عظیم ترین

روزنامہ ایکسپریس کے ’’شوبز‘‘ کا صفحہ سامنے رکھا ہے۔ اس میں اوپر نیچے دو فلمی جوڑوں کی دو تصویریں ہیں


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate December 21, 2015
[email protected]

روزنامہ ایکسپریس کے ''شوبز'' کا صفحہ سامنے رکھا ہے۔ اس میں اوپر نیچے دو فلمی جوڑوں کی دو تصویریں ہیں۔ ایک جانب شاہ رخ و کاجول کی تصویر ہے تو دوسری جانب دلیپ کمار و سائرہ بانو کی تصویر۔ پہلی تصویر میں فلمی جوڑی اسٹیج پر اٹکھیلیاں کرتی نظر آئی۔ دوسری تصویر میں سینئر ہیرو ہیروئن کا معاملہ کچھ اور تھا۔ دلیپ کمار کی 93 ویں سالگرہ کا کیک کاٹنے پر سائرہ بانو نے پشاور کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ آج ہم بھارتی فلمی جوڑیوں پر نہیں بلکہ زندگی کی کچھ تلخ حقیقتوں پر گفتگو کررہے ہیں۔

ایک اخبار کے فلمی صفحے کی دو تصویریں دو زمانوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ دلیپ کمار اور سائرہ بانو کا دور ہم سے قبل کا زمانہ ہے۔ ہمارے چچا و ماموں راج کپور، نرگس اور مدھو بالا کی باتیں کیا کرتے تھے۔ شاہ رخ اور کاجول کا زمانہ ہمارے بعد والی نسل کا زمانہ ہے، یہ ہمارے بچوں کے فیورٹ ہیں، ہمارا دور وحید مراد، ندیم، امیتابھ بچن، شبنم، محمد علی، ہیما مالنی، بابرا شریف اور زیبا کا دور ہے۔ یہ دونوں تصاویر ہمارے زمانے کی نہ ہونے کے باوجود ایک اخبار کے فلمی صفحے پر اس قدر قریب تھیں کہ جنھوں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔

شاہ رخ اور کاجول اسٹیج پر ہیں جب کہ دلیپ کمار اور سائرہ بانو گھر پر۔ ایک طرف خوشی ہے تو دوسری طرف اداسی۔ ایک جانب زندگی کی رمق ہے تو دوسری جانب افسردگی، ایک حال ہے تو دوسرا ماضی، ایک طرف صحت ہے تو دوسری جانب بیماری، ایک طرف طاقت ہے تو دوسری طرف کمزوری، ایک طرف خوبصورت حال کے ساتھ خوشگوار ماضی ہے تو دوسری طرف صرف اور صرف خوبصورت ماضی ہے۔ ایک طرف زندگی کے کچھ اہداف ہیں تو دوسری طرف کوئی ٹارگٹ نہیں، دو فلمی جوڑیوں پر گفتگو کے علاوہ زندگی کی کچھ حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہم آنے والے دنوں کے ساتھ ساتھ کچھ شخصیات کے عظیم یا عظیم ترین ہونے پر بھی گفتگو کریںگے۔

1922 کو پشاور میں پیدا ہونے والے یوسف خان ممبئی کی فلمی دنیا میں گئے اور چھاگئے۔ فلم ''مغل اعظم'' میں ان کا کام بہت خوب تھا۔ شاہ رخ نوے کے عشرے میں بالی وڈ میں آئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دونوں اپنے اپنے وقت کے عظیم اداکار ہیں۔ وقت اور عظیم کو یاد رکھیں تو کالم آخر تک آپ کی گرفت میں رہے گا۔ اگر کہا جائے کہ پچاس اور ساٹھ کا عشرہ دلیپ کمار کا عشرہ تھا اور ستر اور 80 امیتابھ بچن کا، جب کہ دو صدیوں کے سنگم پر آنے والے دو عشرے شاہ رخ خان کے تھے تو غلط نہ ہوگا۔ دلیپ اداکاری کے شہنشاہ کہلائے تو امیتابھ بچن اینگری ینگ مین، تو شاہ رخ کنگ خان کہلائے۔

کالم میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقبول ترین اداکاروں کا زمانہ پندرہ بیس سال پر محیط ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک نسل کے پسندیدہ فنکار ہوتے ہیں۔ دلیپ اور سائرہ ہمارے ماموں و چچا کے پسندیدہ تھے تو شاہ رخ و کاجول ہمارے بعد والی نسل کے فیورٹ ہیں۔ ہمارا زمانہ وحید مراد اور امیتابھ بچن کا زمانہ رہا ہے۔ آج کے کالم کی ابتدا یہ ہے کہ ایک ماضی ہوتا ہے تو ایک زمانہ حال اور ایک کو مستقبل کہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج پیدا ہونے والا بچہ آج کے مشہور اداکاروں سے واقف ہوگا؟ آج سے پندرہ بیس سال بعد اپنی جوانی میں وہ شاہ رخ، سلمان خان اور عامر خان کو جانتا ہوگا۔ 2035 میں نادرا سے شناختی کارڈ بنوانے والا نوجوان ان خانوں سے بالکل بے خبر ہوگا۔

مشتاق یوسفی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں اپنے پسندیدہ اداکار اور کھلاڑی اس لیے یاد آتے ہیں کہ وہ ہماری جوانی کی یاد ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی بچھڑی گلیاں اس لیے یاد آتی ہیں کہ ہمارا لڑکپن وہاں گزرا ہوتا ہے۔ بھولے بسرے محلے اور جدا ہوئے شہر میں سہانے زمانے میں واپس لے جاتے ہیں تو ہم آہیں بھر کر انھیں یاد کرتے ہیں۔ جوانی کا دور سب سے خوبصورت ہوتا ہے تو اس دور کے فلمی ہیروز ہمارے لیے عظیم ہوتے ہیں۔ مہدی حسن اور احمد رشدی ہمارے لیے عظیم تھے، ہمارے بچوں کے لیے نہیں۔ ایک نسل طلعت اور سہگل کے گانوں کی بات کرتی ہے جو ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ انور مقصود جس طرح مائی بھاگی کو دلچسپی سے سنتے ہیں وہ آج کا بزرگ بھی نہیں سمجھ سکتا۔ آدھے سے زیادہ کالم پڑھ لینے کے بعد اتنا سمجھ سکے ہیں کہ جوانی بڑی اہم ہوتی ہے جس میں ہر نوجوان کے کچھ ہیروز ہوتے ہیں، جنھیں وہ عظیم سمجھتا ہے، کچھ کھلاڑیوں، فلمی اداکاروں اور چند گلوکاروں کو لے کر ہر شخص اپنے ہیروز یاد رکھتا ہے اور وہ انھیں عظیم یعنی Great مانتا ہے۔

جب انسان کی عمر بڑھتی ہے تو اس کے ہیروز بھی بدل جاتے ہیں۔ انسان فلمی ہیروز اور کھلاڑیوں سے بڑھ کر اپنے سیاسی رہنما کو ہیرو ماننے لگتا ہے یعنی انھیں عظیم کا درجہ دینے لگتا ہے۔ عظیم تر کون؟ وہ جنھوں نے ایک قوم کو غلامی سے نکال کر آزادی کی راہ دکھائی ہو۔ نہ صرف شمع روشن کی ہو بلکہ منزل مراد تک بھی پہنچایا ہو۔ انسان عظیم تر ان رہنماؤں کو مانتا ہے جنھوں نے اس کی دنیا کو سنوارا ہوتا ہے۔ افریقیوں کے لیے نیلسن منڈیلا تو بھارتیوں کے لیے گاندھی جی عظیم تر ہوںگے۔ امریکیوں کے لیے جارج واشنگٹن تو پاکستانیوں کے لیے محمد علی جناح یقیناً عظیم تر قرار پاتے ہیں۔ اب ہم جمعہ کی بات کررہے ہیں جب سال کے آخری مہینے کا پچیسواں دن ہوگا۔ قائداعظم تاریخی اور منطقی طور پر مسلمانان ہند کے پہلے اور آخری متفقہ رہنما قرار پاتے ہیں۔ نہ ان سے قبل اور نہ ان کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے کسی کو اپنا لیڈر مانا۔ آزادی دلانے والے رہنما نے نہ صرف آزادی دلائی بلکہ تاریخ بدلنے کے علاوہ جغرافیہ کا رخ بھی موڑدیا۔ یہ اعزاز پانے والی دوسری کوئی شخصیت عالم سیاست میں ہمیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔

دلیپ کمار، امیتابھ بچن، وحید مراد اور شاہ رخ جیسے اداکار دس بیس سال تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ قائداعظم، گاندھی، نیلسن منڈیلا اور جارج واشنگٹن جیسے Greater لوگ دو سو پانچ سو برسوں تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ 25 دسمبر کو ہم قائداعظم کی سالگرہ مناکر اپنے قومی رہنما کو یاد کریںگے۔ عظیم تر وہ ہوتا ہے جسے کروڑوں لوگ صدیوں تک یاد رکھیں۔ کیا ان سے بڑھ کر بھی کوئی ہوتا ہے؟ عظیم ترین کون ہوتا ہے؟ یہی ہمارے آج کے کالم کا عنوان ہے۔

وہ شخصیت جنھیں مسیحی دنیا یسوع مسیح کہتی ہے، انھیں مسلم دنیا حضرت عیسیٰ ؑ کے نام سے پکارتی ہے، ان کی تاریخ پیدائش بھی چار دن بعد آنے والی ہے۔ ایسے لوگ جو انسانوں کی دنیا سنوارتے ہیں وہ تو عظیم تر کہلاتے ہیں لیکن جو دنیا کے ساتھ آخرت سنوارنے کا پیغام دیں وہ greatest یا عظیم ترین کہلاتے ہیں۔ دنیا کے پونے دو ارب سے زیادہ مسیحی ان دنوں کرسمس کی تیاریاں کررہے ہیں۔ دو ہزار سال قبل پیدا ہونی والی ہستی کی یاد میں منارہے ہیں۔ 2015 میں ہم وقت کے پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے کالم کے اختتامی مرحلے میں عظیم ترین کے حوالے سے گفتگو کررہے ہیں۔ صدیوں نہیں بلکہ ایک دو ملینیم قبل دنیا میں آنے والوں کو مانا جائے تو انھیں عظیم ترین ہی کہنا چاہیے۔ ماہ و سال سے بے نیاز اور تاقیامت یاد رکھی جانے والی ہستیاں۔

جمعرات کو یعنی آج سے تین دن بعد مسلم دنیا اپنی عظیم ترین ہستی کا یوم ولادت منائے گی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گلیاں و عمارتیں بھی روشن کی جارہی ہیں اور جھنڈیاں بھی لگائی جارہی ہیں، عید میلادالنبیؐ مناکر ہم اس احسان کا کروڑواں حصہ بھی ادا نہیں کرسکتے، جو اس عظیم ہستی نے ہم پر کیا۔

بچپن اور جوانی میں کچھ شخصیات ہیرو بن کر ہماری زندگی میں آتی ہیں، ہم انھیں عظیم مان لیتے ہیں، بہت چھوٹے مقصد یا وقتی خوشیاں دینے والے اداکار و فنکار و کھلاڑی عشروں تک یاد رکھے جاتے ہیں۔ بابائے قوم ہمیں آزادی دلاکر ہماری دنیاوی زندگی سنوارتے ہیں تو ہم انھیں صدیوں تک یاد رکھتے ہیں۔ یوں ہم انھیں عظیم تر مان لیتے ہیں۔ خدا کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے ہماری دنیا و آخرت سنوارتے ہیں وہ ہمارے محسن ہوتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کو جن کا یوم ولادت ہے جنھیں دنیا کے کروڑوں اربوں انسان پندرہ صدیوں سے رہبر و رہنما اور خاتم الانبیا مان رہے ہیں وہ عظیم ترین ہیں۔ حقیقتاً وہ ہیں محسن انسانیتؐ پوری کائنات کے لیے اور زماناً مسلمانوں کے لیے ہیں The Greatest یعنی عظیم ترین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں