خدا خدا کرکے الیکشن کا وہ چاند ہماری ان گناہ گار آنکھوں کی زینت بن ہی چکا ہے جسے کچھ لوگ چھپانے اور کچھ نظر آنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے اور ہر آئے دن یہی گماں ہوتا تھا کہ کہیں اس نکلے چاند کے آگے پھر کوئی بادل یا غیر یقینی کی دھند نہ چھا جائے اور ہم ایک بار پھر الیکشن کا ''سیل میلہ'' لوٹنے سے محروم نہ رہ جائیں۔
لیکن اللہ بھلا کرے چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور ان جیسا مائند سیٹ رکھنے والوں کا جنہوں نے 8 فروری 2024 کو عام انتخابات کرانے کے فیصلے کو پتھر پر لکیر قرار دے کر معاملہ ہی حل کردیا۔ حالانکہ چند سینیٹرز نے بھی الیکشن ملتوی کرانے کےلیے سینیٹ میں قراردایں بھی جمع کروائیں، جن کے جواب میں الیکشن کمیشن نے کنفرم کردیا کہ اس سطح پر جب کہ الیکشن کی تیاریاں مکمل ہیں، انتخابات کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا اور اب تو پرنٹنگ پریس میں تقریباً 25 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام بھی بھرپور طریقے سے جاری و ساری ہے اور آج جب کہ الیکشن میں صرف 15 دن باقی ہیں بظاہر انہیں ملتوی کرنے کی کوئی وجہ سامنے نظر نہیں آتی۔
اس سے پہلے الیکشن کے انعقاد کا اعلان ہوجانے کے باوجود جب تک الیکشن کو ملتوی کرانے کے مختلف حیلے حربے میدان عمل میں تھے تو سیاستدان بھی ناپ تول کر قدم رکھ رہے تھے کہ یہ نہ ہو ہم اپنی الیکشن مہم پر ایک کثیر سرمایہ جھونک دیں اور پھر پتہ چلے کہ الیکشن تو ہو ہی نہیں رہے۔ اس لیے مختلف سیاستدانوں نے محتاط طریقے سے مہم کا آغاز کیا ہوا تھا لیکن ساتھ یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ جانے الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ اس کے بعد جیسے ہہ الیکشن کے آسمان پر دھند صاف ہوئی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کا چاند صاف اور نکھر کر سامنے آگیا تو پھر تو جیسے تمام سیاستدانوں اور ان کے چیلوں کے پر پُرزے نکل آئے اور اب وہ کچھ دنوں سے کھل کر عوام میں گھل مل گئے ہیں اوران کی آنیاں جانیوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ''نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز''۔
اب سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار عوام کے مسیحا کا روپ دھار کر راتوں کو گلیوں محلوں میں گشت کرتے ہیں اور دن میں گھر گھر دستک دے کر عوام کا حال پوچھ رہے ہیں، بیماروں کی تیمارداری، اس جہان سے گزر جانے والوں کی فاتحہ خوانی، شادی والوں کے گھر مبارکبادیں، کسی کا بچہ یا بچی پاس ہوئے تو ان کی مبارک باد۔ الغرض عوام اور ان کے محبوب قائدین پیار و محبت اور اتفاق و اتحاد کی ایک ایسی لڑی میں پروئے جاچکے ہیں کہ بھولے عوام کو لگتا ہے کہ اب اس رشتے کو قیامت کی صبح تک کوئی توڑ نہیں سکتا اور ایسا لگتا ہے کہ اب شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی بھی پیئیں گے لیکن ہم ''خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا''۔
عوام کےلیے اصل خوشی کی بات تو یہ ہے کہ جب سے سیاستدانوں کو الیکشن کے انعقاد کا یقین ہوا ہے انہوں نے اپنی جیت کی صورت میں عوام کے لیے سہولتوں کا لوٹ سیل میلہ لگا دیا ہے۔ کوئی ملازمین کی تنخوائیں ڈبل کررہا ہے، کوئی جوانوں کی جھولی میں لیپ ٹاپ ڈال کر ترقی کا سفر وہیں سے شروع کرنا چاہ رہا ہے جہاں سے ان کے بعد رک گیا ہے، کوئی 300 یونٹ فری بجلی دینے کی نوید سنا رہا ہے، کسی نے پہلے 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا اور آج کوئی 30 لاکھ مکان بنا کر دینے کو عملی جامہ پہنانے کے وعدے کر رہا ہے۔ کسان کارڈ، یوتھ کارڈ، پانی بجلی اور گیس تو گھروں سے کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے گی۔ کوئی مہنگائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے، کوئی ڈالر کو نیچے لانے اور یوٹیلٹی بلز کو بہت مناسب سطح پر لانے کا اعلان کررہا ہے۔ ہمارا کوئی ہمدرد اشرافیہ سے سبسڈیز واپس لے کر ہم غریب عوام کی جھولی میں ڈالنے کے درپے ہے۔ یہ ساری باتیں سن کر ہمارا دل خوش سے اچھل رہا ہے اور اپنے محسنوں کو یہی کہہ رہے کہ ''بس کرو پگلو، رلاؤ گے کیا؟''
الغرض ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر ہمارے لیے سہوتوں کا جمعہ بازار لگا کر بیٹھا ہے۔ بس دیر ہے تو صر ف ان کے انتخابات میں فتح یاب ہونے کی، جس کی کنجی صر ف اور صرف عوام کے پاس ہے، جس نے پردے کے پیچھے جاکر اپنے دل اور دماغ کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے کس کے ''لوٹ سیل میلہ'' سے شاپنگ کرنی ہے۔
الیکشن کے چاند کے بعد ملک بھر میں پرنٹنگ کا کام کرنے والوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے ہیں اور وہ رات دن کام کر کے بھی آرڈر پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ چاہتے تو ہیں کو سارا میلہ خود ہی لوٹ لیں مگر ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے جن پارٹیوں اور سیاستدان کو اپنی مارکیٹنگ کےلیے اپنے شہروں سے مطلوبہ تعداد میں جھنڈے، بینرز، پینافلیکس اور اسٹیکرز دستیاب نہیں وہ اپنے کارندوں کو بڑے شہروں کی طرف رخ کرکے ہر صورت میں مطلوبہ چیزیں پوری کرنے کے آرڈرز دے چکے ہیں اور لگتا ہے پرنٹنگ اور پینٹنگ والے ان لوگوں سے اپنا اگلے انتخابات تک کے عرصے کےلیے اپنے کچن چلانے کے اخراجات پورے کرلیں گے۔ ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ کہتے ہیں کہ آج ہی تو یہ ہمارے پاس آئے ہیں بلکہ صاف لفظوں میں آج ہی تو یہ ہمارے ہاتھ آئے ہیں۔ گویا بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔
عوام کو سمجھانے والی بات ہے کہ اپنے رہنماؤں کے کل کے وعدوں پر یقین کرنے کے بجائے آج کچھ کرنے کا مطالبہ کریں، کیوں کہ بعد میں ''رات گئی بات گئی'' والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ ابھی جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جائیں گے ان کے ''لوٹ سیل میلہ'' میں فراہم کی جانے والی سہولتوں میں اضافہ ہوتا جائے گا، اس لیے آپ سب سے درخواست ہے کہ جلسوں کو دیکھ کر یا کسی عوامی رہنما کو اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑا دیکھ کر اپنے ہوش و حواس نہ کھو دیں بلکہ اپنی حالت دیکھ کر اور ملک کے حالات دیکھ کر اپنے دل اور دماغ سے درست تجزیہ کرکے 8 فروری 2024 کو پولنگ والے دن پردے کے پیچھے جاکر مہر اور اپنے انگوٹھے کا درست استعمال کریں۔ کیونکہ اس صورت میں آپ کو لوٹ سیل میلہ سے کچھ ملے یا نہ ملے، کم از کم آپ کا ضمیر تو مطمئن ہوگا اور کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ دوسروں کو مطمئن کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مطمئن کریں۔
ہمارا اور ہمارے ملک کا مستقبل ہمارے ووٹ سے وابستہ ہے۔ لہٰذا آئیے یہ امانت اس کے حق دار کو پہنچا کر خود کو سرخرو کریں۔ پاکستان زندہ باد۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔