معین اختر سے ایک یادگار ملاقات

کوئی مصروفیت نہیں رکھوں گا۔ اور ہاں اس بار تجھے ایک سرپرائز بھی دوں گا۔


یونس ہمدم May 09, 2015
[email protected]

معین اختر بین الاقوامی شہرت کا حامل فنکار تھا وہ پاکستان، ہندوستان کے علاوہ بیرون ممالک بھی پسند کیا جاتا تھا اس کے بے شمار قدردان ساری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے میری اور معین اختر کی دوستی اس زمانے کی تھی جب ہماری جیبوں میں پیسے کم اور دوستوں کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت بہت ہوتا تھا۔ معین اختر اس زمانے میں شادی بیاہ کے فنکشنوں کی جان سمجھا جاتا تھا اسے ہر محفل کو زعفران زار بنانے کا ہنر آتا تھا۔

یہ وہ دور تھا کہ جب ہم دوستوں کی بیٹھک میں تو رات رات بھر بیٹھتے تھے مگر اپنے اپنے گھروں میں مشکل ہی سے ٹکتے تھے۔ فنکشنوں سے جب اسٹیج آرٹسٹ بنا تو وہ اسٹیج کی آن بان سمجھا جانے لگا۔ جب ٹیلی ویژن کی طرف رخ کیا تو ہر ٹی وی پروڈیوسرکی گڈبک میں آتا چلا گیا جب میزبان بنا تو ہر پروڈیوسر کی اولین ترجیح معین اختر ہی ہوتا تھا ۔معین اختر کا لباس، اس کی شخصیت، اس کی گفتگو کا انداز دل میں اترتا جاتا تھا۔

اس کے ابتدائی ٹی وی ڈراموں میں ڈرامہ ''انتظار فرمائیے'' کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی تھی پھر ہر ٹی وی پروڈیوسر معین اختر ہی کے انتظار میں رہتا تھا اس نے ٹی وی پر بہت اچھی پرفارمنس دی مگر جب اس نے ڈرامہ ''روزی'' میں کردار نگاری کی تو اس کا وہ کردار امر ہوگیا تھا۔ کراچی کی فلموں ''مسٹر کے ٹو''، ''تابعدار'' اور میری لکھی ہوئی ایک فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' میں مزاحیہ کردار ادا کیا تھا۔معین اختر تم کو خود یہ نہیں معلوم کہ تم کتنے بڑے فنکار ہو اور ایسی ہی بات ایک بار پاکستان کے لیجنڈ آرٹسٹ ضیا محی الدین نے بھی معین اختر کے بارے میں کہی تھی۔ معین اختر انور مقصود کے لکھے ہوئے ڈراموں کی روح تھا جب معین اختر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوا تو انور مقصود کی پلکوں سے گرتے ہوئے آنسو پکار پکار کر کہہ رہے تھے:''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے۔''

یہ معین اختر کے انتقال سے چند سال پہلے کی بات ہے، میں جب بھی امریکا سے پاکستان آتا تھا اور کراچی میں دیرینہ دوستوں سے ملاقاتیں رہتی تھیں، اور بیٹھکیں ہوتی تھیں تو معین اختر کے گھر بھی بڑی طویل بیٹھک رہا کرتی تھی۔ میں جب معین اخترکو فون کرکے بتاتا تھا کہ یار! میں کراچی آگیا ہوں۔ بتا کب تُو ملے گا۔ تو پھر وہ کہتا اگر تھوڑی دیرکے لیے آنا ہے تو ابھی آجا اور لمبی گپ شپ کرنی ہے تو کل فون کرنا میں اپنا شیڈول دیکھ کر بتاؤں گا۔ایک دن میں نے اسے فون کیا۔ ہاں بھائی! بتا تیرا آیندہ چند روز کا کیا شیڈول ہے، میں کراچی آگیا ہوں۔ وہ بولا اتوار کو آجا۔ اس دن میری کوئی ریکارڈنگ نہیں ہے۔

کوئی مصروفیت نہیں رکھوں گا۔ اور ہاں اس بار تجھے ایک سرپرائز بھی دوں گا۔ میں جب اتوار کو شام کے وقت اس کے گلشن اقبال والے گھر پہنچا تو وہ شاور لے کر اپنے کمرے میں فریش بیٹھا ہوا تھا۔ بڑے تپاک سے ملا۔ میں جب گلے ملنے گا تو کہنے لگا آہستہ یار! چند دن پہلے ہی میرا بائی پاس آپریشن ہوا ہے۔ پھر کچھ باتیں آپریشن کے بارے میں ہوئیں، پھر باتوں کے دفتر کھلتے چلے گئے اس دوران اس کا ناشتہ بھی آگیا۔ معین شام کو صبح کا ناشتہ کیا کرتا تھا۔ میں نے بھی اس کے ساتھ شام کی چائے پی۔ کراچی کے بعد لاہور کی فلمی مصروفیتوں کے تذکرے ہوئے تو پھر بمبئی کی فلمی شخصیتوں کے تذکرے بھی شروع ہوگئے۔

پھر ملاقاتوں کے سرے ملتے ملتے لیجنڈ ہیرو دلیپ کمار کی ملاقات تک جا پہنچے پھر وہ بڑے دلچسپ انداز میں بڑی چاہت سے دلیپ کمار سے اپنی پہلی ملاقات کی یادیں شیئر کرتے ہوئے کہنے لگا۔ میں جب پہلی بار دلیپ صاحب سے ملنے ان کی رہائش گاہ پرگیا تو میں نے پہلے ہوٹل سے فون کرتے ہوئے کہا۔سر! میں آپ کا فین معین اختر بول رہا ہوں۔ آپ سے ملاقات کا متمنی ہوں۔ دلیپ صاحب نے بڑی خوش دلی کے ساتھ فون پر کہا ارے بھئی معین اختر! تم جس دن چاہو ملنے آسکتے ہو۔ میں نے کہا سر! آپ حکم کریں کس دن آؤں۔ وہ بولے اچھا تم کل شام آجاؤ۔ مجھے تمہارا انتظار رہے گا۔ یہ کہہ کر انھوں نے فون رکھ دیا اور میں ایک سرور میں ڈوب گیا تھا۔ ان کا جملہ میرے کانوں میں شہد سا گھولنے لگا۔ مجھے تمہارا انتظار رہے گا۔ پھر جب دوسرے دن شام کو میں دلیپ کمار صاحب کے بنگلے پر گیا اور دربان سے کہا کہ اپنے صاحب سے کہیے معین اختر آیا ہے۔

دربان فوراً اندر گیا اور کچھ دیر کے بعد واپس آیا اور پھر مجھے مسکراتے ہوئے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں بنگلے کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہوا اور چند قدم چل کر جب اندر کی طرف جانے لگا تو مجھے سامنے دلیپ کمار صاحب کھڑے ہوئے نظر آئے۔ میں تیز تیز قدموں سے آگے بڑھا، دلیپ صاحب نے مجھے گلے سے لگایا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے اپنے گھر کے خوبصورت ڈرائنگ روم میں لے گئے۔

وہاں بڑی دلکش باتیں ہوئیں یوں سمجھو جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ دلیپ کمار کی شخصیت اور ان کی پرکشش گفتگو کے بارے میں میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں جو میں بیان کرسکوں۔ یار! دلیپ صاحب ایک طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ پھر معین اختر کئی بار بمبئی گیا اور دلیپ کمار سے اس کی بارہا ملاقاتیں رہیں۔ فلمی دنیا کی دیگرکئی نام ور شخصیات سے بھی اس کی ملاقاتیں ہوتی تھیں بعض فنکاروں سے اس کی بڑی بے تکلفی بھی ہوگئی تھی۔ کبھی کبھی وہ فون پر آوازیں بدل کر مختلف فنکاروں کو بے وقوف بھی بناتا تھا۔ اور پھر ہنس پڑتا تھا اور کہتا تھا یار! معاف کرنا تم مجھے پہچانے نہیں، میں وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ میں معین اختر ہوں پیارے۔ پھر دونوں طرف سے قہقہوں کے تبادلے ہوا کرتے تھے۔

معین اختر کی ثمن شیکھر اور بے بی تبسم سے بھی بڑی بے تکلفی تھی۔ اسی ملاقات میں معین اختر نے جس سرپرائزکا ذکر کیا تھا وہ سرپرائز بھی سامنے آگیا۔ معین اختر کو اداکاری کے ساتھ گلوکاری کا بھی بچپن سے شوق تھا اور وہ اپنے فنکشنوں میں اکثر احمد رشدی اور مجیب عالم کی شمولیت میں خود بھی اسٹیج پر خوب گاتا تھا۔ احمد رشدی اور مجیب عالم اس کی تفریح بھی لیتے تھے اور اس کی گائیکی کی تعریف بھی کرتے تھے۔ مجیب عالم کبھی کبھی کہتا تھا یار معین اختر! اگر تُو اسی طرح سُر میں گانے لگے گا تو ہمیں ڈر ہے تُو ہم جیسے گلوکاروں کی چھٹی نہ کروادے۔ معین اختر اس بات پر صرف قہقہہ لگا دیتا تھا۔ پھر معین اختر نے بڑی سنجیدگی سے کہا ہمدم! یہ سامنے جو برانڈ نیو ساؤنڈ سسٹم رکھا ہوا ہے اس میں ریکارڈنگ سسٹم بھی موجود ہے۔

یونس ہمدم! یہ میں نے دو ماہ پہلے ہی خریدا ہے۔ پھر معین اختر نے تلاش کرکے ایک آڈیو کیسٹ نکالی اور مجھے دکھاتے ہوئے کہنے لگا۔ یہ آڈیو کیسٹ میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اس آڈیو کیسٹ میں میرے گائے ہوئے 10آئٹم ہیں۔ ان میں غزلیں بھی ہیں اور کچھ گیت بھی۔ پھر کہنے لگا یار ہمدم! تمہیں حیرت ہوگی یہ سن کر یہ ساری میری اپنی شاعری ہے۔ اور مزید حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس کیسٹ کے گیتوں کی ساری دھنیں بھی میں نے خود بنائی ہیں۔ یہ آڈیو کیسٹ میں نے وقفے وقفے سے گھر پر ہی ریکارڈ کیا ہے اس کی ساؤنڈ کوالٹی اتنی اچھی نہ ہو مگر سننے میں پھر بھی اچھی لگتی ہے۔ پھر اس نے مجھے وہ آڈیو کیسٹ سنایا۔ میں توجہ سے سنتا رہا اور اس کی کوشش کی داد دیتا رہا وہ دس آئٹم معین اختر کی لاجواب تخلیق تھے۔

اور معین اختر نے کمپوز بھی بہت اچھے کیے تھے۔ پھر معین اختر نے مجھ سے پوچھا یار! تم اپنی صحیح رائے دو گے میری شاعری کیسی ہے۔ کہیں کچھ بے وزن زیادہ تو نہیں ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا معین! سچ بات تو یہ ہے تمہاری یہ شاعری بہت سے آج کے فلمی شاعروں سے زیادہ معتبر ہے وہ یہ سن کر خوش ہوگیا تھا۔ پھر معین کہنے لگا یار! مجھے مصروفیات کی وجہ سے اس آڈیو کیسٹ کے لیے مناسب وقت نہیں ملتا ہے۔

کہیں کسی اچھے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں اس کی ریکارڈنگ کراؤں اور ایک اچھا میوزک ارینجر (Arranger) اپنے ساتھ رکھوں اور پھر اپنے گیتوں کا البم ریلیز کروں۔ پھر وہ ایک دم سے سنجیدہ ہوگیا اور بولا یار! پتہ نہیں کہ میں اپنی اس خواہش کو پورا بھی کرسکوں گا کیونکہ یار! یہ زندگی بڑی بے وفا ہے۔ نجانے کب ساتھ چھوڑ دے۔ میں نے معین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا میرے دوست! زندگی تو ہم سب کی بے وفا ہے۔ پھر اس نے اپنے کیسٹ کا آخری آئٹم سنایا جس کے بول کچھ اس طرح تھے:

زندگی کا سفر چلتا ہے بس جیسے کوئی ریل چلے

پس منظر میں ٹرین چلنے کی آواز اور سیٹی بھی سنائی دے رہی تھی۔ آج مجھے معین اختر کے ساتھ وہ آخری ملاقات بڑی شدت سے یاد آرہی ہے۔ اور اس کے وہ جملے جو حقیقت پر مبنی تھے ''یار! یہ زندگی بڑی بے وفا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔