قابل تقلید باتیں
یہ اچھا اتفاق بھی ہے کہ راقم کو کئی مرتبہ مصیبت کے وقت جب کسی کی مدد کی ضرورت پڑی۔۔۔
ہمارے ایک قاری نے کہا ہے کہ تنقیدی موضوعات سے ہٹ کر عوام میں شامل اچھے لوگوں کے کردار کو بھی موضوع بنانا چاہیے۔ راقم نے آج کے کالم کے لیے اچھے لوگوں کی چند ایک مثالوں کا انتخاب کیا ہے گو کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اچھے لوگوں کے باعث ہی ہمارا معاشرہ آج بھی دیگر معاشروں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے۔
کراچی شہر میں رہتے ہوئے جو مثالی واقعات میں نے دیکھے ہیں ان میں وہ واقعات بھی شامل ہیں کہ جن میں شہر میں سخت کشیدگی، جلاؤ گھیراؤ ہونے کے باوجود انسانی رشتوں کی عظمت نظر آتی ہے۔ مثلاً 80 کی دہائی میں جب مہاجر قومی موومنٹ تیزی سے سندھ کے شہروں میں مقبول ہو رہی تھی اور سماج دشمن عناصر ایسے میں مہاجر پٹھان کے نام پر لسانی فسادات کرانے کے در پے تھے۔ راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب مہاجر قومی موومنٹ کے ایک یونٹ انچارج نے اپنی جان پر کھیل کر محلے کے ایک پٹھان خاندان کی نہ صرف جان بچائی بلکہ انھیں محفوظ مقام تک پہنچایا۔ اسی طرح کئی واقعات میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے افراد نے اردو بولنے والوں کی جانیں محفوظ کیں۔
یہ اچھا اتفاق بھی ہے کہ راقم کو کئی مرتبہ مصیبت کے وقت جب کسی کی مدد کی ضرورت پڑی تو اس میں مدد کرنے والے بیشتر لوگ پشتو زبان بولنے والے تھے۔ ایک مرتبہ میرے بھائی بہن اپنی کار میں حیدر آباد جا رہے تھے کہ الآصف اسکوائر (سہراب گوٹھ) کے قریب اسٹریٹ کرائم والوں نے گھیر لیا جو شکل و صورت سے افغانی قسم کے لگتے تھے۔ ابھی ان کی لوٹ مار کی کارروائی جاری تھی کہ قریب ہی سے ایک چھوٹے ٹرک میں چند لوگ جو پختون تھے، گزر رہے تھے انھوں نے یہ صورت حال دیکھ کر ٹرک سے چھلانگ لگا دی اور ان لوٹ مار کرنے والے افراد کو للکارا، ان کے پیچھے بھاگے، دلچسپ بات یہ ہے کہ مدد کرنے والے یہ افراد خالی ہاتھ تھے جب کہ لوٹ مار کرنے والوں کے پاس اسلحہ تھا مگر وہ اچانک للکارنے پر بھاگ کھڑے ہوئے۔
یہ تو چند مثالیں راقم نے پیش کیں ورنہ ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک اچھی خصوصیت ہے کہ باوجود لسانی و مسلکی تعصبات کے اس معاشرے کے رہنے والے مصیبت کے وقت میں ایک دوسرے کی مدد بالکل ایسے کرتے ہیں کہ جیسے وہ ایک باپ کی سگی اولاد ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اپنی شریک حیات کو آپریشن کے بعد اسپتال سے گھر لا رہا تھا تو تھکاوٹ کے عالم میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اب گھر پہنچ کر صفائی ستھرائی بھی کروں گا کیونکہ صبح جب اسپتال کے لیے آیا تھا تو اس وقت سارا گھر پھیلا ہوا تھا۔
جھاڑو کئی دن سے نہیں لگی تھی۔ مگر جب میں گھر پہنچا اور گھر کا تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو حیران رہ گیا کہ گھر انتہائی صاف ستھرا تھا، ہر چیز سمٹی ہوئی تھی حتیٰ کہ واش روم تک دھلا ہوا تھا۔ یہ کیا ماجرا ہوا؟ معلوم ہوا کہ ہمارے گھر کی چابی جس پڑوسی کے گھر میں احتیاط کے طور پر رکھی ہوئی تھی انھوں نے ایک اور پڑوسن کے ساتھ مل کر ہمارے گھر کی تمام صفائی ستھرائی کر دی تھی کہ آج ان کی پڑوسن اسپتال سے گھر آ رہی ہے۔
راقم کے ایک قریبی دوست (جن کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں کہ وہ ناراض ہوں گے حالانکہ آج کل لوگ پبلسٹی پر بڑے خوش ہوتے ہیں) انسان دوست عادت رکھتے ہیں۔ موٹر سائیکل چلاتے ہیں تو ساتھ ایک خالی بوتل رکھتے ہیں، میں نے پوچھا کہ یہ چھوٹی بوتل کس لیے وہ بھی خالی؟ کہنے لگے کیا پتہ کسی موٹرسائیکل سوار کا پٹرول ختم ہو جائے اور وہ پیدل گرمی میں چلنے پر مجبور ہو، ایسے میں یہ بوتل پٹرول فراہم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ دوست اپنے پڑوسیوں کے بھی صبح و شام کام آتے ہیں، کسی کا سودا لانا ہو یا موٹر سائیکل پر لفٹ دینا ہو ہر وقت خدمت خلق کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انسان دوست بننا بھی تبلیغ کا ایک اچھا طریقہ ہے لوگ آپ سے متاثر ہوں گے تو آپ سے محبت کریں گے اور آپ جیسا بننے کی کوشش کریں گے اور جب آپ جیسا بننے کی کوشش کریں گے تو آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ بھائیوں نماز پڑھو! بلکہ جب آپ مسجد جائیں گے تو یہ مسجد جانے کے عمل میں آپ کو فالو کریں گے۔ ہمیں ان کی یہ بات بڑی پسند آئی ہے کہ آپ خود اتنے اچھے بن جائیں کہ لوگ خود آپ کو فالو کریں۔
لہٰذا اب مجھے یہ سوچنا ہے کہ اگر میں یہ چاہتا ہوں کہ لوگ میری طرح بن جائیں اور میری طرح سوچیں تو پھر مجھے اپنا کردار کیسا بنانا چاہیے؟ یعنی میں لوگوں کو کیسے متاثر کروں کہ لوگ مجھ سے محبت کریں اور مجھے فالو کریں؟ اس کے لیے مجھے وہ کردار ادا کرنا ہو گا جو میں ابھی تک ادا نہیں کر رہا ہوں، مثلاً اگر میں ایک فیکٹری کا مالک ہوں یا کسی دکان میں چند لوگ میرے ملازم ہیں تو میں ان کی تنخواہیں وقت پر دوں اور کم ازکم اتنی دوں کہ ایک خاندان کا ماہانہ بجٹ بن سکے یا خرچہ چل سکے۔ اگر میں استاد ہوں تو طالب علموں سے اتنی شفقت کروں کہ وہ کلاس میں لیکچر ختم ہوتے ہی بھاگ نہ جائیں بلکہ اضافی وقت میں میرے پاس بیٹھیں اور کچھ سیکھیں۔
اگر میں دکاندار ہوں تو میرا ناپ تول ایسا ہو کہ کوئی گاہک شکایت نہ کرے اور میرا اخلاق ایسا ہو کہ گاہک بلا جھجھک مال واپس بھی کرانے آئے۔ اگر میں کوئی سرکاری افسر یا بڑا سیاستدان ہوں تو لوگوں کو ملاقات کے لیے، حصول انصاف کے لیے دھکے کھانے نہ پڑیں ہر کوئی آسانی سے ملاقات کر سکے اپنی شکایت بیان کر سکے۔ اگر میں کہیں ملازم ہوں تو اس ادارے سے اس طرح وفاداری کروں کہ اس کا ایک پائی کا بھی نقصان نہ ہو، اور اسی طرح میں ایک آجر ہوں تو اپنے اجیروں کے حقوق کا بھی خیال کروں اور عزت دار طریقے سے ان کی مدد بھی کروں، بیماری میں اور مالی مشکلات میں بھی مثلاً رمضان اور عید کی آمد پر عزت دار طریقے سے بونس یا کم ازکم ایک ماہ کی آدھی تنخواہ تو ضرور دوں کہ اجیر بھی خوشگوار حیرت سے دعا دے، آجر کو ایک مثالی انسان سمجھیں اور اس کو فالو کرنے کی کوشش کریں۔
آئیے غور کریں! کہ رمضان اور عید بھی قریب ہے معاشرے کی اچھی باتوں کو اپنائیں، اچھی روایتیں مضبوط بنائیں۔