اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو ہمیں اپنے دستور کے مطابق سیر صبحگاہی کی سوجھی اور نکل گئے


Intezar Hussain July 13, 2014
[email protected]

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی تو ہمیں اپنے دستور کے مطابق سیر صبحگاہی کی سوجھی اور نکل گئے باغ جناح کی طرف۔ مگر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کتنے زمانے سے ہم صبح منہ اندھیرے اٹھتے ہیں اور باغ جناح کی طرف نکل جاتے ہیں۔ لیجیے موقعہ کے حساب سے ن' م' راشد کی ایک بھولی بسری نظم کا ایک مصرعہ یاد آ گیا؎

بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں

یہ تقسیم سے پہلے کی لکھی ہوئی نظم کا مصرعہ ہے۔ تقسیم کے بعد یعنی پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد لارنس باغ جلد ہی باغ جناح بن گیا۔ ویسے تو مال روڈ کو بھی پاکستان کے حساب سے بدلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کا نیا پاکستانی نام ہے شاہراہ قائد اعظم۔ لیکن بیشک وہ سرکاری کاغذات میں شاہراہ قائد اعظم ہے مگر سڑکوں' محلوں اور بستیوں کے نام وہ چلتے ہیں جنھیں قبول عام کا شرف حاصل ہو جائے۔ تو مال روڈ اب بھی مال روڈ ہے۔ جب کہ لارنس باغ ابتک اچھا خاصا باغ جناح بن چکا ہے۔ یہ نکتہ لاہور کارپوریشن کے سمجھنے کا ہے۔ لیکن وہ یہ نکتہ سمجھنے کے لیے کبھی تیار نظر نہیں آئی۔ اور لاہور کی سڑکوں کے ایسے ایسے نام تجویز کیے کہ معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ پیشگوئی کر سکتا تھا کہ یہ نام نہیں چلے گا۔

خیر یہ ذکر تو یوں ہی بیچ میں نکل آیا۔ ذکر یہ تھا کہ اگر ہم کل صبح ہی صبح باغ جناح کی طرف ہو لیے تو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نئی بات ہمیں یہ نظر آئی کہ ارے آج تو باغ آدم زاد سے بالکل خالی نظر آ رہا ہے۔ پرندوں کی چہکار سے البتہ فضا گونج رہی ہے۔ پھر ہمیں فوراً ہی خیال آیا کہ ارے یہ رمضان کے ایام ہیں۔ سحری اور اس کے بعد نماز صبح گاہی۔ اس کے بعد کتنے روزہ دار پھر سے آرام کرتے ہیں۔ صبح کی سیر کرنے والے بھی شاید اسی باعث ان صبحوں میں باغ جناح میں کم کم نظر آتے ہیں۔ کسی کسی صبح کو تو اچھا خاصا سناٹا ہوتا ہے لیکن اگر واپسی کی جلدی نہ ہو تو پھر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ صبح کے سیلانی ایک ایک کر کے آتے جا رہے ہیں۔

بہر حال یہ روزوں کا موسم ہے۔ اس حساب سے مسجدوں میں رونق زیادہ ہے۔ باغ جناح میں کم ہے' بہت ہی کم۔ پرندوں کی بن آئی ہے۔ آجکل کی صبحوں میں وہ اپنے آپ کو زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں۔ باغ جناح کے آسمان پر زیادہ اڑتے نظر آتے ہیں اور درختوں کے بیچ زیادہ چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہاں پرندوں کی چہکار سے ہمیں اچانک احساس ہوا کہ ارے ان بھانت بھانت کی بولیوں میں ایک آواز جو اس موسم میں بہت سنائی دیا کرتی تھی گم ہے۔ دکھیا کوئلیا کُو کُو کرتے آخر کس طرف نکل گئی۔ پھر ہمیں یاد آیا کہ جب اس کے کوکنے کا موسم شروع ہوا تھا اس وقت تو ہم نے ایک صبح اس کی آواز سنی تھی۔ پھر اس کے بعد جانے کیا ہوا کہ پھر اس کی کوک سنائی نہیں دی۔ آخر وہ اب کوکتی کیوں نہیں۔ یہ موسم اس کے کوکنے کا ہے۔ اس موسم میں وہ چپ سادھے ہے۔ تو کیا وہ اس باغ سے ہجرت کر گئی ہے مگر کیوں۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔ پھر ہمیں ناصر کاظمی کا ایک شعر یاد آیا؎

اڑ گئے یہ باغ سے کہہ کر طیور

اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

بس اسی کے ساتھ ہمیں برے برے خیال آنے لگے۔ کچھ اگلی پچھلی باتیں یاد آنے لگیں۔ بہت سالوں پہلے کی ایک خبر یاد آئی۔ کسی دور کے جنگل کے بارے میں ایک رپورٹر نے یہ درد بھری خبر اپنی رپورٹ میں سنائی تھی کہ اس جنگل میں اب سے دس برس پہلے ایک قتل ہو گیا تھا۔ بس اس کے بعد یہاں کے پرندوں نے چہکنا چھوڑ دیا۔ درختوں میں پرندوں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرندے جنگل میں موجود ہیں مگر اب وہ چہچہاتے نہیں۔ مگر کیا یہ کوئی نرالا جنگل تھا کہ قتل کی واردات سے اب تک نا آشنا چلا آتا تھا۔ اب ایسی واردات ہوئی تو اس جنگل کے پرندوں نے اس سانحہ کو شدت سے محسوس کیا اور چہکنا بند کر دیا۔

اگر معاملہ یوں ہے تو پاکستان کے پرندوں کو کم از کم اس ظالم مہینے میں جب تشدد کی آندھی چلی ہوئی ہے اور دہشت گردوں نے کتنے بھرے پرے خاندانوں کو اجاڑ ڈالا ہے اور کتنی بستیوں میں ان کی وجہ سے صف ماتم بچھی ہوئی نظر آتی ہے۔ کیا اس ملک کے پرندے بھی آدمیوں سے بڑھ کر بے حس ہو گئے ہیں۔

پھر ہم نے لاہور کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یاد آیا کہ لاہور جو یاروں کو نسبتاً خاص طور پر کراچی کے مقابلہ میں محفوظ شہر نظر آتا تھا۔ یہاں اچانک ایک ایسی واردات گزری جو کراچی کی وارداتوں سے بہت ملتی جلتی تھی۔ ایک دوست اگلے دن ہم سے ملا تو بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔ کہنے لگا کہ بری گھڑی سے ڈرو۔ کل کی واردات کی خبر تم نے پڑھی۔ لگتا ہے کہ لاہور میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ شاید یہ وہی دن تھے جب ہم نے باغ جناح میں بدلتے موسم میں کویل کی آواز پہلی مرتبہ سنی تھی اور اس کے بعد پھر آج تک باغ کے کسی گوشے سے کویل کی کوک سنائی نہیں دی۔

کویل ویسے بھی بہت حساس پرندہ ہے۔ اس کی کوک میں بھی ایک عجب درد کی لہر ہوتی ہے۔ تب ہی تو پوربی گیتوں میں اسے دکھیا کوئلیا کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ کویل کی کوک اتنی منفرد ہوتی ہے اور اتنی درد بھری اور اتنی تیز کہ دور دور تک سنی جاتی ہے اور باقی پرندوں کے چہچہوں سے الگ پہچانی جاتی ہے۔ سو اس کے اس باغ سے اڑ جانے کا تو بہت جلدی احساس ہو گیا۔ باقی اس کے ساتھ اور کون کون پرندے یہ سوچ کر کہ ع

اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

اس کے ساتھ یہاں سے اڑ گئے

اپنے باغوں اور جنگلوں سے کسی بھی پرندے کی چہچہاہٹ کا گم ہو جانا' آسمان پر اس کی پرواز کا دکھائی نہ دیتا۔ یہ کوئی اچھا شگن نہیں ہے۔ ہمارا ماتھا تو اسی روز ٹھنکا تھا جب ہم نے اخبار میں پڑھا کہ تھر میں موروں کو فضا اب راس نظر نہیں آ رہی۔ وہ مرتے چلے جا رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں