موقع اور کامیابی
اسٹاک ایکسچینج کو الٹ پلٹ کردینے والا چند برسوں میں کشکول پکڑا کیوں نظر آتا ہے
شاہد آفریدی کو موقع ملا اور انھوں نے 37 گیندوں پر سنچری بنالی۔ اس ریکارڈ نے آفریدی کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس پہلے مرحلے پر جب ہم موقع ملنے پر بات کر رہے ہیں، آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس میچ میں دس اور کھلاڑی بھی تھے۔ انھیں بھی ایسا موقع ملا تو انھوں نے کامیابی کیوں نہیں حاصل کی۔ اسی طرح کا ایک موقع حنیف محمد کو بھی ملا تھا۔ انھوں نے ایک ہزار منٹ کے لگ بھگ وقت کریز پر رہ کر ریکارڈ قائم کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں سوبرز اور کینہائی جیسے زبردست کھلاڑی تھے۔
چھ روزہ میچ میں پاکستان ناکامی کے قریب آچکا تھا۔ پانچ سو رنز اور ساڑھے تین دن کا مرحلہ سامنے تھا۔ یقینی شکست کو ٹالنے کا موقع حنیف محمد کو ملا۔ آفریدی کا ریکارڈ پچیس سال بھی برقرار نہ رہ سکا جب کہ حنیف محمد کا ریکارڈ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی قائم ہے۔ پوری گفتگو میں انسان اہم ہے۔ وہ انسان جس نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ سوال ہے کہ موقع کیوں کر ملا اور کامیابی کیوں کر حاصل ہوئی؟ بڑے اور چھوٹے ناموں کو لے کر گفتگو اور پھر تاریخی تجزیے کے بعد لطیفہ۔
ٹائم مشین نام کی کوئی چیز نہیں کہ یہ صرف تصور میں ہی ہوتی ہے۔ چلیں فرض کریں کہ حنیف محمد اور شاہد آفریدی اپنی صلاحیتوں اور مزاج کے ساتھ وقت کے کسی اور لمحے میں پیدا ہوئے ہوتے۔ یوں سمجھیں کہ حنیف نوے کی دہائی میں کرکٹ کھیل رہے ہوتے اور آفریدی ساٹھ کے عشرے میں۔ اگر یہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ دونوں ناکام ہوجاتے۔ حنیف محمد ٹھنڈے مزاج کے یکسوئی اور سکون کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی تھے۔ ان جیسے کھلاڑی کے لیے ساٹھ کا عشرہ ہی موزوں تھا۔
نوے کی کرکٹ یعنی چوکوں، چھکوں اور مار دھاڑ والی دہائی میں آصف اقبال اور مشتاق محمد تو کامیاب ہوسکتے تھے لیکن حنیف محمد نہیں۔ اسی طرح اگر شاہد آفریدی اپنے دھواں دھار مزاج کو لے کر ساٹھ کے عشرے میں کرکٹ کھیل رہے ہوتے تو کہیں ان کا نام اس دور کی کرکٹ کھیلنے والوں میں نہ ہوتا۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہر دور میں اس مزاج کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس دور کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔ ایک حد تک یہ بات ٹھیک ہے۔
گلوکار بننے کے شوقین شہر قائد کے باسی کو ڈھاکا جانے کا موقع ملا۔ ہدایت کار احتشام فلم ''چکوری'' بنا رہے تھے۔ فلم کے ہیرو سے ان کے اختلاف نے نذیر بیگ کو ندیم بناکر پیش کیا۔ کراچی کے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے جو سینما ہاؤس کے بالکل سامنے تھا۔ فلم ناکام ہو رہی تھی اور ندیم اسے اپنی پہلی اور آخری کوشش قرار دے رہے تھے۔ ہوٹل کی کھڑکی سے نظر آیا کہ سینما کے قریب رش لگا ہوا ہے۔ ندیم سمجھے کہ ان کی فلم اور قسمت اتر چکی ہیں اور کوئی اور فلم سینما پر ریلیز ہوئی ہے۔
غور سے دیکھنے پر ندیم کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ فلم کامیاب ہو رہی تھی۔ روبن گھوش کے نغموں کی مشہوری میں کچھ وقت لگا اور یوں بھی ندیم اور شبانہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا۔ یہ موقع ندیم کو ملا جو گم ہو رہا تھا لیکن پھر مل گیا۔ نوجوانوں کو شاید علم نہ ہو کہ اس دور میں پہلی فلم کی کامیابی یا ناکامی ہی ہیرو ہیروئن کی حتمی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتی تھی۔ موقع کے حوالے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہدایت کار احتشام اگر ندیم کو موقع نہ دیتے تو کوئی اور دیتا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پہلی فلم کی ناکامی کے بعد ندیم ہمت نہ ہارتے اور جدوجہد جاری رکھتے اور کامیاب ہوکر ہی دم لیتے۔
کامیابی کیا ہے؟ نائی کی دکان پر دو کاریگر کام کر رہے تھے۔ ایک دل سے کام کرتا اور دوسرا بے دلی سے۔ ممکن ہے دوسرے کے ذہن میں ہو کہ اسے کوئی بڑا کام کرنا چاہیے۔ مجبوراً وہ بال کاٹنے کا کام کر رہا تھا۔ کبھی وہ شیو بنانے کے دوران خون نکال دیتا یا بال کاٹنے کے بجائے ادھیڑنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہوتا۔ کچھ عرصے بعد وہ کام چھوڑ کر چلا گیا اور ایک ہیئر ڈریسر رہ گیا جو دل سے کام کرتا تھا۔ اس بات کو بیس بائیس سال گزر چکے ہیں۔ جب پرانے محلے میں جاتے ہیں تو اس سے ملاقات ہوجاتی ہے۔
اس عرصے میں اس نے اپنی دکان بنالی اور گھر بنا کر بسا بھی لیا۔ کیا خیال ہے آپ کا کہ دونوں میں سے کامیاب کون رہا؟ جب تک ہمیں دوسرے شخص کے بارے میں علم نہ ہو کہ اس نے دکان چھوڑ کر جانے کے بعد کیا کیا؟ کیا کچھ حاصل کیا؟ ہم پہلے شخص کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ نہیں کرسکتے جب تک دوسرے کے مقام کا ہمیں پتہ نہ چلے کہ وہ کہاں ہے؟
ایک کم پڑھے لکھے لیکن کروڑ پتی بلڈر دفتر کی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے کہتے کہ ''اللہ مہربان تو غفار پہلوان''۔ زبان سے جملہ ادا ہوتا اور وہ مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے۔ موقع اور کامیابی کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے اکثر لوگ جو موقع سے فائدہ اٹھا کر کامیاب ہوچکے ہوتے ہیں وہ اسے اپنی ہنرمندی سمجھتے ہیں۔ تقدیر اور تدبیر کے بارے میں بات کریں تو وہ قسمت کے دخل کو بہت کم نمبر دیتے ہیں۔ ہر کوئی غفار بھائی کی طرح نہیں ہوتا۔ کروڑوں ڈالر سالانہ کمانے والے، روپے نہیں ڈالر، بھارتی کمپیوٹر انجینئر کی کامیابی کو کچھ لوگ اس کے صحیح فیصلوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
ممکن ہے وہ درست ہوں۔ صحافت کی دنیا میں آنے والوں کا تجزیہ کریں تو کہانی کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے۔ اینکر پرسن بن کر سالانہ کروڑوں روپے کمانے والے اگر وقت کے مطابق بیس سال قبل پیدا ہوئے ہوتے تو سال کے لاکھ دو لاکھ بھی بمشکل کما پاتے۔ حنیف محمد جیسے لیجنڈ نے جس دور میں جنم لیا وہ کرکٹ کیریئر میں چند ہزار ہی کما سکے۔ آج کے نوجوان کھلاڑی اس سے کہیں بڑی رقم صرف ایک دن میں کما لیتے ہیں۔ موقع اور کامیابی میں وقت کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صحافت کے کوچے میں داخل ہونے والے چند لوگوں کو علم نہ تھا کہ یہ پیشہ ان پر پیسے کی برسات کردے گا۔
الیکٹرانک میڈیا کی اچانک آمد اور اس کی بھرپور پذیرائی نے لوگوں کے وارے نیارے کردیے۔ ''ایکسپریس'' اخبار اگر منظر عام پر نہ آتا تو دو تین بڑے اخباروں نے صحافیوں اور کالم نگاروں سے جو سلوک یا بدسلوکی روا رکھی تھی وہ بڑے بڑے چوہدریوں کو وہ سہولتیں عطا نہ کرتی اور تو اور آج ان کا انداز تحریر بالکل مختلف ہوتا۔ موقع اور کامیابی میں Luck کو نظرانداز کرنے والے ذرا ان تاریخی واقعات پر نظر دوڑائیں۔ صرف ایک ڈیڑھ صدی کے واقعات۔ کامیابی کے گھوڑے پر سواروں نے کیسی ٹھوکر کھائی۔ ایسے واقعات پیش آتے گئے کہ تمام تدبیریں دھری کی دھری رہ گئیں۔
انگریزوں کی ہندوستان آمد نے جہاں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کردیا وہیں بے شمار نواب بالکل غریب ہوگئے اور نئے امیروں کا ایک طبقہ وجود میں آیا۔ وہی کچھ پہلی اور دوسری جنگوں کے دوران ہوا۔ تقسیم کے بعد ہجرت نے امیری غریبی میں زندگی گزارنے والوں کے حالات بدل کر رکھ دیے۔ سقوط ڈھاکا اور بھٹو دور میں قومی صنعتوں کو تحویل میں لینے کے فیصلے نے سیکڑوں خوشحال گھرانوں کو دربدر کردیا۔ ایسا ہی کچھ کویت میں ہوا جب صدام حسین کے قبضے نے خوبصورت زندگی گزارنے والوں کو شاندار گھروں سے فٹ پاتھ پر دھکیل دیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ بین الاقوامی حالات تھے جس میں وہ بے بس ہوگئے۔ دیکھیں یہاں کیا ہوتا ہے؟
ٹرپل سنچری بنانے والا اگلی اننگز میں صفر پر کیوں آؤٹ ہوجاتا ہے؟ اسٹاک ایکسچینج کو الٹ پلٹ کردینے والا چند برسوں میں کشکول پکڑا کیوں نظر آتا ہے؟ ڈائمنڈ اور پلاٹینم جوبلی منانے والے فلمی ہیرو کی فلمیں پہلے ہفتے میں کیوں اتر جاتی ہیں؟ کیا ان کی ناکامیوں پر کبھی کوئی قہقہہ لگاتا ہے؟ موقع نہیں ملتا صحیح تدبیر اختیار کرنے کا۔ کہا جاسکتا ہے کہ تدبیر غلط اختیار کی جاتی ہے تو ٹھوکر لگی۔ یہ کمزور دلیل ہے۔ کارزار حیات میں کسی کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔ پیش گوئی تو بالکل نہیں کی جاسکتی۔ اگر کوئی حماقت کرے تو پہلے یہ لطیفہ پڑھ لے۔
لطیفے یعنی ہلکے پھلکے انداز میں کالم کا اختتام یوں کرتے ہیں۔ ایک آدمی کے دو بیٹوں کے بارے میں نجومی نے پیش گوئی کی کہ ایک کے آگے پیچھے گاڑیاں پھریں گی اور دوسرا روزانہ سیکڑوں لوگوں کو کھانا کھلائے گا۔ بڑے ہوئے تو ایک ٹریفک کانسٹیبل تھا اور دوسرا ہوٹل کا بیرا۔ یوں سارے کے سارے فلسفے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اگر ہم قسمت کا دخل نکال دیں موقع اور کامیابی سے۔