چند فلمی فنکاروں کی مثالی شادیاں آخری حصہ

کہتے ہیں نا کہ نقل میں بھی عقل کی ضرورت ہوتی تھی۔ اور یہ عقل ندیم میں بدرجہ اتم موجود تھی۔


یونس ہمدم January 25, 2015
[email protected]

روزینہ نے ایک دن ماں سے کھل کر بغاوت کردی اور اس نے رفعت قریشی سے شادی کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ روزینہ کو ایک اچھے شوہر کی تلاش تھی اور وہ اپنی اس تلاش میں کامیاب ہوچکی تھی آخر ایک دن روزینہ نے رفعت قریشی سے شادی کر ہی لی اور پھر دونوں کی شادی کی خبریں اخبارات کی زینت بن گئیں۔ اس طرح رفعت قریشی اداکارہ روزینہ کو لے اڑا اور پھر روزینہ بھی اپنی شادی شدہ زندگی میں دلچسپی لینے لگی اور وہ آہستہ آہستہ فلموں سے کنارہ کش ہوتی چلی گئی۔

ادھر رفعت قریشی کی محبت اپنے خوشگوار انجام کو پہنچی تو جلد ہی عابد قریشی کے بارے میں بھی پتہ چلا کہ وہ کراچی کی اسٹیج اداکارہ افشاں کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ اداکارہ افشاں کراچی کے اسٹیج ڈراموں میں کافی مقبول ہوتی جارہی تھی اور ڈراموں کے ساتھ ساتھ یہ میمن اور گجراتی زبان کے ڈراموں میں بھی کام کرتی تھی، خاص طور پر اس دور کے میمن و گجراتی ڈراموں کے رائٹر و ڈائریکٹر عثمان میمن کی گڈ بک میں افشاں کا نام سرفہرست تھا۔

کراچی میں گجراتی اور میمنی کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد تھی، جب کہ بوہری کمیونٹی بھی گجراتی زبان کے ڈرامے شوق سے دیکھا کرتی تھی اور کراچی میں یہ ڈرامے بڑی شد و مد سے اسٹیج کیے جاتے تھے اور بہت پسند کیے جاتے تھے۔ معین اختر، رزاق راجو، اسماعیل تارا، لیاقت سولجر اور شہزاد رضا اردو اسٹیج ڈراموں کے ساتھ میمنی اور گجراتی زبان کے ڈراموں میں بھی کام کرتے تھے اور اسٹیج ڈراموں کا کاروبار ان دنوں بڑے عروج پر تھا۔ اداکارہ افشاں سے بھی میری اچھی خاصی ملاقات تھی۔

ایک دن اس نے ایک اسٹیج ڈرامے میں کام کرنے کے دوران یہ خوش خبری سنائی کہ اسے فلمساز قدیر خان نے اپنی ایک گجراتی فلم میں سائیڈ ہیروئن کا کردار دیا ہے، فلمساز قدیر خان کئی کامیاب فلموں کے خالق تھے۔ ان کی ایک فلم ''نادان'' نے تو بڑی کامیابی حاصل کی تھی ''نادان'' میں ندیم کے ساتھ نشو ہیروئن تھی اور ''نادان'' انڈین فلم ''گوپی'' کا ہو بہو چربہ تھی۔ ''گوپی'' میں جس انداز سے دلیپ کمار اور سائرہ بانو نے کردار نگاری کی تھی اسی طرح ہر منظر میں ندیم اور نشو نے اداکاری کی تھی اور ندیم نے دلیپ کمار کی کاپی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

کہتے ہیں نا کہ نقل میں بھی عقل کی ضرورت ہوتی تھی۔ اور یہ عقل ندیم میں بدرجہ اتم موجود تھی اور ہدایت کار اقبال اختر کا نام تو نقل کے ماہرین میں ان دنوں سرفہرست تھا۔ جب اقبال اختر لاہور گئے تو ان کی اسی شہرت کی وجہ سے انھیں لاہور میں کئی فلمیں ملیں اور ان کی وہاں بھی پہلی فلم ''جب جب پھول کھلے'' سپر ہٹ فلم تھی، جو انڈیا کی ایک سپر ہٹ فلم رہی تھی۔

خیر بات ہو رہی تھی اداکار عابد قریشی کی، عابد قریشی نے باپو رفیق رضوی اور ہدایت کار اقبال یوسف کی فلموں میں سائیڈ کردار ادا کیے تھے مگر عابد قریشی کو کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ اسی طرح اداکارہ افشاں اچھی قبول صورت تھی، اسے کراچی کی فلموں میں کافی کام بھی ملا مگر وہ ہیروئن کبھی نہ بن سکی۔ ہاں وہ اداکار عابد قریشی کے دل کی ہیروئن بنتی جارہی تھی، ان دونوں کی چوری چھپے ملاقاتیں اب راز نہیں رہی تھیں۔ اداکار ناظم اور طلعت حسین قسمت آزمانے جس طرح لاہور کی فلم انڈسٹری میں گئے تھے اسی طرح عابد قریشی نے بھی افشاں کو ساتھ لیا اور لاہور چلا گیا۔

وہاں جاکر دونوں نے شادی کرلی، عابد قریشی جب لاہور کی فلمی دنیا میں بھی اداکار نہ بن سکا تو وہ کمرشل پروڈیوسر بن گیا۔ پڑھا لکھا، ذہین اور حوصلہ مند تھا اور شادی کے بعد اس کی ذمے داریاں بھی بڑھتی جارہی تھیں۔ عابد قریشی نے اپنا ٹریک بدلا اور پھر وہ اداکاری کو خیر باد کہہ کر کمرشل پروڈیوسر بن گیا۔ جلد ہی لاہور میں اس نے اپنی پی آر کے ذریعے ایک اچھا خاصا دوستوں کا حلقہ بنالیا اور پھر نئے نئے آئیڈیاز کے ساتھ کئی کمرشل فلمیں بنائیں جنھیں عوامی حلقوں میں پذیرائی ملتی چلی گئی اس دوران یہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔

بیٹے کا نام فیصل قریشی رکھا اور افشاں نے بھی وقتی طور پر اداکاری کے شوق کو بھلاکر اپنی ساری توجہ اپنے بیٹے فیصل قریشی کی پرورش کی طرف مرکوز کردی جیسے جیسے فیصل قریشی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا یہ بھی اداکاری کی طرف راغب ہوتا چلا گیا۔ فن اسے اپنے باپ سے ورثے میں ملا تھا۔ پھر ماں بھی ایک فنکارہ تھی۔

فیصل قریشی کو فن کی پہلی تربیت اپنے گھر ہی سے ملی، عابد اور افشاں کی زندگی میں ایک سکون تھا، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں مگر فلک کج رفتار کو ان کی خوشیاں اچھی نہ لگیں، پھر خوشیوں بھری زندگی وہ دکھ بھرا دن بھی آیا جب عابد قریشی جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ جب عابد قریشی کا لاہور میں انتقال ہوا تھا میں ان دنوں کراچی میں تھا اور جب رفعت قریشی کا کراچی میں انتقال ہوا تو میں امریکا آچکا تھا۔ میری گزشتہ بیس پچیس سال پہلے افشاں سے لاہور میں اور روزینہ سے کراچی میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ طارق روڈ کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی۔

دونوں اداکاراؤں نے جوانی ہی میں اپنے شوہروں سے بچھڑنے کا دکھ سمیٹا ہے۔ روزینہ کا احوال تو مجھے پتہ نہیں کیا ہے۔ ہاں افشاں اب بھی اکثر و بیشتر ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے، آج اس کا بیٹا فیصل قریشی ایک نامور اداکار بن کر ٹی وی ڈراموں پر چھایا ہوا ہے اور اس کی کردار نگاری نے لوگوں کے دل موہ لیے ہیں۔ فیصل قریشی نے اپنے اداکار باپ عابد قریشی کے سارے ادھورے خواب پورے کردیے ہیں۔ فیصل قریشی کو خدا سلامت رکھے اور مزید عروج عطا کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔