پرسکون شخصیت

میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ میرے ساتھی نے مجھے متوجہ کرتے ہوئے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا


Dr Naveed Iqbal Ansari July 21, 2014
[email protected]

میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ میرے ساتھی نے مجھے متوجہ کرتے ہوئے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ غور سے دیکھو یہ شخص کس قدر پرسکون ہے، اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا ہے۔ میں نے بھی غور سے دیکھا تو ایسا ہی محسوس کیا، واقعی یہ شخص بہت پرسکون دکھائی دے رہا تھا، اس کی آستین کے بٹن بھی کھلے ہوئے تھے وہ نظریں جھکائے چلا جا رہا تھا۔ اس کی شخصیت میں بڑا سکون معلوم ہوتا تھا۔

خیر کچھ عرصے بعد ایک جاننے والے کے توسط سے ان پرسکون صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ یہ بڑا عجیب سا اتفاق تھا بہرحال ایک ملاقات کے بعد بھی کئی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ایک روز ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ جناب آپ کی شخصیت کا راز کیا ہے؟ کیا آپ اندر سے بھی اتنے ہی پرسکون ہیں؟

انھوں نے ہمیں جواب دیا کہ آپ بھی یہ سکون حاصل کرسکتے ہیں، ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ جناب سکون کیا کوئی شے ہے جو ہم بازار سے خرید لائیں، ہمارے خیال میں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نیند کی گولیاں کھا لیں تب بھی انھیں رات بھر نیند نہیں آتی سکون تو دور کی بات ہے۔

بہرکیف ہم نے اس عظیم آدمی سے پھر سوال کر ڈالا کہ یہ سکون نامی شے بھلا کہاں دستیاب ہوگی؟ انھوں نے جواب دیا کہ سکون نامی شے کہیں دستیاب نہیں ہوتی بلکہ آپ کے اپنے پاس ہوتی ہے جس کو آپ خود سے گم کر دیتے ہیں۔ہمیں ان کے جواب پر تشنگی سی محسوس ہوئی اور وہ اس بات کو سمجھ گئے چنانچہ انھوں نے پھر کہا کہ سنو!

اپنی نیت صاف رکھو! کسی سے حسد نہ کرو! کسی کی پیٹ پیچھے غیبت نہ کرو اور خواہشات کے پیچھے نہ بھاگو ورنہ سکون آپ کے پاس سے بھاگ جائے گا اور دولت لٹانے کے باوجود آپ کو سکون میسر نہ آئے گا۔ انھوں نے پھر کہا کہ میری یہ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کبھی کسی کے پیچھے اس کی برائی نہ کروں نہ ہی کسی کی برائی سنوں اگر کوئی برائی کرتا بھی ہے تو میں اس کو منع کردیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ کوئی اور بات کرو۔ یہ کام کرنا آسان نہیں بہت ہی مشکل ہے کیونکہ آپ کے دوست احباب آپ کو یہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اگر آپ ان سے اختلاف کریں تو ان کی ناراضگی کا خطرہ ہوتا ہے۔

جب آپ کسی کی پیٹ پیچھے برائی کریں گے اور کسی ذریعے سے متاثرہ شخص کو جھوٹی سچی اطلاع پہنچ گئی تو اس سے آپ کے تعلقات خراب ہوں گے اور ایک سرد جنگ یا کشیدہ تعلقات کا سلسلہ چل نکلے گا یوں آپ کا سکون اس سے متاثر ہوگا۔ یاد رکھو کسی دوسرے کا سکون برباد کرکے آپ کو کبھی سکون میسر نہیں آ سکتا۔

دوسری بات یہ کہ ہمیشہ اپنی نیت صاف رکھو! کبھی کسی کے لیے غلط نہ سوچو نہ ہی دوسرے کے مال کو ہڑپ کرنے کا خیال دل میں لاؤ! اللہ پر توکل رکھو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ بعض کو بعض پر رزق زیادہ عطا کرتا ہے اس لیے حسد بھی نہ کرو بلکہ ہر حال میں شکر ادا کرو۔ اگر شکر ادا نہ کروگے تو پریشان رہوگے اور پریشانی میں سکون نہیں ملتا۔

ایک آخری بات انھوں نے سخت تاکید کے ساتھ کی اور کہا کہ خواہشات کے پیچھے مت بھاگنا کیونکہ خواہشات انسانی کبھی ختم نہیں ہوتیں، ایک کے بعد سلسلہ چلتا رہتا ہے، خواہشات کے پیچھے بھاگنے سے کبھی بھی سکون نہیں ملے گا یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔

اس مختصر گفتگو کے بعد انھوں نے ایک کتاب ہمارے حوالے کی اور کہا کہ اس کا مطالعہ کرو، اس کو پڑھنا نہیں بلکہ پہلے سمجھنا اور پھر غور و فکر کرنا اس کتاب سے تمہاری شخصیت میں سکون بڑھتا جائے گا۔ یہ کتاب امام غزالی کی ''مکاشفات القلوب'' (ترجمہ مولانا عبدالمجید) کی تھی۔

اس کتاب کو کھولا تو اتفاق سے صفحہ نمبر 128 پر سب سے اوپر تحریر تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے تم میں سب سے زیادہ ڈر دو طرح کے لوگوں پر ہے ایک وہ جو امیدیں لمبی باندھنے لگیں اور دوسرے وہ جو خواہشات کی پیروی کرنے لگیں۔ یہ بہت گہری اور قابل غور بات تھی جس پر غور کرنے سے بہت کچھ سمجھ میں آیا۔

اس کتاب نے واقعی میرے دوست کی اور میری اپنی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ہم دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی ہماری شخصیت میں بھی اب پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سکون ہے۔اس کتاب کے مطالعے کے بعد میرا دوست اور میں اکثر یہ بات کرتے کہ واقعی ہم لوگوں نے اپنی زندگیوں میں خواہشات کے انبار لگا دیے ہیں اور ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دن رات دولت اکٹھا کرنے اور کمانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم نے اپنے بچوں اور بزرگ والدین کو صرف روٹی پیسہ ہی نہیں دینا بلکہ انھیں وقت بھی دینا ہے۔

بچوں کی اچھی تربیت بھی کرنی ہے مگر بچوں کی اچھی تربیت کیسے کریں گے کہ جب ہم خود حسد، غیبت اور خواہشات کے غلام ہوں اور پھر ہم انھیں سکون کیسے فراہم کریں گے جب ہمیں خود سکون کی تلاش ہو۔ پھر ایک سوچ یہ بھی ہے کہ مال دولت بچوں کے لیے جمع کرکے انھیں ڈھیر ساری خوشیاں دی جا سکتی ہیں حالانکہ یہ بات صد فیصد درست ہوتی تو اکثر دولت مندوں کو رات کی نیند لینے کے لیے گولی نہ کھانی پڑتی۔

میں ایک ایسی شخصیت سے بھی واقف ہو کہ جو سرکاری ملازمت سے قبل ایک چھوٹے سے تنگ مکان میں رہتے تھے اور چند ہزار کی تنخواہ میں گزارا کرتے اور کہتے تھے کہ گزارا نہیں ہوتا ۔ انھوں نے بہت تیزی سے ترقی کی اور اب ایک سرکاری ملازمت میں انھیں ڈیڑھ لاکھ سے زائد آمدنی ہوتی ہے مگر ان کا آج بھی شکوہ ہے کہ گزارہ نہیں ہوتا۔

میرے ایک قریبی عزیز ملازمت کے لیے مارے مارے پھرتے تھے ، اچھی نوکری ان کا خواب تھا نوکری ملی تو نوے ہزار کے قریب تنخواہ لگی، اس کے بعد یہ ملک سے باہر جانے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کے کیوں جارہے ہو؟ کہنے لگے گزارہ تو ہو جاتا ہے مگر بچت نہیں ہو پا رہی۔ میرے پاس جب سائیکل نہ تھی تو اس کو خریدنے کی فکر تھی یہ مل گئی تو موٹر سائیکل کی فکر لاحق ہو گئی، پھر کار کی فکر اور پھر بیرونی ملک ہوائی جہازوں میں سیرو تفریخ کی خواہشیں جنم لینے لگی، غرض میرا سکون ان خواہشات کی نذر ہوگیا۔

آئیے اس سے قبل کہ ہمارا سکون ہم سے جدا ہوجائے اور ہم اس کی تلاش کریں غور کریں اور اپنی شخصیت کو پرسکون بنائیں بالکل ویسے ہی جیسے مذکورہ شخص نے ہمیں مشورہ دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔