تک بھی نہیں رہنے دیتا۔
پانامہ لیکس دوسرا دھماکا ہے جس نے وکی لیکس کے بعد مشہور و بااختیار لوگوں کے سیاہ چہروں سے خوبصورت نقاب الٹ کر رکھ دی ہے۔ برطانیہ و پاکستان اور روس کے علاوہ چین و عرب کے حکمرانوں اور ہندوستان کے امیتابھ بچن بھی اس میں شامل ہیں۔ آف شور کمپنیاں بناکر ناجائز دولت کو دوسرے ممالک میں چھپانا کہ ہمارے بعد یہ رقم ہمارے بچوں کے کام آئے۔
اگر یہی مقصد ہے تو دولت چھپانے والوں کو زمین میں دھنس جانے والے قارون کی مثال دینے کا کوئی فائدہ نہیں جس کی دولت کی چابیاں چالیس اونٹوں پر لادی جاتی ہیں۔ اکیسویں صدی کے حکمرانوں کو کرنل قذافی، حسنی مبارک اور صدام کی دولت کے انبار کے باوجود ان کی اولاد کی دربدری کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سو برس قبل کی مشہور کمپنیاں مٹ چکی ہیں یا ان کے مالک کسی اور خاندان سے ہیں۔
پاکستان کے بائیس خاندانوں میں سے آج کتنے ایسے ہیں جو بمشکل اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ بھی پاتے ہیں؟ آصف زرداری جلاوطن ہیں تو بابر غوری پاک سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکتے۔ امین فہیم ایک الزام لے کر دنیا سے رخصت ہوئے تو عزیر بلوچ اور ڈاکٹر عاصم پابند سلاسل ہیں۔
حکمران دولت اور اقتدار میں سب سے آگے ہے۔ کسی نے اس قدر مال و زر اور اس قدر مقبولیت و حکمرانی کا مزہ نہیں چکھا۔ اس میں پہلے سب کچھ خالق اور پھر خلق خدا کی عطا ہے۔ اس قدر عنایات کے باوجود بھی کیوں کسی غیر ملکی کو گرد اڑانے کا موقع ملا؟ پی ایم ایل (این) پر کیوں الزامات لگائے جا رہے ہیں؟ معاملہ آج عوامی رجحان کا نہیں اور نہ ہی حکومت کی مضبوطی و کمزوری کا ہے۔
خوف خدا و قیامت کا معاملہ بھی اس کے لیے ہے جو اس پر جس قدر یقین رکھے۔ اصل مسئلہ ایک شخص کا ہے کہ وہ کیا کہے گا۔ سوال تاریخ دان کا ہے جو قلم ہاتھ میں تھامے پاکستان کے سب سے زیادہ مرتبہ حکمرانی کرنے والے انتہائی دولت مند شخص کے بارے میں پوچھے گا۔ اہم سوال۔ مورخ ہمارے ملک کے حکمرانوں کے بارے میں کھوج لگائے گا کہ ان کے لیے کیا تھی پیسے کی اہمیت؟