(تحریر: ڈاکٹر عمر فاروق یوسف زئی)
فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک ایسا المیہ ہے جو نہ صرف اس خطے کے امن کو تباہ کررہا ہے بلکہ دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں میں شدید غم و غصے کو جنم دے رہا ہے۔ حالیہ اسرائیلی حملوں میں جس طرح بے گناہ فلسطینیوں کی جانوں کا ضیاع ہوا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عالمی ضمیر انسانی حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ ان حملوں میں مرنے والا ہر معصوم بچہ، مرد و عورت نئی نسل کے دلوں میں انتقام کی آگ کو بھڑکاتا ہے، اور اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آخر یہ ظلم کب تک جاری رہے گا؟ کیا دنیا خاموش تماشائی بن کر انسانیت کی اس تباہی کو دیکھتی رہے گی؟
اسرائیلی حملے فلسطینیوں کےلیے ایک ایسی قیامت ثابت ہوئے ہیں جس نے وہاں کی زمین کو انسانی خون سے رنگین کردیا ہے۔ ہر فضائی حملہ، ہر ٹینک کا فائر، ہر میزائل کا نشانہ ایک اور معصوم کی زندگی کو ختم کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں باقی ماندہ فلسطینیوں میں بے بسی اور انتقام کے جذبات کو مزید گہرا کرتا ہے۔ وہ فلسطینی بچے، جو ان حملوں کا نشانہ بنے، اب صرف ایک اعداد و شمار نہیں، بلکہ وہ آنے والے تباہ کن ردعمل کی علامت ہیں۔ جب کوئی قوم اپنے بچوں کو خون میں ڈوبتا دیکھتی ہے، تو وہ بے حسی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی؛ وہ نفرت اور انتقام کی آگ میں جلنے لگتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ظلم کی بنیاد پر تعمیر ہونے والا کوئی بھی نظام منہدم ہوجاتا ہے۔
فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور مغربی ممالک کی منافقانہ حمایت ایک ایسے سانحے کو جنم دے رہی ہے جس کا جواب صرف غم و غصہ اور انتقام کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے۔ یہی صورت حال ہمیں افغانستان میں نظر آئی تھی جب مغربی قوتیں اور امریکa وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر تباہی کا ننگا ناچ کھیلتے رہے۔
دونوں خطوں میں جو بات مشترک ہے، وہ معصوم انسانوں کی زندگیاں ہیں جو ان فوجی کاروائیوں اور حملوں میں ضائع ہوئیں، اور ان ہلاکتوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدید ردعمل اور انتقامی جذبات ہیں۔ ان مظالم کا جو مشترکہ پہلو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم یا کمیونٹی کے بچوں اور بے گناہ انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے تو وہ صبر و تحمل کی حدوں سے آگے بڑھ کر انتقام کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
افغانستان میں 2001 کے بعد مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکا، نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ اس جنگ کا مقصد بظاہر القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنا تھا، لیکن اس کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی اس کا سب سے زیادہ شکار افغانستان کے عوام بنے۔ امریکا اور نیٹو کی افواج نے بار بار ڈرون حملے اور فضائی بمباری کی، جن کا نشانہ مبینہ طور پر دہشت گرد تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں ہزاروں معصوم افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔
آج بھی غزہ میں ہر مرنے والا بچہ اپنے پیچھے ایک خاندان چھوڑتا ہے جو غم و غصے اور انتقام کی آگ میں جلتا ہے۔ ان خاندانوں کےلیے اپنے بچوں کی بے گناہ ہلاکت کو بھولنا یا معاف کرنا ممکن نہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جنگی حکمت عملیوں نے نہ صرف افغانستان بلکہ اب غزہ اور لبنان میں بھی مزید بے امنی کو فروغ دیا بلکہ وہاں ایک ایسی نسل کو جنم دیا جو انتقام اور نفرت کے جذبات سے بھرپور ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو عسکریت پسندی کو تقویت دیتا ہے، اور نئی نسل کا انتقامی جذبہ اسی ظلم کا ردعمل بن جاتا ہے۔
فلسطین اور افغانستان کے مسائل بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن ان میں کئی اہم مشترکہ عناصر ہیں۔ دونوں خطوں میں مغربی طاقتوں کی جانب سے فوجی مداخلت اور حملوں کا سلسلہ جاری رہا ہے، اور دونوں جگہوں پر معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا ہے۔ فلسطینی بچے ہوں یا افغان بچے، جب وہ جنگ کا شکار بنے اور بنتے ہیں، تو ان کے خاندانوں میں ایک ایسا ردعمل پیدا ہوتا ہے جو ان کے مستقبل کو تاریک بنا دیتا ہے۔ وہ اپنی محرومیوں، غم اور بے بسی کو انتقام کی شکل میں ڈھالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
انسانی نفسیات کا یہ فطری اصول ہے کہ جب کوئی فرد یا کمیونٹی مسلسل ظلم و جبر کا سامنا کرتی ہے، تو وہ یا تو مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے یا پھر وہ جارحانہ رویے اختیار کرلیتی ہے۔ فلسطینی عوام کی زندگی جبر اور ظلم کے سائے تلے گزر رہی ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مغربی طاقتیں اور امریکا ان ممالک میں جاری خونریزی کےلیے کب تک اپنی ذمے داری سے بچتے رہیں گے؟
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے جو انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں، فلسطین میں ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور بیانات اس وقت بے معنی ہوجاتے ہیں جب فلسطین میں اسرائیل کے مظالم جاری رہتے ہیں یا افغانستان میں ڈرون حملوں میں معصوم لوگوں کا خون بہایا جاتا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس مسئلے پر دہرے معیار کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کیا یہ بات انسانی حقوق کے علم برداروں کے دعووں کی ناکامی نہیں ہے کہ معصوم انسانوں کی ہلاکتوں پر عالمی سطح پر کوئی مؤثر ردعمل سامنے نہیں آیا؟
مغربی دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بچے بھی اسی طرح کے خواب دیکھتے ہیں جیسے کسی مغربی ملک کے بچے۔ ان کے خوابوں کو ختم کردینا صرف ایک ظلم نہیں بلکہ آنے والے کل کےلیے تباہ کن نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ آج اگر انصاف نہ کیا گیا، تو یہ خطے بدامنی اور انتقام کی آگ میں جلتے رہیں گے، اور اس کا اثر صرف ان علاقوں تک محدود نہیں رہے گا۔
سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کو جو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے، وہ ان ممالک سے آتی ہے جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار اور جمہوریت کے چیمپئن قرار دیتے ہیں۔ برطانیہ، امریکا، اور فرانس جیسے ممالک ببانگ دہل اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسے ہر قسم کی فوجی مدد فراہم کررہے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو آزادی اظہار، حقوق انسانی، اور عالمی امن کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن جب فلسطینیوں کی بات آتی ہے تو ان کا یہ مکروہ اور دوغلا چہرہ سامنے آتا ہے۔
کیا انسانی حقوق صرف مغربی دنیا کے لوگوں کےلیے ہیں؟ کیا فلسطینیوں کو زندہ رہنے، جینے اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں؟ امریکا نے اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے کےلیے اپنے بحری بیڑے تک متحرک کردیے ہیں، اور برطانیہ اور فرانس نے بھی کھلے عام اسرائیل کے حق میں بیان دیے ہیں۔ اسرائیل کو ہر وہ حربہ اپنانے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس سے وہ فلسطینیوں کو نشانہ بنا سکے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو عالمی فورمز پر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن جب فلسطینیوں کی نسل کشی کی بات آتی ہے، تو ان کی زبانیں خاموش ہوجاتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔