تحقیق کا دعوی و چند نقائص

یہی وجہ ہے کہ آج مسلم دنیا میں لوگ بینکنگ، ترقی اور جمہوریت وغیرہ کو مسلم معاشرے سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔


Dr Naveed Iqbal Ansari November 25, 2015
[email protected]

تحقیق کا فن فی زمانہ ترقی کرتا ہوا، آج جدید شکل میں موجود ہے۔ آج تحقیق میں ایک عام طالب علم بھی شماریاتی فارمولے کمپیوٹر کا بٹن دبا کر استعمال کر لیتا ہے۔ دنیا بھر میں سائنسی اور سماجی علوم پر تحقیق جدید انداز میں ہو رہی ہے۔ یہ دعویٰ بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ تحقیق یقینا صد فی صد معیاری ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ضرور موجود ہے کہ ایک نئی تحقیق کسی پرانی تحقیق کو غلط بھی ثابت کر سکتی ہے مگر وہ بھی اس دعویٰ پر مبنی ہوتی ہے کہ نئی تحقیق تمام اصولوں کو مد نظر رکھ کر مکمل معیار کے ساتھ کی گئی ہے۔

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اس قسم کا دعویٰ درست بھی ہے؟ کسی بھی تحقیق پر غور کیا جائے تو وہ دو بڑے حصوں میں منقسم نظر آتی ہے ایک تیکنیکی حصہ اور دوسرا فکری حصہ۔ (خاص کر سماجی علوم میں)۔ تیکنیکی حصہ یقینا جدید سہولیات کے باعث بہت حد تک معیاری اور درست ہو سکتا ہے لیکن کیا نظری پہلو بھی ایسا ہی معیاری قرار دیا جا سکتا ہے؟ خصوصا ًسماجی علوم میں غور کیا جائے تو کم از کم تین پہلو ایسے ہیں جو نظریاتی حصے کی تحقیق کو غلط سمت میں لے جاتے ہیں اور یوں کسی بھی تحقیق کے نظریاتی حصے پر تحقیق کی رکھی گئی بنیاد ہی غلط ہو جاتی ہے۔ یہ تین حصے مندرجہ ذیل ہیں۔

ایک اہم حصہ اصلاحات سے متعلق ہے۔ اصلاحات کی گہری تفہیم عموماً اس تہذیب کے تناظر میں نہیں کی جاتی جس میں وہ وجود میں آئی ہوتی ہے۔ تفہیم تو کی جا رہی ہوتی ہے مگر محقق کے اپنے اپنے تناظر میں یوں اصلاحات کی اصل تفہیم نہیں ہو پاتی۔ یوں اصل تفہیم نہ ہونے کے باعث ابہام کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً اقوام متحدہ کی جانب سے ہیومن رائٹس کو پوری دنیا میں نافذ کرنے کی کو شش کی جاتی ہے، اس اصطلاح کو مسلم ممالک کے اندر بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

مغرب کے اس تصور کو سمجھے بغیر اس کو اپنانے کی کو شش کی جاتی ہے حالانکہ مسلم معاشرے میں ہیومن رائٹس کی وہ تفہیم نہیں ہو سکتی جو مغرب کی ہے۔ ہیومن رائٹس کی اصطلاح مغرب (یا ورلڈ آرڈر) کے مفاہیم کے تحت آئی ہے جس کو سمجھے بغیر ہم اپنانے کی کو شش کرتے ہیں، چنانچہ اس تفہیم کے تحت تو نبی اکرم ﷺ کے خاکے بھی بنتے ہیں جب کہ اسلام میں اس کی گنجائش ہی نہیں، اسی طرح جمہوریت کی اصطلاح ہے۔

اب مغرب کے نزدیک جمہوریت کی تفہیم کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ مغرب جس 'جمہوریت' کے تصور یا معنویت کو سمجھتا ہے وہ بحیثیت مسلم ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو۔ مغرب اپنے معاشرے میں جمہوریت کے ذریعے کیا چاہتا ہے، کیا وہ سب کچھ ہم اپنے مسلم معاشرے کے لیے نافذ کر سکتے ہیں؟ یعنی ہم نے نعرہ تو جمہوریت کا لگا دیا کہ یہ اصطلاح بہت اچھی، خوب اور ہمارے مسائل کے حل کے لیے بہتر ہے اور ترقی کے لیے بھی لیکن کیا ایک مسلم معاشرے میں جمہوریت اپنے مفاہیم کے تحت قابل قبول ہو گی؟ مثلاً کسی مسئلے پر قرآن کے دوٹوک فیصلے مانے جائیں گے یا کہ لوگوں کی اکثریتی رائے؟

بات یہ نہیں کہ آپ جمہوریت کو قبول کر لیں یا رد کر دیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے اس اصطلاح کی تفہیم کو اس کے معاشرے کے تناظر میں تو سمجھ لیں، اگر سمجھ لیں تو پھر فیصلہ کریں کہ اس کو قبول کریں یا رد۔ ذرا غور کریں کہ اگر کوئی محقق جمہوریت سے متعلق تحقیق کرے اور کسی مسلم معاشرے کے لیے اس کو بہترین تحفہ قرار دے بغیر اس کی اصطلاح کی اصل تفہیم سمجھے تو کیا یہ تحقیق مسلمہ اصولوں پر مبنی ہو سکتی ہے؟

اسی طرح ایک اور اہم بات یہ کہ بعض اوقات ہم کسی واقعے کو حادثہ سمجھتے ہیں حالانکہ بعض اوقات کوئی واقعہ محض حادثہ نہیں ہوتا بلکہ ایک 'پروسس' (proces) ہوتا ہے مثلاً کسی سڑک پر کوئی حادثہ بظاہر دو گاڑیوں کے درمیان ٹکراؤ لگتا ہے لیکن پروسس کے طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس قسم کے حادثات میں سالانہ لاکھوں افراد ہلاک ہوتے ہیں اور یہ ہمارے لائف اسٹائل (طرز زندگی) کے سبب ہے یعنی لائف اسٹائل کا جو پروسس ہے اس کے نتیجے میں یہ حادثہ ہوا ہے۔ چنانچہ جب کوئی محقق اس واقعے اور پروسس کے فرق کو سمجھے گا تو وہ تحقیق میں کسی بھی مسئلے کو محض واقعہ نہیں لے گا بلکہ بطور پروسس لے گا اور ایسا کرنے سے وہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ پائے گا ورنہ حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔

اسی طرح ہم یہ واقعہ دیکھیں کہ ملک چین میں کسی نے اپنے والدین کو گھر سے نکال دیا تو یہ واقعہ ہو گا لیکن اگر پروسس کے طور پر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ چین میں ماضی میں لوگ والدین سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ان کے انتقال پر ان کی پتلی بنا کر رکھ لیتے تھے، اب حکومت کو قانون بنانا پڑا کہ اولاد والدین کے لیے وقت نکالیں، یوں اس مسئلے کو بطور پروسس دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ یہ تو چین میں مادی ترقی کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ لہذا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ دونوں زاویوں میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ ہمارے ہاں عا م لو گوں ہی نہیں تحقیق کرنے والوں کے ذہن کے ساتھ بھی مطلب کی بات بلاتحقیق اپنے ذہن میں بٹھا لینے کی یعنی pick and choice کا معاملہ ہے۔ اگر کسی اصطلاح کا اصل مفہوم جانے بغیر پہلے سے اپنے ذہن میں اصطلاح بیٹھا لی جائے تو تحقیق کے نتائج کچھ اور آئیں گے۔ ہم اپنے ذہن کی اصطلاح کے مطلب سے چپکنے والی بات کو سنبھال کر رکھ لیتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے مقناطیس پر صرف لوہے کی اشیاء ہی چپکتی ہیں دیگر دھاتیں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم دنیا میں لوگ بینکنگ، ترقی اور جمہوریت وغیرہ کو مسلم معاشرے سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔

اسی تناظر میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے مشاہدے کی بنیاد پر بعض باتوں پر پہلے سے ایمان لے آتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے، یہ پہلو بھی ایک تحقیق کو یا درست نظریات کو قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ دوسروں کے پاس اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں، مثلاً ہمارے ہاں ایک پڑھی لکھی اکثریت آج بھی ملکی آبادی کی کثرت کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے اور آبادی کو کم کرنے کے منصوبوں کو ناگزیر سمجھتی ہے حالانکہ مالتھس جیسے ماہرین معاشیات کے نظریات ایک عرصہ ہوا غلط ثابت ہو گئے اور آج مغرب کا ایک اہم مسئلہ اور موضوع یہ ہے کہ 'آبادی کیسے بڑھائی جائے؟'

آئیے غور کریں، کم از کم تحقیق کرتے ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔