ڈاکٹر انور سدید
ڈاکٹر انور سدید مرحوم نےاگرچہ افسانے،تحقیق اورشاعری کےمیدانوں میں طبع آزمائی کی مگر بنیادی طور پر وہ ایک نقاد ہی تھے
ڈاکٹر انور سدید مرحوم نے اگرچہ افسانے، تحقیق اور شاعری کے میدانوں میں طبع آزمائی کی مگر بنیادی طور پر وہ ایک نقاد ہی تھے۔ ان کا کام کم و بیش چھ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا وہ بلا کے زود نویس تھے اور مقدار کے اعتبار سے ان کا کوئی ہم عصر نقاد ان کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا، میرا ان سے پہلا تعارف 1968ء میں ہوا جب انھوں نے ایک پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے اردو کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی جب کہ ریگولر طلبہ میں یہ افتخار میرے حصے میں آیا معلوم ہوا کہ وہ انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کر کے بطور اوورسیئر اس شعبے سے منسلک ہوئے تھے لیکن اپنی لیاقت اور محنت کے سبب انھوں نے نہ صرف اپنی ملازمت کے دوران ترقی کی مختلف منازل طے کیں بلکہ ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم کی تحریک اور ہلاشیری سے ایم اے اردو کرنے کے بعد اس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب کی اس سرپرستی کے وہ تمام عمر احسان مند رہے اور ان سے ارادت مندی کا یہ سلسلہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہا جو ان کی وضع داری اور وفاداری کا ایک بین ثبوت ہے۔
وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور ہر موضوع پر قلم برداشتہ لکھنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے جس کی شہادت ان کی 80 کے لگ بھگ تصانیف سے لی جا سکتی ہے۔ لیکن ان کے اس قلمی سفر کے دوران ایک دو واقعات ایسے ہوئے جن کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیت ایک مخصوص نوع کے ذہنی تحفظات کا شکار ہو گئی اور ان کا زیادہ تر جھکاؤ احمد ندیم قاسمی مرحوم پر ہمہ وقت اور ہمہ جہت قسم کی ایسی تنقید کی طرف ہو گیا جو کردار کشی اور Obsession کی حدوں کو چھونے لگا۔ میری ذاتی رائے میں اگر وہ اس غیر تخلیقی نوعیت کے دباؤ سے آزاد ہو جاتے تو ان کا ادبی مقام بہت زیادہ بلند اور غیر مشروط ہو سکتا تھا۔
کسی تعزیتی کالم میں مرحوم سے متعلق کسی متنازعہ بات کا ذکر عام طور پر اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن چونکہ یہ بات میں نے ان کی زندگی میں بھی کئی بار کہی اور لکھی اور میں پوری ایمانداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس ذہنی گرہ نے ان کے ادبی مقام اور خدمات کو اجاگر کرنے کے بجائے کسی حد تک ان کو دھندلا دیا ہے کہ وہ بلاشبہ اس سے بھی زیادہ عزت اور شہرت کے اہل اور حق دار تھے جو اس وقت ان کو حاصل ہے۔
مرحوم انور سدید اور اردو ادب کی مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ ستر کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے ہمارا معاشرہ اور ادبی فضا عمومی طور پر خوشدلی برداشت، تنقید برائے اصلاح اور انصاف کے ان اصولوں سے بہت حد تک محروم ہو چکے تھے جو چالیس اور پچاس کی دہائی میں زمیندار اور انقلاب اخبارات اور ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق جیسی ادبی تنظیموں میں نظریاتی اختلاف کے باوصف موجود، زندہ اور برسر عمل تھا اور لوگ ایک دوسرے سے اختلافات رکھنے کے باوجود نہ خود تماشا بنتے تھے اور نہ دوسروں کو تماشا بناتے تھے۔
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب میں گروہ بندی بھی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں لیکن اگر یہ گروپ دف یا مخالف دھڑوں کی شکل اختیار کر جائیں اور اختلافات نظریات کے بجائے افراد بنیاد ہو جائیں تو معاملہ گڑبڑ ہو جاتا ہے اور میری معلومات کے مطابق ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں قاسمی صاحب، ڈاکٹر وزیر آغا صاحب اور ان کے احباب کے درمیان یہی کچھ ہوا۔
شروع شروع میں دونوں طرف سے کچھ غیر ذمے دار افراد نے مختلف طرح کے عمل اور ردعمل کے حوالے سے فنون اور اوراق کے مدیران دونوں بزرگوں کے درمیان ایک خوامخواہ قسم کی مسابقت اور گروہ بندی کو ہوا دینا شروع کر دی جس کا کوئی معقول جواز نہ تب تھا نہ اب ہے کہ قاسمی صاحب بنیادی طور پر شاعر اور افسانہ نگار تھے جب کہ آغا صاحب کی اصل اور پہلی پہچان ان کی تنقید اور انشائیہ نگاری تھے اور ابتدا میں دونوں پرچوں میں وہ سب لکھاری پابندی سے لکھتے اور چھپتے تھے جو بعد میں اپنی اپنی دف کے ہو کر رہ گئے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نیک دل اور ادب دوست لوگوں نے اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے مختلف کوششیں بھی کیں اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن آخری بازی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کے نام ہی رہی۔ پاک فضائیہ کے ایک سابق چیف ایئر مارشل ظفر چوہدری نے دونوں بزرگوں اور ان کے کچھ احباب کو ایک کھانے پر مدعو کیا جس میں یہ طے کیا گیا کہ مل جل کر ان لوگوں کو روکا جائے جو نام نہاد نظریاتی اختلافات کی آڑ میں شخصی حملوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ مگر کچھ غیر مصدقہ واقعات کی وجہ سے یہ معاہدہ برقرار نہ رہ سکا۔ جس کے نتیجے میں ڈاکٹر انور سدید جیسا سنجیدہ اور ادب سے کمٹڈ انسان بھی قاسمی دشمنی کے ایک عجیب و غریب کامپلکس میں مبتلا ہو گیا جس نے آخر وقت تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور شائد یہ نام نہاد گروہ بندی بھی اپنی موت آپ مر جائے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے حوالے سے جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا کہ اس کی وجہ سے اردو ادب ایک لائق، ذہین، محنتی اور اچھے نقاد کی صلاحیتوں سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکا جو اسے ملنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ مرحوم انور سدید کی بھر پور، متنوع اور غیر معمولی تخلیقی شخصیت کو بھی اس قدر پذیرائی نہیں مل سکی جس کے وہ اہل اور حق دار تھے۔ مجموعی طور پر اردو تنقید میں ان کے نام اور کام کو ہمیشہ عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ رب کریم ان کی روح کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے کہ جانے والوں کے لیے نیک دعائیں بھی برکت اور زاد راہ کا کام کرتی ہیں۔