عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا

میں برسوں سے ضیا محی الدین کی پرکشش شخصیت کا پرستار رہا ہوں اور انھیں ریڈیو کے زمانے سے سنتا رہا ہوں


یونس ہمدم March 21, 2015
[email protected]

بین الاقوامی شہرت کے حامل فنکار ضیا محی الدین کے بارے میں پچھلے دنوں ایک جاندار اور تفصیلی مضمون سینئر صحافی اور میرے دیرینہ دوست نادر شاہ عادل نے تحریر کیا تھا جسے میں نے بھی دیگر قارئین کی طرح بڑی دلچسپی سے پڑھا تھا اور ضیا محی الدین کے بارے میں بہت کچھ مزید پتہ چلا۔

میں برسوں سے ضیا محی الدین کی پرکشش شخصیت کا پرستار رہا ہوں اور انھیں ریڈیو کے زمانے سے سنتا رہا ہوں اور ان کی خوبصورت آواز کا شیدائی رہا تھا۔ بلاشبہ ضیا محی الدین وہ فنکار ہے جسے وطن کا سرمایہ کہا جا سکتا ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے یہ جب اپنے ملک میں تھے تو جیسے ایک بند گلی میں تھے مگر جب باہر گئے تو ان کے مزید جوہر کھلے اور یہ وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اور پھر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں ہی کے بل بوتے پر لندن میں براڈوے کے اسٹیج پر کافی عرصے تک چھائے رہے۔

ضیا محی الدین نے شیکسپیئر کے ڈراموں کو اپنی آواز اور اپنی اداکاری کے حسن سے کچھ اور سجایا اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو خوب منوایا۔ ہالی ووڈ کی فلموں میں بھی کام کیا اور دنیا کے عظیم فنکاروں کے درمیان اپنی بھی ایک شناخت اور پہچان پیدا کی۔ ضیا محی الدین کے بارے میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ الفاظ خود خواہش کرتے ہیں کہ وہ ضیا محی الدین کی زبان سے ادا ہوں۔ یہ جب ملک سے باہر رہے تو ملک کا نام بلند کرتے رہے پھر جب وطن واپس آئے تو بیوروکریسی کے ہاتھوں یہ چاند گہنا دیا گیا۔

ضیا محی الدین کو پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کا انچارج بنایا گیا جو ایک بہت چھوٹا عہدہ تھا جب کہ اسی ملک میں فن اور ثقافت کے وفاقی و صوبائی وزیر ایسے لوگ بنتے رہے جن کا کبھی فن و ثقافت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ بعض وزیر تو ایسے بھی آئے جنھیں قومی زبان بولنے کا شعور بھی نہ تھا مگر وہ وفاقی اور صوبائی و ثقافتی وزیر بن کر فن اور ثقافت کا جنازہ نکالتے رہے۔ ایسے ثقافتی وزیروں نے ثقافتی قدروں کو ملک میں مہیب اندھیروں کی نذر کر دیا۔

ضیا محی الدین جیسی شخصیت کو ثقافت کا وزیر بنا کر ملک میں فن و ثقافت کو فروغ دیا جا سکتا تھا۔ فن و ثقافت کی گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دیا جا سکتا تھا۔ مگر سیاست کی بساط پر چالیں چلنے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے کبھی بھی ملک میں فن و ثقافت کی ترقی میں دلچسپی نہیں لی اور ہمیشہ خوشامدی لوگوں اور جی حضوریوں کو ان عہدوں سے نوازتے رہے۔ افسر شاہی نے ہمارے ملک میں کسی دور میں بھی فنکاروں کو نہ اہمیت دی اور نہ ہی ان کا جائز مقام انھیں دیا اور یہ المیہ یوں ہی سفر کرتا رہا ۔

پاکستان کے ایک نامور گائیک استاد نصرت فتح علی خاں کے ساتھ بھی ملک میں ایسا ہی ناروا سلوک کیا گیا انھیں صرف ایک قوال ہی بنا کر رکھا گیا اور جب PTV پر انھیں مہینے میں دو تین پروگرام قوالی کے دیے جاتے تھے تو وہ بھی اس طرح کہ جیسے ان پر احسان کیا جا رہا ہے جب کہ اس وقت بھی ان کی آواز میں ایک جادو تھا جو سر چڑھ کر بولتا تھا۔

ان کے گلے کا سوز و گداز عین شباب پر تھا۔ پھر جب یہی استاد نصرت فتح علی خاں امریکا اور لندن گئے اور جب وہاں جانے کے بعد انھوں نے اپنے پروگرام کیے تو وہ وہاں آندھی کی طرح چھاتے چلے گئے اور ایسے بڑے بڑے ہالوں میں اپنے پروگرام کیے جہاں بدیسی فنکاروں کو چالیس، پچاس ہزار کا Crowd اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہو سکا تھا۔

اور یہ اعزاز پاکستان کے فنکار استاد نصرت فتح علی خاں کو حاصل ہوا تھا۔ ہزاروں پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے علاوہ انگریزوں کی بھی ایک بڑی تعداد بھی استاد نصرت فتح علی خاں کے پروگرام سننے کے لیے بڑے شوق سے آتی تھی اور دیسیوں کے علاوہ بدیسی بھی ان کی گائیکی کے دیوانے ہو گئے تھے۔

استاد نے بیرون ممالک میں بھی اپنے فن کا ایسا رنگ جمایا ایسا اثر دکھایا اور وہ دھوم مچائی کہ استاد نصرت فتح علی خاں کو بے مثال بنا دیا اور جب یہ یورپ سے ہندوستان گئے تو سارے ہندوستان میں ان کی پوجا کی جانے لگی انھوں نے وہاں اپنی گائیکی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ہندوستانیوں نے ان کی موسیقی کے منڈپ کو مندر کا درجہ دینا شروع کر دیا تھا۔

کسی بھی انڈین فلم میں ان کا جو بھی گیت ریکارڈ ہوا وہ گیت بھی سپر ہٹ ہوا اور وہ فلم بھی کامیاب ہوئی وہاں کا ہر نام ور موسیقار ان کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنا اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا تھا جو قدر و منزلت انھیں بیرون ملک میں ملی وہ اپنے وطن میں نہ مل سکی جب کہ فن کا یہ کوہ نور ہیرا اسی ملک کی مٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر ہمارے ملک میں میرٹ کے قتل عام نے ہر فنکار کو بد دل اور مایوس کر دیا ہے۔

ہمارے ملک میں ہر شعبہ میں کل بھی میرٹ کا فقدان تھا اور آج بھی وہی صورتحال ہے اور ہر شعبے میں باصلاحیت افراد کے لیے دروازے بند ہیں اور بندر بانٹ کا رواج ہے خاص طور پر فنکاروں کے راستے تو روز بہ روز مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔

پچیس سال پہلے پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے شباب پر تھی، جسے ضیا الحق نے برباد کیا پھر سیاسی کساد بازاری نے فلم و فن پر قدغن لگائی اور آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوتی چلی گئی ہزاروں ٹیکنیشنز اور باصلاحیت فنکار روٹی روزی سے محروم ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ گاہے گاہے بیشتر فنکار جن میں نصرت فتح علی خاں، اسد امانت علی، شفقت امانت علی، عاطف اسلم اور علی ظفر ملک کے مایوس کن حالات سے دل برداشتہ ہو کر ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں اپنا ٹھکانہ بنانے کے لیے جاتے رہے۔

عدنان سمیع نے ہندوستان کی شہریت اختیار کی پھر اپنے وطن آیا پھر مایوس ہوا اور اب دوبارہ ہندوستانی شہریت کے لیے پر تول رہا ہے۔ بے شمار فنکار بیرون ملک جا کر اپنے فن کی پیاس بجھا رہے ہیں ایک ایسا ہی فنکار محمود سلطان تیس سال سے لندن میں ہے۔ یہی فنکار جب کراچی میں تھا تو کراچی اسٹیج کا ایک مشہور اداکار تھا۔

پھر وہ کراچی سے لاہور گیا۔ لاہور میں اس نے کٹھن حالات گزارے اس کے باوجود اس نے ہدایت کار حسن عسکری، اقبال کاشمیری اور جان محمد جمن کی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے مگر وہاں بھی گروپ بندی کا شکار رہا اور پھر مایوس ہو کر لندن چلا گیا اور پھر لندن ہی کا ہو کر رہ گیا اسی طرح بہت سے باصلاحیت فنکار ہیں جو اپنے ملک کو داغ مفارقت دے چکے ہیں۔

کیلیفورنیا میں پاکستان کے نامور سنگر ایس بی جون کا بیٹا روبن جون جو ایک بہترین گٹارسٹ اور کمپوزر ہے اپنے فن سے خوب عزت اور شہرت کما رہا ہے اسی طرح لاس ویگاس میں مشہور میوزیشن اقبال حسین نے اپنا ایک نمایاں مقام بنایا ہوا ہے۔ نیویارک میں گلوکار ظفر اقبال اپنی آواز کا جادو جگا رہا ہے۔ نیویارک سے شکاگو تک ادیب، شاعر، موسیقار اور گلوکار اپنے اپنے فن کی مہارت سے اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں اور اس شعر کی گواہی دے رہے ہیں:

عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔