کراچی کھربوں کی سرکاری زمین لینڈ مافیا اور بلڈرز کے حوالے کرنے کا انکشاف

انسپکشن ٹیم نے شروع کی گئی غیرقانونی الاٹمنٹ کی تفتیش بااثر مافیا کے دباؤ پر روک دی


تحقیقاتی ٹیم صرف منگھوپیر میں 5500 ایکڑ اراضی پرجعلسازی کا تعین کر سکی۔ فوٹو: فائل

کراچی میں جعلسازی اور سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کے ذریعے کھربوں روپوں کی سرکاری زمین بااثر افراد، لینڈ مافیا اور بلڈرز کے حوالے کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم (سی ایم آئی ٹی)کی جانب سے شروع کی گئی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تفتیش بااثر مافیا کے دباؤ پر روک دی گئی ہے۔

سابق نگران وزیراعلیٰ سندھ کی ھدایت پر بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم کوکراچی کے4 اضلاع غربی، شرقی، ملیر اور کیماڑی میں ہزاروں ایکڑسرکاری زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ، سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل اور بڑے پیمانے پرجعلسازی کی تفتیش کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا جبکہ تحقیقاتی ٹیم صرف ضلع غربی کی تحصیل منگھوپیر میں 5500 ایکڑ اراضی پرکی گئی جعلسازی کا تعین کرسکی ہے۔

تحصیل منگھوپیرکی تفتیشی رپورٹ مہینہ گزرنے کے باوجود مزید قانونی اقدام کے لیے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو تاحال نہیں بھیجی گئی ہے، ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ، سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل اور بڑے پیمانے پر جعلسازی کی عوامی شکایات کے بعد مذکورہ تحقیقات کا آغاز کیاگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے منع نامے کے باوجود ریونیو افسران نے بڑے پیمانے پر بورڈ آف ریونیو افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے الاٹمنٹس کی ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ایم آئی ٹی میں بقایا ریکارڈ کی موجودگی کے باوجود مزید اضلاع کی تحقیقات کو بااثر لینڈ مافیا کے دباؤ پر بندکردیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں بڑے پیمانے پر کیے گئے فراڈ میں ملوث سرکاری افسران، پرائیویٹ افراد اور فائدہ اٹھانے والی شخصیات کا بھی تعین کیا گیا ہے، کمیٹی سی ایم آئی ٹی کے ممبر آغا اعجاز پٹھان، سیکشن افسر سید امجد، مختیارکار شوکت بھنگوار اور سپروائزنگ تپیدار میر برکت ٹالپر پر مشتمل تشکیل دی گئی تھی۔

کمیٹی کو غیرقانونی الاٹمنٹ، ریکارڈ آف رائٹس میں پرائیویٹ افراد، بلڈرز اور لینڈ مافیا کو فائدہ دینے کے لیے رکھے گئے جعلی داخلے اور روینیو ریکارڈ میں جعلسازی اور جان بوجھ کر ریکارڈ کو ضایع کرنے کے معاملات کی تفتیش کرنے کا کہا گیا تھا۔

ٹیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے منع نامے کے باوجود 2012 سے 2023 تک محکمہ لینڈ یوٹیلائیزیشن کی جانب سے زمینوں کی کی گئی الاٹمنٹ کا جائزہ لیا، تفصیلات کے مطابق املاک کے ریکارڈ میں ممکنہ ردوبدل اور جعلسازی کے خدشے کی بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد آئینی درخواستوں، سوموٹو کارروائیوں کی سماعت کے دوران سندھ حکومت، محکمہ لینڈ یوٹیلائیزیشن کو سرکاری زمین کی میوٹیشن، الاٹمنٹ، منتقلی پر روینیو ریکارڈ کی دوبارہ تشکیل تک پابندی عائد کر دی تھی۔

تحقیقات میں افغان باشندوں کے بڑے پیمانے پر غیر قانونی ڈومیسائل بنا کر ان کو پاکستانی شہری ظاہر کرکے ان کے نام بھاری رشوت کے عوض ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کی ابتک کی گئی تحقیقات میں اسسٹنٹ کمشنر عبدالفتاح پنہور، نظیر ابڑو، مشتاق جتوئی، اسد عباسی، جاوید لاڑک، مختیارکار عبدالحق چاوڑو، آصف سومرو، پرویز ملک، شمشاد علی، تپیدار سلیم رضا، خان محمد عمرانی، حق نواز اجن، ممتاز کلوڑ، امان اللہ نندوانی اور دیگر کو جعلسازی سے سرکاری املاک کو اربوں روپوں کے نقصان کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

چیئرمین وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم رفیق برڑو کا کہنا تھا کہ اسٹاف کی کمی اور ریونیو افسران کے عدم تعاون کی وجہ سے تحقیقات کا کام تعطل کا شکار ہے، متعدد بار خطوط لکھنے کے باوجود بورڈ آف ریونیو کے افسران مطلوبہ ریکارڈ نہیں دے رہے ہیں،تحقیقات کا جلد دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں