انتخابی کامیابی کے تین نسخے
پہلی مرتبہ… جی ہاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام تر جمہوری ادارے کام کررہے ہیں۔
ISLAMABAD:
پہلی مرتبہ... جی ہاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام تر جمہوری ادارے کام کررہے ہیں۔ صدر مملکت سے لے کر کونسلر تک تمام لوگ منتخب ہیں یہ تصویر کا روشن رخ ہے، دوسرا روشن رخ یہ ہے کہ اگلے دو برسوں تک پاکستان میں کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔ اگر منتخب نمایندے چاہیں تو پھر جمہوری انداز میں ترقیاتی کام ہوسکتا ہے۔ بظاہر کسی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اگر کہیں سے کوئی ''خودکش حملہ'' نہیں ہوتا۔ تصویر کا تاریک رخ کیا ہے؟ ووٹ کن تین باتوں کو دیکھ کر دینے کی تاریخ نے تین اہم واقعات کو جنم دیا ہے؟ تین نسخے کیا ہیں؟
نواز شریف کی مسلم لیگ نے پنجاب میں بھرپور نمایندگی کا ووٹ حاصل کیا لیکن تین صوبوں میں وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ایم کیو ایم نے کراچی و حیدرآباد سے ووٹ لیے لیکن لاڑکانہ، ٹھٹھہ، دادو اور بدین میں ان کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور اے این پی اپنے صوبے سے باہر کسی قابل ذکر مقام پر نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی اندرونِ سندھ، لیاری اور ملیر کے علاوہ کہیں سے ووٹ نہیں لے سکی۔ گویا پارٹیاں علاقوں میں بٹ چکی ہیں۔ پاکستانی سوچنے لگے ہیں کہ جسے ووٹ دیں وہ اپنے علاقے کا ہو اور اپنی زبان بولنے والا ہو۔ ایسے میں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ایسا ہی معاملہ سن ستر میں پیش آیا تھا۔ دسمبر کی سرد فضا میں سیاسی گرمی کو محسوس کرتے ہیں۔ جس نے پاکستان کو دولخت کردیا تھا۔ ہماری گفتگو کا محور بھٹو اور مجیب کھینچاتانی کے علاوہ پی پی پی، ایم کیو ایم کشمکش ہوگا۔ اسی حوالے سے ہم گاندھی جناح ٹکراؤ پر بھی بات کریںگے۔
بھٹو کی پیپلزپارٹی کا وجود مشرقی پاکستان میں نہ تھا۔ مجیب کی عوامی لیگ تو مغربی پاکستان میں انتخابات جیتنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ستر کے الیکشن میں دو ایسی پارٹیاں ابھر کر سامنے آئیں جن کی نمایندگی ملک کے دوسرے حصے میں نہ تھی۔ پنجاب نے بھٹو کو بھرپور انداز میں ووٹ کیوں دیا؟ نصف صدی قبل کے پنجاب کی نفسیات جاننے کا دلچسپ موقع ہے۔ پہلا نسخہ کیا ہے، انتخابی کامیابی کے حصول کا؟
ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک نے دس سالہ دور حکومت کے چل چلاؤ کا انتظام کردیا۔ اس دور میں چھ نکات سے پورا ملک واقف ہوچکا تھا۔ یحییٰ خان نے ون یونٹ کے خاتمے کے علاوہ برابری ختم کردی۔ اسی طرح ون مین ون ووٹ کی بدولت اسمبلی میں بنگالیوں کی سیٹیں بڑھ گئی تھیں۔ مجیب دن بدن مشرقی پاکستان میں مقبولیت حاصل کررہے تھے۔ اہل بنگال نے اپنا ایک بھرپور لیڈر مغربی پاکستانیوں سے حقوق حاصل کرنے کے لیے پیش کردیا تھا۔ اب پنجابیوں نے نظر دوڑائی تو انھیں مجیب کی ٹکر کے بھٹو ہی نظر آئے۔ نوجوان، توانا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بہترین مقرر اور بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے، کوئی ان جیسا نہ تھا۔ یوں پنجاب نے یہ بھی جانا کہ بھٹو سندھ سے بڑی تعداد میں سیٹیں جیت کر مجیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیںگے۔ اگر پنجاب اور سندھ ایک پارٹی کے بجائے کئی پارٹیوں کو اپنا نمایندہ بناتے تو ممکن ہے مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔ افسوس کہ تاریخ میں ''اگر'' نہیں ہوتا۔ یہ پہلی وجہ یا نسخہ ہوتا ہے کسی بھی طبقے کا ووٹ دینے کے موقع پر۔ جی ہاں جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ دوسرا لیڈر اپنے طبقے میں مقبول ہے جو ہماری بات نہیں کرتا یا جو ہمیں اپیل نہیں کرتا۔ اگر ایسا ہے تو ہم اس کے مقابل کسی کو لے کر آئیں۔ دو وجوہات اور بھی ہوتی ہیں ووٹ دینے کی۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران بن گئے۔ انھوں نے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا اور صوبے کی سرکاری زبان سندھی قرار پائی۔ کراچی اور حیدرآباد کے اردو دان طبقے نے احتجاج کیا۔ یہ وہ دور تھا جب صوبے کے شہری علاقوں کی نمایندگی جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کررہی تھیں۔ احتجاج کے بعد اردو کو بھی صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا۔ بھٹو کے خلاف دھاندلی کا الزام لگاکر تحریک چلی، جنرل ضیا برسر اقتدار آئے۔ بھٹو کی اقتدار سے بے دخلی اور پھر پھانسی نے ضیا الحق کو مجبور کیا کہ وہ سندھی بولنے والوں کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ کوٹہ سسٹم کو مزید دس سال کے لیے بڑھادیا گیا۔ شہر کی بلدیات میں اس وقت جماعت اسلامی کی نمایندگی تھی۔
85 کے آخر میں مارشل لا اٹھایا گیا اور چار ماہ بعد بے نظیر بھٹو کا شاندار استقبال ہوا۔ بھٹو کی ذہین، پڑھی لکھی اور کرشماتی شخصیت کی حامل بیٹی اپنے والد کی جگہ لے کر سامنے آگئیں۔ اب ہم اہل کراچی کی نفسیات کی بات کررہے ہیں۔ انھوں نے بے نظیر کے مقابل ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو پیش کیا۔ کالجوں میں داخلوں اور نوکری کے حصول کی بنیاد پر سندھ کے شہری حلقوں نے اپنی قیادت کو بدل دیا۔ جس طرح مجیب کے مقابل پنجاب نے بھٹو کو پیش کیا تھا اسی طرح بے نظیر کے مقابل کراچی والوں نے الطاف حسین کو پیش کیا۔ یہ تو پہلی وجہ ہوئی ووٹ دینے کی۔ دوسرا نسخہ کیا ہے؟ معاش یا اکنامی یا اقتصادیات۔ مجیب کے چھ نکات اور بھٹو کا روٹی کپڑا، مکان کا نعرہ خالصتاً پیٹ پوجا سے اپیل کرتے تھے۔ بالکل اسی طرح ایم کیو ایم کا تعلیمی اداروں میں داخلوں اور روزگار کے حوالے سے نعرہ خالصتاً گھر کا کچن چلانے والا نعرہ تھا۔ تیسرا نسخہ کیا ہے؟
گاندھی جی نے افریقہ کے بعد بھارت میں احتجاجی سیاست کا آغاز کیا۔ محمد علی جناح جیسے آئین پسند رہنما مایوس ہوکر انگلینڈ چلے گئے۔ خلافت موومنٹ کے بعد بھی گاندھی کا جادو سرچڑھ کر بولنے لگا۔ مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد مسلمان کسی بڑے قائد سے محروم تھے، اس بات کو علامہ اقبال نے بھی محسوس کیا۔ ''مہاتما'' یعنی بڑے لیڈر کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس ہندوؤں سے قریب تر تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لیڈر کی موجودگی کے باوجود بھی مسلمان کانگریس سے قربت محسوس نہیں کررہے تھے۔ انھیں مہاتما کے مقابل ایک ''قائد اعظم'' یعنی بڑے لیڈر کی تلاش تھی۔ گاندھی کی طرح قانون دان، ایماندار اور سچے و کھرے لیڈر کی تلاش۔
شخصیت کے مقابل شخصیت ہی وجہ قرار پائی اور معاشی بھی یعنی روزی روٹی دوسری وجہ تو تینوں تاریخی مناظر میں تیسرا نسخہ کیا ہے انتخابی کامیابی کے حصول کا؟ مجیب نے چھ نکات میں بتایا کہ مغربی پاکستان تمہارا استحصال کر رہا ہے۔ اسی طرح بھٹو نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو مشترکہ دشمن قرار دیا۔ جیسے الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں میں روزگار کی خاطر پنجاب اور خیبر پختونخوا سے آنے والوں اور کوٹہ سسٹم سے وڈیروں کی اولاد نے فوائد سمیٹے تو کراچی و حیدرآباد کے شہری علاقے کے لوگوں کا مشترکہ دشمن قرار دیا۔ جیسے آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندوؤں کو مسلمانوں کا مشترکہ دشمن قرار دیتے ہوئے کہاکہ انگریزوں کے جانے کے بعد یہ تمہارا استحصال کرے گا، پیٹ پر لات مارنے والا دکھانا انتخابی کا میابی کا تیسرا نسخہ ہے۔
طاقتور شخصیت کے مقابل طاقتور شخصیت کے علاوہ معاش اور مشترکہ دشمن تمام مقامات پر کامیابی کا سبب قرار پاتے ہیں۔ مذہبی پارٹیوں کی پاکستان میں ناکامی کی وجہ یہی ہے۔ ان کے ایجنڈے میں معاش کا پہلو بڑا کمزور ہوتا ہے۔
پاکستان میں اپنے اپنے کو ووٹ دینے کا رجحان بڑا خطرناک ہے۔ یہ ملکوں کو تقسیم کردیتا ہے اور عوام کو آپس میں لڑا دیتا ہے۔ اس وقت کوئی ایسی پارٹی اور قائد نہیں جس پر کراچی سے خیبر تک کے عوام اعتماد کرتے ہوں۔ اس کے لیے یا تو نواز شریف کو پنجاب سے باہر نکل کر مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے ہوںگے یا پیپلزپارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر بن جائے یا عمران اپنی پارٹی کی مقبولیت کو بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ کی شکل میں بدل دینے والی تنظیم بنائیں۔
ہندوؤں نے مسلمانوں کے درد کو محسوس نہیں کیا تو ہم الگ ہوگئے۔ ہم نے بنگالیوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا تو وہ الگ ہوگئے۔ اسی طرح اگر آنے والے دنوں میں ایک طبقے نے دوسرے طبقے کی تکلیف کو محسوس نہیں کیا، دلوں میں دیواریں قائم ہوجائیں گی۔ جمہوریت صدر سے کونسلر تک تصویر کا روشن رخ ہے، لیکن پورے ملک میں ایک بھی ہر دلعزیز پارٹی اور ایک بھی مقبول لیڈر کا نہ ہونا تصویر کا تاریک رخ ہے۔ اگر ہم پاکستانی ظالم اور مظلوم طبقوں کی پہچان کرکے کسی ایماندار اور کرشماتی لیڈر کو کرپٹ مافیا کے مقابل لے آتے ہیں تو عوام کے پیٹ پر لات مارنے والے مشترکہ دشمن قرار پاسکتے ہیں۔ یوں اگلے انتخابات تک کوئی بھی انصاف پسند جماعت پورے کرسکتی ہے انتخابی کامیابی کے نسخے۔